آہ والد ِمحترم،سید نظام الدین ایس ایم
تحریر ۔ سید ہاشم نظام ندوی
ایڈیٹر انچیف فکروخبر
بسم الله الرحمن الرحيم، وبه نستعين، وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد
وہ ایک ولی صفت انسان تھے، حسنِ اخلاق کی زندہ مثال تھے۔جوسادگی،جذبہ خدمت گزاری،عاجزی وانکساری،صبر وقناعت، زہد وعبادت اور تقوی وطہارت کی ایک عملی تصویر تھے،دعوت و تبلیغ کے شیدائی اور اسلام کے فدائی تھے، جن کی جوانی احیائے کلمۃ اللہ میں گزری، عمر کا بیشتر حصہ خدمتِ خلق اور دعوت وتبلیغ کی محنت میں گزارا ۔ شہر کے لوگ ” جنھیں ” نظام الدین بھاؤ” کے نام سے جانتے تھے۔ جی ہاں یہ ہمارے والدِ ماجدمرحوم جناب سید نظام الدین ایس ایم رحمہ اللہ تھے، وہ ہم بھائی بہنوں کےلیےایک کائنات تھے، جو بروز جمعہ ۱۰/ جون1938مورخہ ۱۲ ربیع الثانی ۱۳۵۷ ہجری ، صمد منزل میں پیدا ہوئے اور /۸ صفر المظفر سنہ ہجری ۱۴۴۶ ، مطابق ۱۴ / اگست 2024 عیسوی بروزبدھ بوقتِ صبح اللہ اللہ کہتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ إنا لله و إنا إليه راجعون۔
آپ نے الحمد للہ ہجری تاریخ کے اعتبار سے تقریبا نوے بہاریں اورعیسوی اعتبار سے عمرِ عزیز کی ستاسی بہاریں دیکھیں، والدِ ماجد کا سایہ سر سے اٹھتے ہی پتہ چلا کہ پیروں تلے زمین کھسک جانے کی حقیقی تعبیر کیا ہوتی ہے، نعمت کے فقدان پر انسان پر کیا گزرتی ہے۔ غم وافسوس کی تشریح الفاظ وکلمات میں کرنا بہت مشکل ہے، یقینا یہ وہ احساسات ہیں جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں، جس پہ بیتتی ہے یہ وہی جانتا ہے اور یہ عجب شانِ قدرت ہے کہ غم اور طبعی غم کا احساس آدمی کو نعمت کے چلے جانےکے بعد ہی ہوتا ہے، قساوتِ قلبی بھی اس غم کے آگے ختم ہو جاتی ہے، سخت سے سخت دل بھی آنکھ سے آنسو ٹپکانے پر مجبور ہوتا ہے اور یہ عجیب شانِ حکمت بھی ہے کہ اس احساسِ غم میں پائیداری نہیں ہوتی ، بلکہ شریعت اسلامیہ نے قضا وقدر پر ایمان رکھتے ہوئے انسانی فطرت کا خیال رکھا، آنسو بہانے کی ایک حد تک اجازت دے دی،طبعی غم وافسوس کے اظہار کے لیے تعزیت کو مسنون قرار دیا، اولاد کو سوگ منانے کے لیے بھی اصول بتائےاور بیوی کے لیے عدت کے ایام متعین کیے ۔
رہے تھےمدتوں روشن چراغِ خانداں ہو کر :۔
آپ اہلِ بھٹکل کے خانوادۂ سادات کے چشم وچراغ تھے، اولادِ سید عبد الصمد سید محیی الدینا كے آخری چشم وچراغ تھے، اولاد میں سب سے چھوٹے تھے،اپنے تین بھائیوں اور چار بہنوں کے منظورِ نظر تھے،ہر ایک آپ سے محبت کرتا اور آپ بھی سب سے محبت کرتے، ہر ایک کے کام آتے،کسی کام کے کہنے پر بخوشی اپنی ذمے داری نبھاتے، اپنے بڑوں کا پورا خیال رکھتے، ان کے کام آنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے۔