زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

عبد المجیب خیا ل بھٹکل

ملک گیر سطح پر مشہور ناظمِ مشاعرہ بنگلور کے جناب شفیق عابدی نے جناب ڈاکٹر فطرت مرحوم کے لیے کیتھ کہا تھا :
کوئی لگا نہ سکا اس کے قد کا اندازہ وہ آسماں ہے مگر سر جھکائے بیٹھا ہے 

واقعی حضرت فطرت جب تک حصار حِیات میں رہے علم و ادب کے ماحول میں اسمان بنکر رہے ۔اس کہکشان فن نے دنیا ئے اردو ادب میں ایسی ضیاپاشی کی کہ ذرے بھی ماہتاب نما بن گئے اور جسکی چکا چوند نے ایک عالم کو منور کردیا ۔مرکز اردو لکھنؤ دلی اور پنجاب وغیرہ سے ہزاروں میل کی دوری پر بھٹکل واقع ہے اس کے باوجود بہت پہلے حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے کہہ دیا تھا کہ شعراء بھٹکل مکرر بار ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ بھٹکل میں اردو زبان پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ یہ شیریں اوردلکش زبان اپنی تمام تر شیرینیوں اور جو لانیو ں کے باوجود بالکل پھیکی اور بے مزہ ہو گئی تھی۔کوئی اور ہی انداز اور لہجہ اس پر غالب آگیا تھا اسی پسِ منظر میں انجمن حامئی مسلمین کا قیام عمل میں آتا ہے جس کا وجود قوم کے حق میں نعمت عظمیٰ اور سرچشمہ حیات بن کر آیا بقیۃ السلف محترم حسن سقاف صاحب بتاتے ہیں کہ بھٹکل میں اس وقت عاشورہ خانہ بھی تھا۔معاشرے میں پھیلی بدعات و مفسدات کو بھی انہیں انجمن کے قائم کرنے والے جیالوں نے اگلے چند سالوں میں ختم کردیا۔ انجمن کے قیام سے معاشرے میں خوشحالی بھی آئی ۔دینی غلغلہ بھی قائم رہا۔ معاشرے میں اس وقت حضرت مولانا شریف محی الدین اکرمی اور مولانا محمد اسماعیل اکرمی جیسی بابرکت شخصیات بھی موجود تھیں، اسی پس منظر میں انجمن میں مربی قوم ،بحرالعلوم،مولانا محمود خیال نوراللہ مرقدہٗ کا تقرر ہوتا ہے، آپ بیک وقت ایک فقہیہ، محدث، مفسر، شاعر، ادیب، صحافی، انشا پرداز، نقاد اور ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، حضرت بدر عالم میرٹھی، حضرت عتیق الرحمنٰ عثمانی جیسے اساطین دین اور مشاہرِ آزادی کے آپ شاگرد تھے، بھٹکل میں اس وقت اردو کی حالتِ زار مولانا خیال کے لئے ایک چیلنج بن گئی، آپ نے اپنے طلبا میں خطابت اور کتابت کا شوق پیدا کیا،اسٹیچ سے مانو سیت پیدا کی۔ تلفظ کی آدائگی جبتک صحیح نہیں ہوتی تھی آپ اگے نہیں بڑھتے تھے۔آپؓ اردو کی کھوئی ہوئی مٹھاس واپس لاکر اس زبان کے لب و لہجے کو اس کے اصلی مقر دلی اور لکھنو کے لہجے سے جوڑ دیا، اسی اثنا میں دوسرے کئی متلا شیانِ علم کے بیچ فطرت صاحب بھی تھے جو اس صف میں قدرے نمایاں تھے۔فطرت صاحب کا و ہ جنون غوّاصی کہ ہر دم نئے نئے موتیوں سے اپنا دامن بھر لینے کا عزم اورمولانا خیال جیسا عرفان و ادراک کا ایک بحرِ بیکنار، چنانچہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ جناب مرحوم فطرت کے حق میں یہ بات ، سمندِ ناز کو تازیانہ،، ثابت ہوئی،
جناب فطرت ممبئی میں اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل میں مشغول تھے، اور شعر گوئی وغیرہ کے شوق سے معمور، ہیرا اپنی چمک لاکھ چھپائے لیکن اس کی نوری شعاعیں ظلمت کدہ ہو یا خرمنِ تاباں ،منعکس ہو ہی جاتی ہے، ممبئی میں اس وقت کے ایک بلند پایہ شاعر جناب ابوبکر مصور سے فطرت مرحوم کو استفادے کا خوب موقع ملا۔ مصور صاحب کی شاگردی نے فطرت صاحب کو میدانِ شعرو شاعری کا ایک نگینۂ خالص بنا دیا۔ 
جناب فطرت نے انجمن میں درس و تدریس کی خدمت بھی انجام دیں۔ انجمن کے پروردہ حضرات میں اپنی تعلیمی فراغت کے بعد اپنی مادرِ علمی میں درس و تدریس کے خدمات انجام دینے والوں کی فہرست بھی لمبی ہے۔ استادِ قوم جناب عبدالرحمن باطن بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ فطرت صاحب، جناب حسن ممس مرحوم اور حضرتِ باطن ایک ہی دور کے مثلث نما تھے۔حسن معلم جیسا و ہ انقلابی شاعر کیا کہئے،نہ جانے کیسے کیسے آسمانوں کو زمین نے نگل لیا
حضرت مولانا خیال جنہوں نے اردو کو اس کا صحیح مقام دلوا کر صحیح راہ پر ڈال دیا تھا تب سے لے کر اب تک یہاں فصیح و بلیغ اردو بولنے والوں کی بہتات رہی ہے۔ حضرت خیال کے بعد انجمن میں آنے والے سپاہیوں نے اردو کاعَلم تھامے رکھا جن میں ہر دلعزیز استاد جناب عبداللطیف شیخ، باطن صاحب، فطرت مرحوم، مولانا منصور علی ندوی، پروفیسرعمر حیات غوری، مولاناصادق اکرمی، ڈاکٹر انور علی، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پھر بھٹکل میں 1962 ؁میں جامعہ اسلامیہ میں قائم ہوا جس سے اردو کو ایک نئی تازگی ملی۔1981 ؁میں بھٹکل میں ادارہ ادبِ اسلامی کی شاخ بھی قائم ہوئی جس سے اردو مشاعروں کا ایک عام چلن گاوں میں قائم ہوا۔ڈاکڑ شباب کی بھٹکل میں اس وقت آمد آمد تھی۔ ڈاکٹر انورعلی ،پروفیسرعمر حیات غوری مولانا منصور علی ندوی اور دیگر حضرات وغیرہ وکی اس میں کوششیں ہیں اللہ تعالی شرف قبولیت سے نوازے۔
فطرت صاحب کے اشعار میں پوشیدہ دعوتِ فکر، موجودہ باغیا نہ نظام سے بیزاری کا اعلان فطرت صاحب کو ممتاز و ممیز بنا دیتی ہے،۔ایک معمولی سمجھ بو جھ رکھنے والا شخص بھی اسکو محسوس کر سکتا ہے۔ آپ کو موجودہ دور کی شاعری کے چونچلے اور اسکے گرتے ہوئے گراف سے ہمیشہ شکایت رہی۔اسٹیچ پر دیگر شعراء اپنا اثر جمانے کے لئے نئے نئے ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر آتے تھے وہیں فطرت صاحب اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں اپنی بات شروع کر تے تھے اور اپکے اشعار بڑے غور سے سنے بھی جاتے تھے۔ فطرت صاحب ایک اچھے شاعر ہونے کہساتھ ساتھ ایک اچھے مضمون نگار اور تبصرہ نگار بھی تھے ۔نفیرِ فطرت اسکا بیّن ثبوت ہے۔ ،اپ کا ؓ سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ کسی میں کویء معمولی قسم کی بھی قابلیت دیکھی تو اسے بلا کر اسکا برملا اظہار کرتیتھے اور ہمت بندھاتے تھے ۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ بھٹکل اگر علم و ادب کا تاج ہے تو فطرت صاحب اس میں جڑا ہو ا ایک قیمتی نگینہ تھے۔ اپ ملک بھر میں فطرت بھٹکلی کہ نام سے جانے جاتے تھے۔،
نعت گوئی ایک ایسا باریک پُل ہے کہ بہت سے مشّاق بھی اس پر اپنا توازن برقرار رکھ نھیں پاتے لیکن جناب فطرت یہاں بھی ایک کامیاب شہسوار کی طرح اپنا سفر طئے کرتے نظر اتے ہیں۔ رحمت الہی سے کیا بعید کہ جناب فطرت کا یہی و صف انکی نجات کا زریعہ بن جائے۔فطرت صاحب کیچند جواہر پارے ملاحظہ ہوں۔ 
ہمیں یہ فخر نہیں ہیں کہ ہم نہیں گرتے مگر یہ فخر ہے کہ گر کر ہم سنبھلتے ہیں
نہ سوچئے کبھی فطرت کا فیض ہے محدود کہ جنگلوں میں بھی جھونکے صبا کے چلتے ہیں
ہمیں تو اہل جہاں سے یہی زکات ملی خلوص مانگا تو رسمِ تکلفات ملی
ہوس پرست کو تحسینِ کائنات ملی جو مستحق نہ تھا اسکو یہ زکات ملی
یہی ہے گرد شِ مینا تو کس لیے سا قی قبائے عظمت میخانہ تار تار نہ ہو
بہار نو کا یہ فرمان کیسا نرالا ہے کہ عندلیب سر ِ شاخ نغمہ بار نہ ہو
چہکنے گانے کی فطرت تو دب نہیں سکتی ہزار طائر پابندِ نغمہ بار نہ ہو
