بھوپال: مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں بری ہونے والی اور بی جے پی کی سابق رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ایک بار پھر متنازعہ بیان کے باعث سرخیوں میں ہیں۔ بھوپال میں درگا واہنی کے "شستر پوجن” پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ہندو خواتین کو مسلم مردوں سے دور رہنے اور ان سے گھریلو کام نہ لینے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا:
"جب دشمن (مسلمان) آئے تو انہیں آدھا کاٹ دینا چاہیے۔”
بیان کی تفصیل
پروگرام کے دوران پرگیہ ٹھاکر نے مسلم مردوں کے لیے "میّاں” جیسے توہین آمیز الفاظ استعمال کیے اور کہا:
"میّوں میں کوئی بھائی بہن کا رشتہ نہیں۔ اگر وہ اپنی بہنوں کی عزت نہیں کرتے تو تمہاری بہن کیسے بنیں گے؟ کبھی مسلمانوں کو بھائی مت بناؤ۔”
"جب ہماری بیٹیوں کو اغوا کرکے ان کی لاشیں سڑک پر پھینکی جاتی ہیں تو دل میں درد اٹھتا ہے۔ اس درد کو ختم کرنے کے لیے دشمن آئے تو انہیں آدھا کاٹ دینا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ہندو خواتین کو مسلم مردوں سے کسی بھی قسم کی گھریلو مدد نہیں لینی چاہیے، چاہے وہ بجلی کا کام ہو، پانی کی ٹونٹی درست کرنا ہو یا ڈرائیونگ کا معاملہ۔
مسلم مخالف بائیکاٹ کی اپیل
پرگیہ ٹھاکر نے یہ بھی کہا کہ مندر کے اطراف مسلمانوں کی دکانوں سے کھانا نہ خریدا جائے۔ ان کے مطابق:
"ایسے بددھرم دکانداروں کو پہچانو، اگر وہ پرساد بیچتے پکڑے جائیں تو انہیں سبق سکھاؤ اور پولیس کے حوالے کرو۔”
انہوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم پر بالواسطہ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قیادت "ایک بڑی غلطی” تھی۔
سیاسی ردعمل اور مذمت
مدھیہ پردیش اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر امّنگ سنگھر نے پرگیہ ٹھاکر کے بیانات کو "انتہائی قابلِ اعتراض” قرار دیا اور بی جے پی پر الزام لگایا کہ وہ عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہی ہے۔ ان کے بقول:
"بی جے پی دوسروں پر ہندو مسلم سیاست کا الزام لگاتی ہے، لیکن اس کے اپنے رہنما کھلے عام اشتعال انگیز تقریریں کرتے ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی اور بھرتی گھوٹالوں سے عوام کو بھٹکانے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔”
پس منظر
یہ پہلی بار نہیں کہ پرگیہ ٹھاکر نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیان دیا ہو۔ اس سے قبل بھی وہ بارہا "لو جہاد” کا مفروضہ پھیلا چکی ہیں اور کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد پر اکساتی رہی ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا:
"گھروں میں ہتھیار رکھو، انہیں تیز رکھو۔ جس طرح سبزی کاٹ سکتے ہو اسی طرح دشمن کا سر بھی کاٹا جا سکتا ہے۔”
ان کے ان بیانات پر کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں اور سول سوسائٹی و انسانی حقوق تنظیموں کی جانب سے مسلسل مذمت کی جاتی رہی ہے۔




