حفیظ نعمانی
کانگریس اور دوسری سیکولر پارٹیوں کیلئے یشونت سنہا قدرت کا ایک قیمتی تحفہ ہیں۔ بے داغ، تجربہ کار، دانشور اور مقبول شخصیتوں میں ہمیشہ ان کا شمار رہا ہے ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ آر ایس ایس سے کبھی وابستہ نہیں رہے لیکن اٹل جی نے جب جب حکومت بنائی تو انہیں وزیر مالیات اور وزیر خارجہ جیسے اہم کام سپرد کئے۔ 2014 ء میں نریندر مودی نے جب حکومت بنائی تو پیش نظر یہ رکھا کہ وہ جسے وزیر بنا رہے ہیں وہ کسی قابل ہو یا نہ ہو آر ایس ایس سے اس نے تربیت پائی ہو۔
سنہا جی کافی عرصہ سے حکومت کی ملک مخالف پالیسیوں پر وزیراعظم اور وزیر مالیات کو ٹوکتے رہے ہیں۔ اور یہ بھی بی جے پی مخالف پارٹیوں کی خوش قسمتی ہے کہ یشونت سنہا جی اکیلے نہیں ہیں بلکہ سابق وزیر اور نامور صحافی ارون شوری اور شترو بہاری بابو بھی ان کے ساتھ ہیں۔ ہم نے تو یہاں تک سوچا مگر لکھا نہیں کہ مخالف پارٹیاں اتفاق کرکے مودی کے مقابلہ میں یشونت سنہا کو وزیراعظم کا چہرہ بناکر پیش کریں تو ایسی پارٹیاں جن کو دوسری پارٹی کے ساتھ آنے میں تکلف ہے تو وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ بہرحال یہ بعد کی بات ہے۔
اس وقت پانچ ریاستوں میں سے تین میں پارٹیوں میں اتحاد اگر نہ ہوا تو یہ 2019 ء پر کچھ نہ کچھ اثر ڈالے گا۔ اسے کانگریس کی بے گناہی اور وزیراعظم مودی کی فریب کاری کا نتیجہ ہی کہیں گے کہ وہ کانگریس جو 2014 ء میں 44 سیٹوں کو لے کر کھڑی بھی نہیں ہو پارہی تھی آج وہ بی جے پی کے مقابلہ میں تال ٹھونک رہی ہے اور انتخابی سیاست کے ماہر اسے مذاق نہیں برابر کی ٹکر تسلیم کررہے ہیں۔ راہل گاندھی، مس مایاوتی اور اکھلیش یادو کے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہر سیٹ پر مقابلہ کرنے کے اعلان کے بعد یہ کہہ کر مطمئن ہورہے ہیں کہ۔ مگر لوک سبھا کے الیکشن میں مہاگٹھ بندھن کی سب حمایت کریں گے۔
اگر مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی کو اتنی سیٹیں نہیں دے سکتی تھی جتنی وہ مانگ رہے تھے تو دوستانہ انداز میں کچھ کم کی بات تو کرنا چاہئے تھی۔ راہل گاندھی کے سامنے ایک تو پنجاب کا الیکشن ہے دوسرا کرناٹک کا پنجاب میں عام آدمی پارٹی کی جیسی کوئی اور ایک پارٹی ہوتی تو نتیجہ وہ نہ ہوتا جو ہوا۔ مایاوتی اور اکھلیش یادو میں سے کوئی اس خوش فہمی میں نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کو ہراکر حکومت بنا لے گی لیکن یہ تو ہر لیڈر کی خواہش ہوتی ہے کہ پارٹی دو چار قدم آگے بڑھے یہ دونوں اگر دوست ہوجائیں تو کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکیں گے لیکن دشمن ہوجائیں تو نقصان ضرور پہونچا دیں گے۔ اس لئے کہ ایم ایل اے کا ٹکٹ لے کر الیکشن لڑنے والے ہر محلہ میں دس بیس ورکر ہیں وہ اگر ہزار ہزار یا پانچ پانچ سو ووٹ بھی لے گئے تو بہت نقصان ہوجائے گا۔
