زنجبار میں

جوہانسبرگ سے تقریباً تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے ہم زنجبار کے جزیرے پر اترے، ہمارے لیے اس بار زنجبار نامانوس نہیں تھا، اس لیے کہ گزشتہ سال فروری کے اواخر میں کینیا، تنزانیہ، بورونڈی اور روانڈا کے سفر کے موقع پر ہم نے یہاں بھی دو دن گزارے تھے اور اس کی روداد بھی قلم بند کی تھی، یہاں کی آبادی، تہذیب وثقافت، داستان غربت، تعلیمی ودینی صورت حال، ہندستان کے جنوب مغرب میں ساحلی کرناٹک اور کیرالا سے اس کی مشابہت، ثقافت کی یکسانیت اور یہاں قدم قدم پر موجود مساجد وغیرہ کے حوالے سے ہم نے دو قسطوں میں اپنے تاثرات بھی لکھے تھے، اس بار سفر کی نوعیت مشاہداتی سے بڑھ کر کچھ عملی تھی، جو خواب گزشتہ سفر میں دیکھے گئے تھے ان میں جہد وعمل کا کچھ رنگ بھرنا تھا اور کام کی کچھ ترتیب بنانی تھی، بورونڈی میں کام کی تنظیم اور ترتیب کے بعد اب مولانا خلیل صاحب دو ماہ سے زنجبار کو اپنی جولان گاہ بنائے ہوئے ہیں اور یہاں ایک عظیم تعلیمی مرکز کی نیو ڈال چکے ہیں، جہاں سے زنجبار اور پیمبا دونوں جزائر میں ان شاء اللہ نظام بنے گا۔ مختلف لوگوں نے یہاں آکر کام کیا اور کر بھی رہے ہیں، خود جنوبی افریقہ کے بعض اداروں نے یہاں اپنی شاخیں قائم کی ہیں مگر کوئی منظم حکمت عملی نہ ہونے کے نتیجے میں کوششوں کے بقدر نتائج برآمد نہیں ہورہے ہیں اور غربت بھی بہت سارے مسائل کی بنیاد ہوا کرتی ہے، ہر چند کہ سیاحوں کی آمد آمد ہے اور یہاں کے خوب صورت جائے وقوع میں ان کی دل چسپی کا خاصا سامان ہے، لبِ ساحل پانچ ستارہ بڑے بڑے ہوٹلوں کی چمک بھی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے لیکن عوام کی اکثریت افلاس کی ماری، پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ماہانہ چند ڈالر تک بہ مشکل رسائی، اس کے باوجود وہ بھیک مانگنے کے بجائے دو چار عدد چیزیں جمع کرکے انھیں بیچنے کے لیے اپنی چھوٹی سی کٹیا میں گاہکوں کی منتظر۔

سیاحوں اور بالخصوص یورپی سیاحوں کی آمد ورفت کی وجہ سے برائیوں کا بازار بھی گرم ہے لیکن دین سے محبت یہاں کی آبادی میں قابل رشک حد تک۔ اسٹون ٹاون میں تو بہ ہر حال دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں مگر اس سے تقریباً ساٹھ کیلو میٹر دور زنجبار کے دوسرے سرے پر واقع نُنگوی میں کوئی مرکز نہیں، دعوت کا کام بھی نہ ہونے کے برابر، چار ماہ والا صرف ایک عدد ساتھی۔ پھر بھی مسجدوں میں نمازیوں کی خاصی تعداد اور خاص طور پر نوجوان نسل کا موجود ہونا ایک خوش آئند امر اور اسلاف کی قربانیوں سمیت اس بات کا غماز بھی کہ ذرا سی محنت سے یہاں دین کی کھیتیاں برگ وبار لاسکتی ہیں۔ پڑوسی ملک کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی تو ان کے تاثرات بھی کچھ اسی طرح کے تھے۔ یہاں کی مسجدوں میں ہمارے برصغیر کی مساجد کے بالکل برعکس لاتعداد کرسیاں بھی نہیں پائی جاتیں، پوری پوری مسجد میں ایک کرسی کا ملنا بھی مشکل۔ لگتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو پیروں میں درد کی شکایت ہی نہیں ہے۔

الغرض ان حالات میں یہاں کام کی شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا خلیل نے یہیں نُنگوی میں قیام کا فیصلہ کیا ہے، اللہ مبارک اور مفید بنائے۔

گزشتہ سفر میں یہاں کا جائزہ لے کر کچھ کام کا خاکہ بنایا گیا تھا، اس بار اس میں رنگ بھرنے کے لیے ایک اہم مشورے کی ترتیب طے پائی، اس لیے یہاں کے تقریباً سو مدرسین (مرد وخواتین) کو مدعو کیا گیا اور ان کے سامنے لائحۂ عمل پیش کیا گیا، ڈاکٹر اطہر صاحب نے عربی میں ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا جس میں وقت کے انضباط سے لے کر منصوبہ بندی اور کام کی ضرورت واہمیت پر مفصل گفتگو کی اور مشرقی افریقہ کے سات ممالک کے لیے یہاں کی دینی ضرورت کے پیش نظر جو نصاب ترتیب دیا گیا ہے اس کا تعارف پیش کیا، جسے سامعین نے ہمہ تن گوش ہوکر سنا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ اب تک ان موضوعات پر اس طرح کی گفتگو ہم نے نہیں سنی، اور وعدہ بھی کیا کہ جو نظام بنے گا ہم یہاں اس کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس خطاب کا ترجمہ سواحلی زبان میں یہاں کے ایک فاضل نے کیا، مولانا موسیٰ نے انگریزی میں خطاب کیا جس کا ترجمہ شیخ خمیس نے کیا۔ تقریبا تین گھنٹے کے بعد کام کے لیے نئے عزائم کے اظہار کے بعد دعا پر اجلاس کا اختتام ہوا۔

شیخ احمد گُمزہ اور شیخ خمیس اس پروگرام سے خاصے متاثر ہوئے، اول الذکر تو اس کے بعد مسلسل اسی پروگرام اور خاص طور پر ڈاکٹر صاحب کے خطاب اور کام کا حوالہ دیتے رہے نیز اپنے آئندہ کے عزائم کا اظہار کرتے رہے، اس بار بھی انھیں کے ہوٹل تنزانایٹ، نُنگوی میں ہمارا قیام رہا، ہر ممکن انھوں نے مہمان نوازی کی، ان کے اسٹاف نے بھی بھرپور خیال رکھا، بحیرۂ عرب کے ساحل پر بسنے والوں کو بحر ہند کے سمندری کھانوں کا لطف دلاتے رہے۔

ضمیمہ سفرنامہ جنوبی افریقہ 15

(سخنؔ حجازی۔ نُنگوی۔ زنجبار۔ انیس اکتوبر۔ 2024)

«
»

وقف قانون میں ترمیم کی جلدی کیوں؟

مولانا سمعان ندوی بھٹکلی کی کتاب "رسولِ انسانیت ” کا ہندی ترجمہ، ناظم ندوۃالعلماء کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا اجرا