وہ اپنے خانوادے كے لیے اچھے اور بہترین مشیر تھے، مشورہ کی اہمیت کی بنا پر ہر مشورہ کو بڑی اہمیت سے سنتے اورمشورہ امانت سمجھ كر دیتے تھے، اپنی رائے کو نافذ کرانے کی کوشش کے بجائے سمجھانے کے انداز میں رائے دیتے، جو بات آپ کو پسند ہوتی یا شرعی نقطۂ نظر سے مناسب ہوتی بتا دیتے،رائے دینے کا انداز بھی بڑا پیارا اور نرالا ہوتا ،جسے سن كر سائل اور مخاطب مطمئن ہو كر شكر گزار ہوجاتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یہ بات قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ مرحوم دادا سید عبد الصمد صاحب کی اولاد ان کے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے مابین روابط بہت مستحکم اور پختہ پائے جاتے ہیں اور پھر بعد کی دوسری اور تیسری بلکہ چوتھی نسل تک بفضلِ الہی کہیں کسی کو کسی سے اختلاف نہیں ہے، سھہی آپس میں شیر وشکر ہیں، دنیا کے مختلف ملکوں اور الگ الگ علاقوں میں مقیم رہنے کے باوجود خوشی و غم میں اکٹھے ہو تے ہیں، شادی بیاہ کے موقعوں پر شرکت کرنے کا اہتمام ہوتا ہے، آپس میں ملتے جلتے ہیں، تحفے تحائف کے سلسلے چلتے ہیں،اپنی محبتوں اور چاہتوں کا اظہار کرتے ہیں۔
والد صاحب کی حیثیت پورے کنبے اور خاندان میں میرِ کارواں یا دینی پیشوا کی تھی،آپ کے ذریعے ان میں دینی روح بیدار ہوئی،دین کی اہمیت پیدا ہوئی، جس کے لیے آپ نے اصلاحِ نفس کی مجلسوں اور خصوصی ملاقاتوں کے ذریعے فرد فرد تک پہنچ کر دعوتِ دین کے فریضے کو انجام دیا،اپنے والدین کے لیے ایک ہو نہار اور فرماں بردار فرزندِ ارجمند تھے، وہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے لاڈلے اور چہیتے بھائی تھے،اپنی رفیقۂ حیات کے لیے وفا شعار شوہر تھے، اپنی اولاد کے لیے بہترین اور مشفق ترین باپ تھےاور اہلِ بھٹکل کےلیے قابلِ فخر تھے۔
حسنِ اخلاق اور تصویرِ سلف : ۔
دنیا کی ظاہر بیں نگاہیں اس مردِ مومن کے خد وخال سے واقف تو تھیں، مگر یہ حقیقی معنوں میں کس حسنِ اخلاق کے درجے پر فائز تھا جانتی نہیں تھیں۔ آج اگر ان کے فضائل وکمالات کو ذرا تفصیل سے بیان کیا حائے اور حدیث کی زبان میں "اذكروا محاسن موتاكم” یعنی اپنے گزرے ہوئے لوگوں کی خوبیوں کو یاد کرو” پر عمل کرتے ہوئے قدرے تفصیل سے تحریر کیا جائے تو بہتوں کو مبالغہ کا شک ہو سکتا ہے۔ لیکن جن احباب اور اعزہ واقرباء کو خوش نصیبی سے ذاتی نیاز حاصل ہوا ہے اور ان کے شب وروز کو انھوں نے بہت قریب رہ کر دیکھا ہےوہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی حیات ِمستعار کے ہر سال پر کئی صفحات سیاہ ہو سکتے ہیں اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو ایک کتابچے میں ترتیب دیا جا سکتا ہے۔
الحمد للہ حسنِ عمل اب بھی مسلمانوں سے مکمل رخصت نہیں ہوا ہے، بزرگی، مقبولیت اور عبدیت صرف مخصوص طبقہ کی جاگیر نہیں ہے، اہل اللہ اور بزرگوں کا وجود خانقاہوں، آستانوں، علمی درس گاہوں اور دینی مراکز تک محدود نہیں ہے۔بلکہ دنیا کے گوشوں اور ہر ملک کے مختلف زاویوں میں اب بھی بعض بڑے بڑے زاہدانِ شب بیدار موجود ہیں، اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین پائے جاتے ہیں۔ قومی کام کرنے سے لے کر دعوتی میدان تک اب بھی چند نہایت مخلص اور پختہ ایمان والے زندہ ہیں، جن کی بدولت گویا دنیا کا نظام جاری وساری ہے، جن کی دعائے نیم شب ہماری نافرمانیوں اور گناہوں کے باوجود عذابِ الہی کو روکے ہوئے ہے، جنھیں دیکھنے سے اللہ کی یاد آتی ہے، جن کی صحبت سے اصلاح ہوتی ہے اور ان کی رفاقت ولایت کا درجہ عطا کرتی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ سب سے وزنی چیز جو مومن کی میزان میں رکھی جائے گی وہ اس کا حسن اخلاق ہے۔ابوجان کےظاہری اعمال اور شب وروز سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی حسنِ اخلاق کا پیکر تھی، بہت معصومانہ تھی، وہ لغزشوں اور آلائشوں سے بہت پاک تھے۔ ہر عمل میں سنت کو تلاش کرتے، مستحبات اور اسلامی آداب کی رعایت فرماتے ، محرمات اور مشتبہات ہی نہیں بلکہ مکروہات تک سے اپنے کو باز رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور فضائل اعمال کی کتاب کا ہر ورق آپ کے سامنے رہتا اور الحمدللہ نام و نمود یا بناوٹ سے بھی اللہ تعالیٰ نے بہت دور رکھا تھا۔ گویا وہ ایک تصویرِ سلف تھے، جو محض اللہ کے فضل وکرم کا مظہر تھا، جس سے اللہ جسے جاہتے ہیں نوازتے ہیں۔ ” ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء” ۔
زندگی کے آغاز سے جوانی کی دہلیز تک : ۔
والدِ ماجد نے ایک متمول گھرانے میں آنکھ کھولی ۔ دادا مرحوم سید عبد الصمد صاحب ایس ایم کا شمار شہر کے امیروں میں ہوتا تھا،لہذا دادا جان نےاپنے زمانہ کے امیر زادوں کی طرح اپنے کچھ بچوں کی تعلیم کا نظم شہرِ کالیکٹ میں تو کچھ کا شہرِ مینگلور میں کرایا ، والدِ ماجد کی تعلیم شہرِ مینگلور میں ہوئی، انگریزی اور کنڑا میڈیم میں پوسٹ گریجویشن کیا ،جوانی کا عالم انہی ناز نخروں اور عیش وعشرت میں گزرا جو عام طور پر مالداروں کا گزرتا ہے۔
تجارتی زندگی کا آغاز دادادا جان رحمہ اللہ تعالی ہی کے ساتھ کیرالا سے ہوا، پہلے کالیکٹ میں تجارتی زندگی سے منسلک ہوئے، پھر کننوراور مینگلور میں دادا جان کی جائیداد سے دکانیں وراثت میں آئیں، جوانی کے ابتدائی مراحل یہیں بسر ہوئے۔پھر دن گزرتے گزرتے ریاستِ کیرالا ہی سے آپ کی زندگی میں تبدیلی شروع ہوئی۔ بزرگوں کی صحبت اور دعوت و تبلیغ سے جب وابستگی سے ذہن و دماغ پردعوتِ دین کے فریضے کا احساس جاگ اٹھا تو اپنی والدہ کی خدمت کے ساتھ ساتھ دعوت سے جڑے رہنے کی غرض سے کیرالا کی تجارت مکمل ختم کر کے بھٹکل میں رہنے کو ترجیح دی،البتہ مینگلور کی تجارت میں اپنے بھائی مرحوم سید عبد القادر صاحب ( دھاکلو صائب) کے ساتھ شراکت توتھی،لیکن تبلیغ میں جڑے رہنے سے دین کی اہمیت دل و دماغ میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ اس شراکت میں بھی کچھ وقت دینا پسند نہیں فرمایا ، اس لیے کہ اس کےلیے اب مینگلور اور کیرالا کی زندگی سے ہٹ کر علمائے دین سے محبت زندگی کا مطلوب بن گیا تھا، مینگلور کے مولانا حکیم محمودصاحب قاسمی کی صحبت اور ان سے تعلق نے علمی مزاج بھی پیدا کر دیا تھا، چوں کہ آپ عبادت و ریاضت اور دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے بہرہ ور اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے آشنا رہنا چاہتے تھے اس لیے دینی کتابیں پڑھنا اور علماء سے کسبِ فیض کرنا آپ کے معمول میں شامل ہو چکا تھا ۔