یشونت سنہا جی نے مشورہ دیا ہے کہ گھمنڈ اور تکبر سے پارٹی کو بچانا چاہئے۔ اور ہمارا حقیر مشورہ یہ ہے کہ اپنے برے دنوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے راہل گاندھی اور ان کی پارٹی آج وہاں آگئی کہ راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ اگر حلیف پارٹیاں کہیں گی تو میں وزیراعظم بن سکتا ہوں۔ یہی راہل گاندھی ڈیڑھ سال پہلے اترپردیش اسمبلی کے الیکشن میں اکھلیش یادو کا اپنے کو ایک مخلص دوست ثابت کرنے میں لگے تھے۔ راہل گاندھی کی حلیف پارٹیاں وہی تو ہوں گی جن کے ساتھ وہ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ اگر نومبر میں راہل گاندھی اس غرور میں رہیں گے کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کتنی ہی پارٹیاں کھڑی ہوجائیں کانگریس جیت جائے گی۔ ہم مانے لیتے ہیں کہ وہ جیت بھی جائیں تو ان دونوں کو دشمن تو نہ بنایا جائے اس لئے کہ دشمن تو کاغذ کا بھی برا ہوتا ہے۔ اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن میں یہ دونوں آنکھیں نہ دکھائیں؟
کانگریس آج جہاں آگئی ہے اس میں اس کا کوئی کارنامہ نہیں ہے پنجاب اور کرناٹک کے علاوہ وہ ہر جگہ بی جے پی سے ہاری ہے۔ یہ تو پروردگار کا کرم ہے کہ اس نے نریندر مودی سے ایک کے بعد ایک ایسی بھیانک غلطیاں کرائیں کہ سارا ملک چیخ پڑا غیب کا حال تو اللہ قادر و کریم ہی جانتا ہے۔ اور اس کو سب کے دلوں کا حال معلوم ہے۔ ہم تو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مودی جی نے جو ہزار اور پانچ سو کے نوٹ بند کئے تو وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ کانگریس ایس پی اور بی ایس پی جن سے اترپردیش میں مقابلہ ہوگا وہ مالی اعتبار سے کنگال ہوجائیں۔ کچھ سیاسی لیڈر کالے دھن کو سفید کرنے کا سبب بتاتے ہیں۔ بلکہ جتنے منھ اتنی باتیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس غلطی نے مودی کو آدھا کردیا۔
قدرت نے ان سے دوسری غلطی جی ایس ٹی کی کرادی اور ان دو بھیانک غلطیوں کے نتیجہ میں جب سو سے زیادہ انسان مرگئے اور جی ایس ٹی نے ہر اس کاروباری کی کمر توڑ دی جو انگریزی اور کمپیوٹر نہ جانتے ہوں تو ظاہر ہے کہ ہاہاکار کیسے نہ مچے؟ انہوں نے اور بھی غلط فیصلے کئے جنہوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ وزیراعظم بننے کے لائق بالکل نہیں تھے یہ صرف سنگھ کے چیف موہن بھاگوت صاحب کی ضد تھی جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ کسی درجہ میں بھی مردم شناس نہیں ہیں۔
ہماری گذارش کا حاصل یہ ہے کہ کانگریس کو 44 سیٹوں تک اتارنا تو بیشک مودی جی کا کارنامہ یا بی جے پی اور اسی ذہنیت کے افسروں کی سازش تھی لیکن گجرات نریش نریندر مودی کو خود ان کی ٹھوکروں نے انہیں منھ کے بل گرایا اور اس میں کہیں سے کہیں تک کانگریس کا کارنامہ نہیں ہے اس لئے ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا بھی صرف ان کو حق نہیں ہے۔ وہ 2019 ء میں حلیف پارٹیوں کو گلے لگانے کی بات نہ سوچیں بلکہ انہیں آج ہی گلے لگائیں اور اگر مرکزی حکومت کی قیمت مدھیہ پردیش اور راجستھان سے چکانا پڑے تو ان دو صوبوں سے زیادہ دونوں پارٹیوں کو اہمیت دیں صوبے تو پھر بھی آسکتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
09؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں