جواد احمد کوڑمکی ندوی
وہ ایک تھے مگر کارواں لگتے تھے۔ آپ عصر رواں کی ایک تاریخ ساز زندگی کے حامل ایک متبحر استاد تھے ،،، آپ اپنی مخلصانہ جدوجہد ، تبحر علمی و خداداد ذہانت اور نرالی شان کے درسی روش کے ذریعے شہر کے ام المدارس جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ایک نمایاں مقام حاصل کیے ہوئے تھے ،،، آپ کے چشمئہ علم و حکمت سے بھٹکل کے ہزاروں تشنگان سیراب ہوئے ،،، قدرت نے آپ کو افہام و تفہیم کا جو ملکہ عطا فرمایا تھا اس میں دور دور تک آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا تھا ،،، آپ کسی شخصیت ، ادارے جماعت یا صاحب ثروت سے مرعوب نہیں ہوتے اور نا ہی کسی کی مدح و ذم کرتے بلکہ ہر ایک سے نہایت خوش اصلوبی و خوش اخلاقی سے ملتے اور ہمہ وقت طبعیت میں سادگی اور عاجزی رہتی۔
ویسے تو گویا شہر بھٹکل کا ہر فرد ماسٹر صاحب کا شاگرد ہی ہے کیونکہ گھر گھر میں جامعہ اسلامیہ سے منسلک ہرفرد ہے الحمد للہ علی ذالک ،،،، لہذا اسی لحاظ سے احقر بھی آپ کے شاگردوں میں سے ایک ستایا ہوا اور آپ کے دل کو موہ لیا ہوا ایک شاگرد تھا ،، دوارن طالب علمی آپ نے اپنے بچے کی طرح بہت لاڑ و پیار سے سمجھایا کہ انگریزی کو کیرلیس مت لیا کرو بلکہ سریس ہو کر پڑھاکرو ،،، سمجھ نا آئے تو بار بار پوچھا کرو ،،، مگر ہم بے وقوفوں کو آپ کی بات کہاں راس آتی ،،، خصوصاً آپ ہی کے گھنٹے میں ہمیں ایسا محسوس ہوتا کہ پورے دن کی تھکاوٹ اسی پریڈ میں دور کرنی ہے ،،، بارہا آپ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی ایسے محسوس ہوتی جیسے والدین کا پیار اپنے بچوں کے لیے ،،، پل بھر کے غصے کو بے تکلفی میں بدلنا ،،، اور لطیفوں سے ہنسانا وغیرہ
آپ کی شفقت و محبت طالب علمی تک محدود نہیں رہی بلکہ بدلتے ایام کے ساتھ ساتھ اتفاقاً آپ کا گھر میری جگہ کے بغل میں ہی بنا اس حساب سے محبت کا ایک اور رشتہ وجود میں آیا اور مجھے آپ کا پڑوسی بننے کا گویا شرف حاصل ہوا ،،،، لہذا طالب علمی کے دور سے لیکر آخری وقت تک ہمارا تعلق بالمشافہ و بالرسائل ہمیشہ جاری رہا اور ہر ماہ آپ میسج کے ذریعے یہی پوچھتے کہ بیٹے شہزادے جواد،،، کب گھر کا کام شروع کروگے ،،، مجھے لگتا ہے شاید یہ جگہ راس نہیں آئی ہوگی اس لیے کہیں اور محل بنا رہے ہونگے ، کوئی بات نہیں اللہ آپ کو خوش رکھے جگہ کے بارے میں بے فکر رہو میں اس جگہ کا خیال رکھ رہا ہوں ،،،
یقین مانیں کہ شاید اللہ تعالیٰ نے آج جو کچھ بھی دیا اور جن نعمتوں سے نوازا ہے وہ والدین اور اساتذہ کی دعاؤں کا ثمرہ ہے ،،، ورنہ اس ناچیز میں وہ قابلیت کہاں ،،،، ہمارے والدین نے بھی بچپن سے ایک بات اچھی طرح ہمیں سکھائی ہوئی تھی کہ اپنے سے بڑوں کا یعنی اساتذہ کا ادب و احترام ہمیشہ برقرار رکھنا ترقی کے منازل طے کروگے ورنہ ترقی کو پہچ کر بھی منزل نا پا سکوگے ،،،، لہذا اسی مناسبت سے انتقال کے دو دن قبل درجے کے سات ساتھیوں پر مشتمل وفد عیادت کے لئے حاضر ہوا ،،، دوران عیادت ہی ہم طلبہ آپ کی نازک حالت دیکھ کر امید کی کرن لئے واپس لوٹےتھے ،،، بس ڈاکٹروں کے دلاسے پر ان کے فرزند بھی تھوڑا بہت مطمئن تھے ،،،، مگر تیسرے ہی دن وہی گونج اٹھی جو ہر جانے والے کے بعد ایک مومن کی صدا ہوا کرتی ہے انا للہ وانا الیہ را جعون