پھر جب بھٹکل ہی میں مستقل سکونت اختیار کر لی تودعوت و تبلیغ سے وابستہ بزرگ شخصیتوں اور ذمے داروں کے علاوہ بالخصوص شہر کی تین شخصیتوں سےاپنے روابط زیادہ استواررکھے، اپنے کاموں میں مشورے انھیں سے کرنے لگے، حتی کہ عائلی اور گھریلو مشوروں میں بھی ان کو شامل رکھا،جن میں سے ایک حضرت مولانا محمد غزالی خطیبی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ، ان سے تعلقات کی دو خاص بنیادیں تھیں، پہلی دعوت وتبلیغ سے تعلق وانتساب اور دوسری رشتہ داری، مولانا کے ماموں جناب مرحوم محمد حسین خطیب ہمارے پھوپھا لگتےتھے، جن کا مکان ہمارے پڑوس میں بلکہ دونوں ایک ہی احاطے میں تھے، اس لیے مولانا جب بھی دہلی سے بھٹکل تشریف لاتے ہمارے گھرضرور آتے، ایک بار نہیں بار بار آتے، گھنٹوں دینی محنت کےمتعلق گفتگو رہتی،کار گزاریاں سناتے، والدِ ماجد بھی دہلی نظام الدین مرکزکے تاثرات اور وہاں کی باتیں سنتے رہنا پسند فرماتے، گھنٹوں دونوں کی ملاقاتیں رہتیں،کبھی کبھار راقم بھی ان موقعوں کو غنیمت سمجھتا اور ان کے سامنے بیٹھ جاتا، استفادے کی کوشش کرتا، مگر ابھی بچپن تھا، ذہن بڑوں کی باتیں کہاں سمجھ سکتا تھا، البتہ بفضلِ الہی اتنا ضرور ہوا کہ کچھ نہ کچھ تحت الشعور میں محفوظ ہوتارہا۔
اس کے بعد دوسری شخصیت ہمارے کرم فرما اور محسن ، سابق نائب صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل مولانا محمد صادق صاحب اکرمی ندوی دامت برکاتہم کی ہے۔ آپ چوں کہ ہمارے ہی محلے یعنی سلطانی مسجد کے امام تھے، اس لیے اکثر نمازیں انھیں کے پیچھے ادا ہوتیں، والد صاحب بڑی لمبی سنتیں پڑھتے، ہر نماز کے بعد کافی خاصا وقت مسجد ہی میں گزارنا معمول بن گیا تھا، سب مصلیوں کےمسجد سے نکلنے کے بعد مسجد سے چلے جاتے،اس لیے مولانا کے تمام دروس اور تعلیمی حلقوں میں شرکت ہوتی اور آپ قرآن کی تصحیح بھی ایک عرصے تک مولانا ہی کے پاس کرتے رہےاور تیسری اور آخری شخصیت ہمارے سرپرست، سابق قاضی شہرِ بھٹکل اور سابق صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل حضرت مولانا محمد اقبال ملا ندوی کی تھی اور میرے خیال میں ان سب میں سب سے زیادہ تعلقات انہی سے تھے،آپ والدِ ماجد کے مشیرِ خاص تھے، دونوں ایک دوسرے کےپاس آتے جاتے رہتے، خاص خاص مشوروں کے لیے فاروقی مسجد ہی میں نماز سے پہلے پہنچ جاتے یا عشاء کی نماز کے بعد مولانا علیہ الرحمۃ خود ہمارے گھر تشریف لاتے۔ اگر میں ان کی تفصیلات میں چلا جاؤں تو کئی صفحات اسی میں سیاہ ہو جائیں گے۔ الحمد للہ میری دونوں بہنوں اور بھائی سید محسن کو بھی آپ سے شرفِ تلمذ حاصل رہا ہے اوربفضلِ الہی راقم الحروف ان کی وفات تک ان سے مستفید ہوتا رہا اور اپنے نجی مشوروں میں بھی ان سے استفادے کے مواقع فراہم رہے، دونوں بہنوں نے جامعۃ الصالحات سے کسبِ فیض کیاہے۔
داڑھی کی برکت اور احساسِ ندامت :۔
ایک واقعہ اور توفیقِ الہی جسے والدِ ماجد رحمہ اللہ نے براہِ راست کئی بار سنایا تھا۔ وہ یہ کہ والد صاحب کی مکمل تعلیم عصری اسکول اور کنڑا میڈیم میں ہوئی تھی، دین سے کوئی زیادہ تعلق نہیں تھا اور نہ ہی پورے خاندان کا اس طرف میلان۔ والد صاحب فرماتے ہیں کہ میرا رخ دین کی طرف موڑنے میں سب سے بڑاحصہ جناب محمد اسماعیل برماور ( والد مولانا محمد ایوب صاحب وغیرہ )کا تھا اور وہ اس طرح کہ میں ہمیشہ داڑھی منڈایعنی کلین شو ( Clean Shave) رہتا تھا، جوانی کی مستیاں اور امیرانہ ادائیں ساتھ تھیں، فلم ایکٹروں سے متاثر تھا، انہی کے طرز پر بال رکھنا پسند کرتا تھا، ہمارے والد کی تجارت کالی کٹ میں بڑے پیمانے پر تھی، جس کی وجہ سے مجھے بھی کالی کٹ میں رہنا پڑتا ، کئی کئی مہینے وہیں گزار دیتا تھا۔
اسی بیچ مرحوم جناب محمد اسماعیل برماور مرحوم کی وقتا فوقتا ملاقاتیں رہتیں، آپ ایک با رعب شخصیت کے مالک تھے، ملاقات کرتے تو سمجھاتے اور محبت بھرے لہجے میں باتیں کرتے، ملتے تو مسکرا کر ملتے ۔ تعلقات جوں جوں بڑھتے گئے ،آپ کا ناصحانہ اسلوب بھی بدلتا گیا، مجھ سے باربار کہنے لگے کہ تمھاری خوب صورت جوانی میں ایک داڑھی کی کمی محسوس ہو رہی ہے، اللہ نے تمھیں اتنا خوب صورت وجیہ چہرہ عطا فرمایا ہے، اسے مونڈ کر عورتوں کی مشابہت اختیار نہ کرو،داڑھی رکھو گے تو اور خوب صورت نظر آؤ گے اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ ہمارے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی چہرے پر رہے گی۔ بہر کیف جب بھی ملتے اسی پر اصرار فرماتے اور میں "إن شاء الله” کے دو مختصر اور خوبصورت بول سے چھٹکارا پا لیتاتھا، دل میں نیت داڑھی رکھنے کی تھی نہ کبھی زندگی میں سوچا تھا۔ ایک دن آپ سےحسبِ معمول ملاقات رہی، شدید اصرار کے ساتھ داڑھی کی اہمیت پر زور دیا، میں نے بھی اسی اسلوب میں "إن شاء الله” کہہ دیا اور چھٹکارا پالیا،مگر آج صرف "إن شاء الله” سے چھٹکارا نہیں مل پایا۔ بلکہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کی طرف بڑھایا اور کہنے لگے کہ آج صرف ارادے کا اظہار نہیں ہوگا، بلکہ ارادے کےساتھ وعدہ بھی کرنا ضروری ہوگا۔ میں نے اس کو بھی آسان سمجھ کر ہاتھ سے ہاتھ ملا دیا اورزبانی وعدہ بھی کر دیا ۔ بس اب کیا تھا کہ دوسرے دن داڑھی منڈانے کے لیے استرا ہاتھ میں لیا۔ مگر آج یہ استرا چہرے کی طرف بڑھ نہ سکا،ایک ایمان والے کے دل کی چنگاری بھڑک اٹھی،توفیقِ الہی کا وقت آگیا، میرا مقدر چمک اٹھا اور میرے ضمیر سے ایک آواز آئی، غیرت نےمجھے للکارا کہ ایک مسلمان ہو کر وعدے کی یہ خلاف ورزی کیوں؟کل اللہ کو اس کا کیا جواب دو گے؟۔ بس یہ سوچ ذہن و دماغ پر غالب آگئی، استرا رکھ دیا، بلکہ اسے کوڑے دان میں پھنک دیا، سچّی پکّی توبہ کر لی کہ اب سے کبھی داڑھی نہیں منڈاؤں گا، اس ایک داڑھی رکھنے کی برکت یہ ہوئی کہ اب جب بھی کوئی غیر شرعی کام کرنے جاتا یا ارادہ کرتا نظر داڑھی کی طرف جاتی اور اس طرح میرے لیے چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی بچنا آسان ہوگیا۔اس طرح گویا آپ کی وجہ سے نہ وہ زرق وبرق انگریزی لباس رہا ، نہ سوٹ كوٹ اور نہ ہی فیشن پرستی كے جلوے باقی رہے۔
تبلیغی جماعت اور زندگی میں تبدیلی:۔
اسے حسنِ اتفاق کہیے یا اسبابِ توفیقِ الہی کہ ہمارے نانا جان سابق جنرل سکریٹری مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے سب سے اولین ٹرسٹی مرحوم عبد القادر صاحب دامدا ( بڈور باشہ بھاؤ) علیہ الرحمہ اور ہمارے ابو جان دونوں کے دینی رجحان اور زندگیوں میں تبدیلی کا آغاز تبلیغی جماعت میں تین دن نکلنے سے ہوا، اور دونوں نے اپنی سابقہ زندگی سے مکمل توبہ کر کے ” توبۃ النصوح” کی عملی تفسیر پیش کی۔
نانا مرحوم فرماتےتھے کہ جب میں نے جوانی کے ایام گذارتے ہوئے زندگی کی تقریباچالیس بہاریں دیکھیں، تو اصلاحی،تربیتی اور دینی ااعتبار سے ترقی کرنے کے لیے من جانب اللہ انتظام ہوااور جماعت ِتبلیغ سے وابستگی ہوگئی، سنہ عیسوی 1951 کا عرصہ اور مہینہ جون کا تھا، ہماری معلومات کے مطابق بھٹکل میں پہلی تبلیغی جماعت آئی، تشکیل کرتے ہوئے میں نے بھی پہلی جماعت میں نام لکھ دیا، رُخ تگنگنڈیکا طے پایا،جس قافلہ میں (قاضی شہر)کوچوبھاؤ مرحوم،اور رکن الدین حسین صاحبان کے علاوہ ایک پٹھان بھی شامل تھے اور ہم نے گاؤں سےتگنگنڈیکا پیدل سفر طے کیا، سبحان اللہ، بفضلِ خدامجھے اس پیدل جماعت میں نکل کر جو فائدہ، اپنی عملی کوتاہی، اورسابقہ زندگی پر جس پشیمانی کا احساس ہوا وہی احساس میری تبدیلی کا ذریعہ بنا اور وہیں سے میں نے سچی پکی توبہ کرکے اپنی بے راہ رو زندگی میں تبدیلی لانے کا عزمِ مصمم کر لیا، جو مجھ پر صرف اور صرف اللہ کا فضلِ خاص اور میرے لیے اپنے مخلصین کی دعاؤوں کا اثر تھا۔
ابو جان داڑھی رکھنے کے بعدشہرِ کالیکٹ ہی میں تین دن کےلیے تبلیغی جماعت میں وقت لگایا، جماعت میں جاتے ہی آپ کو اپنی زندگی کی کوتاہیوں اور بعض عبادات کو صحیح ڈھنگ سے ادا نہ کرنے کا شدید احساس پیدا ہوا، دعوت وتبلیغ کی راہ میں نکل کر آپ نے سکون کی زندگی محسوس کی، اللہ کے راستے میں ایمان کا ذائقہ محسوس کیا۔ گویا اس طرح توفیقِ الہی کے ساتھ سسر اور داماد دونوں کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب اسی دعوت وتبلیغ کی عظیم الشان اور با برکت محنت کی بدولت ہوا۔
نئی زندگی اور حسین انقلاب :۔
اب زمانہ بدلتا ہے ، اسی كے ساتھ منظر بھی تبدیل ہو جاتا ہے، اب نہ وہ پرانا اندازامیرانہ اور نہ ہی صفاتِ خسروانہ ، وہ پہلے جیسا صفا چٹ چہرہ رہتا ہے، نہ چڑھی ہوئی مونچھیں اور نہ زرق و برق كا انگریزی لباس رہتاہے ، نہ سوٹ كوٹ اور نہ ہی فیشن پرستی كے جلوے ، اب كیا ہے دبلا پتلا بدن ، موٹے جھوٹے كپڑے زیب تن، باریك مونچھیں ، گھنی داڑھی، نوجوانی كی مستی میں بزرگی ہی بزرگی ، آواز پست اور نگاہیں نیچی، ہر ہر عمل سے آثار تبدیلی ، دینی امور میں بہہ سے بہتر كی تلاش ، افضلیت پر عمل، سنت كا احیاء۔ اخلاق نبوی كا پرستار ، اسوۂ نبوی كا عاشق،زبان اللہ كے ذكر سے معمور ، دل فكر آخرت سے بھر پور، بول صرف دین كے ، باتیں صرف كام كی، زبان پر ایك ہی رٹ اور وہ تبلیغ ہی تبلیغ، دعوت ہی دعوت، امت كے سلسلے میں فكرِ ہدایت، جذبۂ قربانی اور شوق آخرت۔