یہ چند گراں قدر نمونے ہیں جن کے خالق فطرت صاحب ہیں۔ بھلا ایسے نوادرات دیکھنے کے بعد مولانا علی میاں جیسی شخصیت کیوں نہ تعجب کرے اور کہے کہ مرکزِ اردو سے ہزاروں میل کی دوری پر ایسا بھی شاعر موجود ہے۔
خوشی کی بات یہ کہ فطرت صاحب کی ان کی زندگی میں ہی کافی پذیرائی ہوئی۔مقامی تو مقامی صوبائی سطح پر بھی کرناٹک اردو اکیڈمی نے ان کو اعزاز سے نوازا۔ بہت سے لوگوں نے فطرت صاحب کو اپنا خراج عقیدت پیش کیا اللہ تعالی تماموں و کو قبول فرمائے۔جناب فطرت کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، عالم برزخ میں تاحد نظر ان کی قبر کو وسیع اور کشادہ فرمائے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کے ساتھ جو زمین پر ہیں اور جو زیرِ زمین ہیں رحم و کرم و عافیت کا معاملہ فرمائے آمین۔
بفضل تعالی،اللہ تعالی ٰنے ہمیں بہت نوازا ہے۔ اب بھی ہمارے آس پاس ایسے لعل وگہر موجود ہیں جو اپنے وقت کے آفتاب و مہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے سماج میں صرف ادبا ء شعرا ء علماء ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے میدان کا ہر فنکار ایک عظیم خدمت گزار ہے، چڑھتے ہوئے سورج کا مان رکھنا بھرم رکھنا بھی ضروری ہے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ صرف اسی کی واہ واہ میں اپنی زندگی گزار دیں۔ ایسے کتنے سورج ہیں جوا بھی چھپے ہوئیہیں۔ انہیں اپنی تابناکی دکھانے کے مواقع نہیں دیے گئے ہیں، جو غیر معروف ہیں اور غیر مشہور ہیں ان کو تلاش کیجئے اور ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے پھر آپ دیکھیں گے کہ تپش و حرارت میں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ اور انہیں بھی ایک گونہ اطمینان ہوگا کہ قوم نے ان کی قدردانی کی۔یہ قدردانی ان کے لیے بہت حوصلہ افزااہوگی اور ان کے لیل و نہار میں یہ یادیں بھی شامل رہیں گی۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
نبی اکرم ﷺ فرمان عالیشان ہے خیرُاا لنّاس مَن ینفَعُ النّاس (لوگوں میں بہتر وہی ہیں جو لوگوں کے لیے نفع بخش ہیں) اس زمرے میں ہمارے معاشرے کے بہت سے افراد اپنے اپنے میدانوں میں لوگوں کی کافی خدمت کی ہے۔ چاہے خلیج میں دبئی کی سرزمین ہو یا مسقط ہو یا سعودی کا لق و دق صحراہو جو اپنے معاش کے سلسلے میں وہاں جا کر جو پریشان رہتے ہیں انکی مدد کرنا اور انہیں اپنے توسط سے انکے بہتر معاش کے لئے کوشش کرنا یہ بھی بہت بڑی عبادت ہے۔ اور اللہ تعالی کی خوشنودی کا ذریعہ ہے چاہے امارات میں ہسپتالوں میں اپنے توسط سے انکے لیے نوکریاں مہیا کرنا،چاہے امارات کی ایک بڑی گھڑیوں کی کمپنی میں انہیں ملازمت دلوانا،چاہے زیور اور سونے کی دکانوں میں کسی کی معاشکا انتظام کرنا،اور چاہے عمان میں کپڑے کی دکانوں میں انہیں کام پر لگانا، اور چاہے سعودی کے لق ودق صحرا میں اَسترا فارمس اور عریبین کمپنیز میں انکو معاش کے مواقع اپنے کوئی ذاتی مفاد کے بغیر ایسی خدمت انجام دینیوالی ہمارے معاشریمیں ایسی کئی شخصیات خاموش خدمت گزار بن کر کسی کا نام لئے بغیر ہی ہمارے ذہنوں میں ایسے بہت سے نام ابھر کر آئیں گے۔ایسے لوگوں کی بھی پذیرائی کرنا ہمارے معاشرہ کے لیے ایک نیک فال ہوگا۔
درد دل کے واسطے پیداکیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کّروبیاں 
والسلام خلوص کیش

«
»

کس منھ سے اپنے آپ کو کہتے ہو عشق باز

بچوں کی جنسی تربیت :وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے