ظہران ممدانی نے رقم کی تاریخ! نیویارک کے پہلے مسلم میئر بن کر دنیا کو چونکایا ،پرو اسرائیل لابی کو کرارا جواب

نیویارک شہر نے ایک تاریخی موڑ پر قدم رکھا ہے، جہاں 34 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ اور کوئینز کے اسمبلی مین ظہران قومے ممدانی نے منگل کو ہونے والے میئرل الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے شہر کے سب سے کم عمر میئر بننے کا اعزاز حاصل کر لیا۔ ممدانی کی جیت نے نہ صرف نیویارک بلکہ پورے امریکہ میں ایک نئی سیاسی فضا قائم کر دی ہے۔

ظہران ممدانی کو ابتدا میں ایک آؤٹ سائیڈر امیدوار سمجھا جا رہا تھا، تاہم جون میں ڈیموکریٹک پرائمری میں غیر متوقع فتح نے انہیں انتخابی دوڑ میں سبقت دلائی۔ اُنہوں نے بائیں بازو کے ایجنڈے پر مبنی مہم چلائی، جس میں کرایہ کنٹرول، مفت بس سروس، اور عوامی بہبود کے منصوبے شامل تھے۔ ان پالیسیوں کے لیے انہوں نے امیر ترین شہریوں پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز پیش کی۔

شہر کے انتخابی بورڈ کے مطابق، 4.7 ملین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے دو ملین سے زائد نے ووٹ ڈالا — جو 1969 کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ ابتدائی نتائج کے مطابق ممدانی کو 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے، جب کہ ان کے حریف، سابق گورنر اینڈریو کووومو کو نمایاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کووومو، جو ایک وقت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے مضبوط امیدوار تھے، پرائمری میں ہارنے کے بعد آزاد امیدوار کے طور پر واپس انتخابی میدان میں اترے تھے۔

فلسطین پر موقف اور عوامی تاثر

ظہران ممدانی نے اپنی مہم کے دوران فلسطین کے حق میں کھل کر آواز اٹھائی۔ انہوں نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو نسل کشی قرار دیا اور انسانی حقوق کی کھلی حمایت کی۔ ان کے اس موقف پر انہیں مخالفین کی جانب سے ’’یہود مخالف‘‘ ہونے کے الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم انتخابی تجزیات کے مطابق یہی موقف انہیں نوجوان اور ترقی پسند ووٹروں میں مقبول بنانے کا باعث بنا۔

عوامی رابطہ مہم اور مالی نظم

ظہران ممدانی نے کسی بھی بڑی سیاسی ایکشن کمیٹی (PAC) سے مالی مدد قبول نہیں کی۔ اُن کی انتخابی مہم نے مکمل طور پر عوامی عطیات اور رضاکاروں کی مدد پر انحصار کیا۔ مہم کے دوران ان کے رضاکاروں نے تین ملین سے زیادہ گھروں کے دروازے پر جا کر ووٹروں سے رابطہ کیا۔ اس کے برعکس، کووومو کے حامیوں نے پرو-اسرائیل لابی اور کارپوریٹ حلقوں سے 40 ملین ڈالر سے زیادہ جمع کیے، مگر یہ سرمایہ کاری عوامی رائے کو تبدیل نہ کر سکی۔
تعصب، حملے اور نفرت انگیزی
مہم کے دوران ظہران ممدانی کو اسلاموفوبک حملوں اور آن لائن نفرت انگیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے خلاف سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے، نسل پرستانہ پوسٹس اور جعلی ویڈیوز شیئر کی گئیں۔ ایک موقع پر ان کے دفتر کو دھمکیاں دی گئیں اور ان کی گاڑی اڑانے کی بات کہی گئی۔ اس کے باوجود ممدانی نے اپنے پیغام کو مثبت رکھا اور کہا کہ "اسلاموفوبیا اور تعصب کا مقابلہ ہم وقار کے ساتھ کریں گے۔”
تاریخی اہمیت
ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر ہوں گے۔ وہ یوگینڈا میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد، ممتاز ماہرِ سیاسیات پروفیسر محمود ممدانی، پروان چڑھے۔ ممدانی کی والدہ بھارتی نژاد ہیں۔ اس لحاظ سے وہ نیویارک کی متنوع آبادی کی حقیقی نمائندگی کرتے ہیں۔
قومی ردِعمل
ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے ظہران ممدانی کی کامیابی کو ’’ورکنگ کلاس کی جیت‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ان کی مہم نے عام شہریوں کو سیاست سے جوڑنے میں نئی روح پھونک دی ہے۔
امریکی مسلم تنظیم ’’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)‘‘ نے اسے ’’امریکی مسلم سیاسی شمولیت کا تاریخی موڑ‘‘ قرار دیا۔ تنظیم کے مطابق، "ممدانی کی جیت اسلاموفوبیا اور فلسطین مخالف تعصب کے خلاف عوامی ردِعمل کی علامت ہے۔”
ظہران ممدانی یکم جنوری کو عہدہ سنبھالیں گے اور انہیں فوری طور پر کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا — جن میں ہاؤسنگ بحران، پولیس اصلاحات، معیشتی دباؤ، اور شہری انفراسٹرکچر کی بحالی شامل ہے۔ اُن کی پالیسیوں کو ریاستی و وفاقی سطح پر مزاحمت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، خصوصاً جب ان کے کئی وعدے روایتی مالی نظم کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔

بھٹکل میں رعایتی فرنیچر اسکیم کے نام پر کروڑوں کا فراڈ ! مالکان فرار

کرناٹک : الکل میں پاگل کتے کے حملے میں 15 افراد زخمی ، دو بچوں کی حالت نازک