اب یہ اچانك كیا تبدیلی آگئی، اعتبار كرنا مشكل ہو گیا، گھر والے خود پریشان ہو گئے كہ یہ مسٹر اتنی جلد كیسے مولوی بن گیا، کن کی دعائیں رنگ لائیں، ان پر كس كا جادو چل گیاکہ اچانک كھیل كے میدان سے دعوت كے میدان میں اتر آئے، خود بھی جڑے اور اپنے ساتھیوں كو بھی اسی سے جڑنے كی تلقین كرنے لگے۔
ابا جان كے كئی ساتھیوں اور بچپن كے دوستوں ، قریبی رشتہ داروں اور دور سے جاننے والوں نے ایك بار نہیں بار بار، بلكہ كچھ تو ہر ملاقات پر ہر بار، گویا بلا مبالغہ پچاسوں بار میں یہ تذكرہ حیرت واستعجاب میں كرتے پایا كہ آپ كے والدِ ماجد میں جو تبدیلی آئی وہ پتہ نہیں كس مكتب كی كرامت تھی یا كس نگاہِ شیخ كی بركت یا کن کی دعاؤں کے اثرات کہ آنا فانا دیكھتے دیكھتے یک بیک حقیقی معنی میں تبدیلی ، سبحان اللہ ۔مثلا قائدِ قوم جناب ایس ایم سید خلیل الرحمن ، حکیم ڈاکٹر عبد اللہ حاجی فقیہ صاحب، جناب حکیم محمودقاسمی،مرحوم جناب یحیی کولا ، مرحوم جناب محمد شفیع قاضیا اور جناب محمد جمیل ابن حسن قاضیا وغیرہ سے یہ زبانی سنی ہوئی باتیں ہیں، جن میں سے بعضوں نے مجھے بٹھا کر کبھی کھنٹوں وہ واقعات سنائے ہیں جو ان کے ساتھ بیتے ہوئے ایام کے ہیں۔
میری یاد داشت اور تصویرِ سلف :۔
میں نے جب سے شعور کی آنکھیں کھولیں تو اپنے والدِ ماجد کو ایک وجیہ شخص کی صورت میں اپنی نگاہوں کے سامنے پایا، بڑے پروقار انداز میں لوگوں سے پیش آتے دیکھا، جن کے آس پاس لوگوں کی بھیڑ ہوتی، کبھی فقراء ومساکین کی تو کبھی صلحاء و اتقیاء کی، کبھی رشتے داروں کی تو کبھی چاہنے والوں کی، کبھی اپنوں کی تو کبھی غیروں کی، بلا امتیاز رنگ و نسل اور بلا کسی تفریق کے سب کو وہی چاہت اور سب سے وہی مراسم۔ یعنی ابو جان کا ہر ایک کےاستقبال کرنے کا عجیب انداز ہوتا، چاہنے اور محبت نچھاور کرنے کا اسلوب اگر کوئی سیکھنا چاہتا توان سے سیکھ سکتا تھا، رشتے داروں سے لے کر فقراء و مساکین تک اور اپنوں سے لے کر غیروں تک، ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی اور ملنساری سے پیش آتے، مسکراتے ہوئے مصافحہ فرماتے، اگر وقت ہوتا تو بٹھا کر پند وموعظت فرماتے، دین وشریعت کی باتیں بتاتے، احکامِ شریعت ہی نہیں بلکہ آدابِ اسلام سمجھاتے، اخلاقیات کی تعلیم دیتے، براداران وطن کو اسلام کی حقانیت بتاتے، خوب صورت اسلوب میں اسلام کا تعارف کراتے۔
وہ دینی ذہن ركھتے تھے، عبادات کا اعلیٰ ذوق تھا۔ اپنی فراغت کے بعد بیشتر وقت علما اور فضلا کی صحبت یا یادِ الٰہی اور تسبیح ومناجات میں گزار دیتے تھے۔ان کے ماتھے کی کشادگی، چہرے کی نورانیت، آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ذہانت اور ہونٹوں کی مسکراہٹ سے بنی اس تصویر نے میری آنکھوں میں ایک خوشحال مرد کے تصور کو پیدا کیا ، بلکہ ایک خوشحال جوان کی پہچان کرا ئی۔ آپ ایک ہر دل عزیز شخص تھے، سب کو چاہتے، نرم گو اور خاموش مزاج تھے، اپنے کام سے کام رکھتے ۔ آپ ایک بے ضرر اور مخلص انسان تھے، آپ کی زبان و سلوک سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی ، آمدنی میں لقمۂ حلال کا مکمل خیال رکھا، مشتبہات تک سے اپنے کو محفوظ رکھا۔
وفات کے بعد بھی ہر ایک کی زبانی یہ شہادتیں علماء وصلحاء اور اعزہ واقربا اور امراء وغرباء سب طبقوں کی زبانی پے بہ پے ملنے لگیں کہ آپ بلند اخلاق کے مالک تھے، ہر ایك كے ساتھ ان كے اچھے تعلقات رہے، وہ اگر اپنی بیوی کے لیے بہترین شوہرتو بچوں کے لیے شفیق باپ اور پورے خانوادے اورمعاشرے کے لیے ایک بہترین انسان تھے۔
میری نظروں کے سامنے تقریبا نصف صدی کے آپ کے معمولات ہیں، آپ کی نیک عادات ہیں، شرافت کی ایک تصویر ہے، اذانِ فجر سے پہلے اٹھتے، گھر والوں کونمازِ فجر کے لیے اٹھاتے، پہلےنام لے کر پکارتے، پھر بدن کو حرکت دیتے اور اگر اس سے بھی کوئی نہ اٹھتا تو اپنی خاص چھڑی سے ہلکی مار تے، نیند سے اٹھنے کے بعد کی دعا پڑھاتے، استنجا اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد مسجد بھیجتے۔ صفِ اول کا اہتمام فرماتے، سنن و نوافل کی پابندی کرتے، نمازوں کے بعد کافی دیر تک ذکر ودعا میں مشغول رہتے۔ گھر لوٹنے کے بعد تلاوتِ قرآن پاک کا اہتمام کراتے، مصلے پر بیٹھ کر صبح کی تسبیحات پڑھتے۔
سر ہمیشہ ڈھکا رہتاتھا، کھاتے اور پیتے وقت کبھی ٹوپی سر سے نہیں اتری، سکرات کا عالم شروع ہونے سے ذرا قبل بھی بوقتِ سحر جب پانی طلب فرمایا اور پینا چاہا تو ہمارے چھوٹے فرزند سید حماد سے ٹوپی مانگ کر کر پھر پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگایا، جو ان کی زندگی کا آخری عمل تھا۔ ہم گھر والوں نے سوائے سونے کے وقت کے ان کے سر سے ٹوپی کبھی اترتے نہیں دیکھی۔آپ کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا، سخت اور تلخ دونوں کو خوشی خوشی برداشت فرماتے، سامنے والے کی بات پوری اہمیت سے سنتے۔
اسی طرح کئی ایک ایسے اوصاف اور اعلی اخلاق و صفات پائی جاتی تھیں، جن کا تعلق حسنِ معاشرت سے ہے، مثلا آپ نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، کسی کی سختی کا جواب سختی میں نہیں دیا۔ عفو ودرگذر اور ضبط و برداشت کا ثبوت دیا، دل کو بغض اور کینے سے صاف رکھنے کی کوشش کی، کبھی جھوٹ نہیں بولا،کسی کی غیبت اور چغلی نہیں کی، کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا، لغو اور لا یعنی باتوں سے اپنے کو محفوظ رکھا، اگر بات کرتے تو کام کی ورنہ خاموش رہتے، کبھی کبھار آپ گھنٹوں خاموشی اختیار فرماتے، مراقبے کی شکل میں بیٹھے رہتے،مساکین وغرباء کا خیال رکھا، ضرورت مندوں کے کام آئے، برادرانِ وطن کے ساتھ بہترین سلوک کیا، ہر معاملے میں صبر سے کام لیا،ہر وقت اللہ کا شکر ادا كرتےرہے۔ ( اللهم اغفر له وارحمه وأسكنه فسيح جناتك )
( جاری)
www.fikrokhabar.com