غزہ کے الشفاء اسپتال کے مطابق 28 سالہ انس الشریف اور ان کے ساتھیوں کو اسپتال کے مرکزی دروازے کے قریب اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ صحافیوں کے لیے لگائے گئے ایک خیمے میں موجود تھے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر ٹارگٹڈ اسٹرائیک تھا۔
شہادت پانے والوں میں الجزیرہ کے رپورٹر محمد قریقیہ، کیمرا مین ابراہیم ظاہر اور میڈیا ورکر محمد نوفل شامل ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق انس الشریف نے شمالی غزہ میں اسرائیلی بمباری، انسانی بحران اور جنگی جرائم کی وسیع کوریج کی تھی، جس کے بعد سے انہیں مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں۔
اسرائیلی فوج نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انس الشریف پر الزام لگایا ہے کہ وہ مبینہ طور پر حماس کے ایک سیل کی سربراہی کر رہے تھے تاہم اس دعوے کے شواہد تاحال منظرِ عام پر نہیں لائے گئے۔
ذرائع کے مطابق انس الشریف ان صحافیوں میں شامل تھے جو غزہ میں جاری تباہی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے دن رات مصروف تھے۔
واضح رہے کہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز سے اب تک 200 سے زائد صحافی اور میڈیا کارکنان شہید ہو چکے ہیں، جن میں متعدد کا تعلق الجزیرہ نیٹ ورک سے تھا۔
یہ میری وصیت اور میرا آخری پیغام ہے۔
اگر یہ الفاظ تم تک پہنچیں، تو جان لو کہ اسرائیل مجھے قتل کرنے اور میری آواز خاموش کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
سب سے پہلے، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته۔
اللہ جانتا ہے کہ میں نے اپنی قوم کا سہارا اور اس کی آواز بننے کے لیے اپنی ہر کوشش اور تمام قوت لگا دی، جب سے میں نے جبالیا پناہ گزین کیمپ کی گلیوں اور راستوں میں آنکھ کھولی۔ میری امید یہ تھی کہ اللہ میری زندگی کو اتنا بڑھا دے کہ میں اپنے گھر والوں اور عزیزوں کے ساتھ اپنی اصل بستی، مقبوضہ عسقلان (المجدل) لوٹ جاؤں۔ مگر اللہ کی مرضی مقدم ہے اور اس کا فیصلہ حتمی۔
میں نے زندگی کے ہر پہلو میں درد جھیلا، بارہا تکلیف اور نقصان کا ذائقہ چکھا، پھر بھی میں نے کبھی سچ کو اس کی اصل حالت میں پہنچانے سے گریز نہیں کیا—بغیر کسی توڑ مروڑ یا تحریف کے—تاکہ اللہ ان لوگوں کے خلاف گواہ ہو جو خاموش رہے، جو ہمارے قتل کو قبول کرتے رہے، جو ہماری سانسیں گھونٹتے رہے، اور جن کے دل ہمارے بچوں اور عورتوں کے بکھرے جسم دیکھ کر بھی نہ پسیجے اور جنہوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کچھ نہ کیا جو ہماری قوم ڈیڑھ سال سے سہہ رہی ہے۔
میں تمہیں فلسطین کے حوالے کرتا ہوں—جو مسلم دنیا کا تاج ہے، اور اس دنیا کے ہر آزاد شخص کی دھڑکن۔ میں تمہیں اس کے لوگوں کے حوالے کرتا ہوں، اس کے مظلوم اور بے گناہ بچوں کے حوالے کرتا ہوں، جنہیں کبھی خواب دیکھنے یا امن و سکون میں جینے کا موقع نہ ملا۔ ان کے پاکیزہ جسم اسرائیلی بموں اور میزائلوں کے ہزاروں ٹن ملبے تلے کچل دیے گئے، چیتھڑے ہو کر دیواروں پر بکھر گئے۔
میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ زنجیریں تمہیں خاموش نہ کر سکیں، نہ سرحدیں تمہیں روک سکیں۔ زمین اور اس کے لوگوں کی آزادی کے لیے پل بنو، یہاں تک کہ وقار اور آزادی کا سورج ہمارے لوٹے ہوئے وطن پر طلوع ہو۔
میں تمہارے سپرد کرتا ہوں میرے گھر والوں کا خیال۔ میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنی بیٹی شَام کو—میری آنکھوں کی ٹھنڈک—جسے میں اپنی خواہش کے مطابق بڑھتا دیکھ نہ سکا۔
میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنے بیٹے صلاح کو، جس کے ساتھ میں جینا چاہتا تھا اور اسے زندگی میں سہارا دینا چاہتا تھا، یہاں تک کہ وہ میرا بوجھ سنبھال سکے اور مشن کو آگے بڑھا سکے۔
میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنی والدہ کو، جن کی دعائیں مجھے اس مقام تک لائیں، جن کی دعائیں میرا قلعہ اور جن کا نور میری رہنمائی کرتا رہا۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں طاقت دے اور ان کو بہترین جزا دے۔
میں تمہارے سپرد کرتا ہوں اپنی شریکِ حیات کو—ام صلاح (بیان)—جس سے جنگ نے مجھے طویل دنوں اور مہینوں تک جدا رکھا، مگر وہ ہمارے رشتے کی وفادار رہی، زیتون کے اس تنے کی طرح ثابت قدم جو کبھی نہیں جھکتا—صابرہ، اللہ پر بھروسہ رکھنے والی، اور میری غیر موجودگی میں پوری قوت اور ایمان کے ساتھ ذمہ داری نبھانے والی۔
میں تم سے کہتا ہوں کہ ان کے ساتھ کھڑے رہنا، ان کا سہارا بننا اللہ کے بعد۔ اگر میں مروں تو میں اپنے اصولوں پر ثابت قدم رہتے ہوئے مروں گا۔ میں اللہ کے سامنے گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کے فیصلے پر راضی ہوں، اس سے ملاقات کا یقین رکھتا ہوں، اور یقین رکھتا ہوں کہ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور دائمی ہے۔
اے اللہ! مجھے شہداء میں شامل فرما، میرے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف فرما، اور میرے خون کو میری قوم اور میرے گھر والوں کے لیے آزادی کا چراغ بنا دے۔ اگر میں نے کوتاہی کی ہے تو مجھے معاف فرما، اور مجھ پر رحمت کی دعا کرو، کیونکہ میں نے اپنا وعدہ نبھایا اور کبھی بدلا یا دھوکہ نہیں دیا۔
غزہ کو مت بھولو… اور مجھے اپنی مخلص دعاؤں میں نہ بھولنا، بخشش اور قبولیت کے لیے۔
انس جمال الشریف
06.04.2025
یہی وہ پیغام ہے جس کی انس نے وصیت کی تھی کہ شہادت کی صورت میں شائع کیا جائے۔




