بنگلورو: کرناٹک کے متنازعہ دھرمستھلا کیس میں ڈرامائی موڑ آیا ہے۔ اس معاملے کے اہم شکایت گزار، جنہوں نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ اس مذہبی مقام کے آس پاس سیکڑوں لاشیں دفنائی گئی ہیں، نے اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پچھلے تمام بیانات دباؤ اور مجبوری کے تحت دیے گئے تھے۔
شکایت گزار نے انکشاف کیا کہ ایک گروہ نے انہیں جھوٹا ثبوت دینے پر مجبور کیا تھا۔ یہی نہیں، وہ انسانی کھوپڑی بھی اسی گروہ نے دی تھی، جسے انہوں نے پولیس کے سامنے پیش کیا تھا۔ تحقیقات میں یہ کھوپڑی دراصل ایک مرد کی نکلی، جو ان کے دعووں کے بالکل خلاف تھی۔
انہوں نے SIT کو بتایا:
"انہوں نے مجھے کھوپڑی دی، بیان لکھ کر دیا اور کہا کہ اسی طرح بولنا ہے۔ میں ڈر کے مارے ان کی باتوں پر چلتا رہا۔”
شکایت گزار کے مطابق وہ 2014 میں دھرمستھلا چھوڑ کر تمل ناڈو میں بس گئے تھے، لیکن 2023 میں کچھ افراد نے ان سے رابطہ کیا اور انہیں جھوٹے الزامات لگانے پر آمادہ کیا۔ جب انہوں نے کہا کہ تدفین مذہبی روایت کے مطابق ہوتی ہے تو انہیں دباؤ ڈال کر دھرمستھلا کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
SIT کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ شکایت گزار نے جن 16 مقامات کی نشاندہی کی تھی، وہاں سے صرف 2 جگہوں پر ہی ڈھانچے ملے اور وہ بھی مردوں کے تھے، خواتین کے نہیں۔
تحقیقات کاروں کے مطابق شکایت گزار بار بار کھوپڑی کے مقام کے بارے میں اپنے بیانات بدلتے رہے—کبھی بانگلی گڈہ، کبھی بولیارُو اور کبھی کلّیری جنگلات کا نام لیا۔ بالآخر انہوں نے قبول کیا کہ یہ سب دباؤ میں گھڑا ہوا تھا۔
یہ اعتراف اس وقت سامنے آیا جب سجاتھا بھٹ نامی خاتون نے متعلقہ کیس درج کرایا، جس کے بعد شکایت گزار نے ہمت جٹا کر اصل حقیقت بیان کی۔ SIT نے ان کا مکمل ویڈیو بیان ریکارڈ کر لیا ہے، جو آئندہ سازش کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
فی الحال SIT اس بات کی تفتیش تیز کر رہی ہے کہ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے شکایت گزار پر جھوٹے الزامات لگانے کے لیے دباؤ ڈالا۔



