تحریر : عطاء الرحمن القاسمی،شیموگہ صدر مدرسہ انصارالعلوم،بنگلور
اسلام میں نماز کے بعد زکوۃ ہی سب سے اہم رکن ہے۔عام طور پر چونکہ عبادات کے سلسلہ میں نماز کے بعد روزے کا تذکرہ کیا جاتاہے، اسے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نماز کے بعد روزے کا نمبر ہے۔مگر قرآن کریم سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ نماز کے بعد اسلام میں سب سے بڑھ کر اہمیت زکواۃکی ہے۔ یہ دو بڑے ستون ہیں جن پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔انکے ہٹنے کے بعد اسلام قائم نہیں رہ سکتا۔ زکواۃ کے معنی:۔ زکواۃکے معنی پاکی و صفائی کے ہیں۔ اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد حاجتمندوں اور مسکینوں کیلئے نکالناجواب ہے زکواۃ کو زکواۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس طرح ایک مسلمان کا مال اور اس کے ساتھ خود نفس بھی پاک وصاف ہوجاتا ہے۔اسلئے کہ جو شخص خدا کی عطا کی ہوئی دولت میں سے خدا کے بندوں کا حق نہیں نکالتا اس کا مال اور اس کے ساتھ اس کا نفس بھی ناپاک ہے،کیونکہ اس کے نفس میں احسان فراموشی بھری ہوئی ہے۔اس کا دل اتنا تنگ ہے، اتنا خود غرض ہے،اتنا زر پرست ہے، اتنا مادہ پرست ہے کہ جس خدا نے اس اپنی ضروریات سے زیادہ دولت دیکر اس پر احسان کیا،اس کے احسان کا حق ادا کرتے ہوئے انسان کا دل دکھتا ہے۔ ایسے شخص سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دنیا میں کوئی بھی نیکی خدا کے واسطے کر سکے گا، کوئی بھی قربانی محض اپنے دین و ایمان کے خاطر برداشت کریگا۔لہذا ایسے شخص کا دل بھی ناپاک اور اس کا وہ مال بھی ناپاک جسے وہ اس طرح جمع کریگا۔ پچھلی امتوں پر زکواۃکی فرضیت:۔ قدیم زمانہ سے تما انبیاء کی امتوں کو نماز اور زکواۃ کا حکم لازمی طور پر دیا گیا ہے، اور دینِ اسلام کبھی کسی نبی کے زما نے میں بھی ان دو چیزوں سے خالی نہیں رہا۔ابو الانبیاء سیدنا حضرت ابراھیم ؑ اور انکی نسل کے انبیاء کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ نے فرمایا۔ ”ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، اور ہم نے وحی کے ذریعے سے ان کو نیک کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکواۃ دینے کی تعلیم دی اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے“(الانبیاء۷۳) اسی طرح سیدنا اسماعیل کے بارے میں فرمایا”وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکواۃکا حکم دیتے تھے اور وہ (اسماعیل) اللہ کے نزدیک برگزیدہ تھے“ (مریم ۵۵) حضرت موسی ؑ نے اپنی قوم کے لئے دعا کی کہ خدایا ہمیں اس دنیا کی بھلائی بھی عطا کر اور آخرت کی بھلائی بھی۔اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا”اپنے میں جسے چاہوں گا گھیر لوں گا اور میری رحمت ہر چیز پرچھائی ہوئی ہے۔مگر اس رحمت کو میں انہی لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو مجھ سے ڈریں گے اور زکواۃ دیں گے اور ہماری آیات پر ایمان لائیں گے“ (الاعراف۔۱۵۶) رسول اللہ ﷺسے پہلے آخری نبی حضرت عیسی ؑکو بھی اللہ تعالی نے نماز اور زکواۃ کا حکم ساتھ ساتھ دیا فرمایا ”اللہ تعالی نے مجھے برکت دی جہاں بھی میں ہوں اور مجھے ہدایت فرمائی کہ نماز پڑھوں اور زکواۃ دیتا رہوں جب تک زندہ رہوں“(مریم۔۳۱) اس سے معلوم ہوگیاکہ دین ِ اسلام ابتدا سے ہر نبی کے زمانہ میں نماز اور زکواۃ کے ان دو بڑے ستونوں پر قائم ہوا ہے،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خدا پر ایمان رکھنے والی کسی امت کو بھی ان دونوں فرضوں سے سبکدوش کیا گیا ہو۔ اب دیکھئے کہ رسول اکرم ﷺکی شریعت میں یہ دونوں فرض کس طرح ساتھ ساتھ لگے ہوئے ہیں۔قرآن مجید کھولتے ہی سب سے پہلے جن آیات پر ہماری نظر پڑتی ہے وہ یہ ہیں ”یہ قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے“اوراس میں کوئی شک نہیں۔یہ ان پرہیزگاروں کو دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیاہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں“ (البقرہ ۲۔۳) پھر آگے فرمایا ”ایسے ہی لوگ اپنے پرودگار کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اور فلاح ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے“ یعنی جن میں ایمان نہیں اور جو نماز اور زکواۃکے پابند نہیں وہ نہ ہدایت پر ہیں اور نہ انہیں فلاح نصیب ہوسکتی ہے۔پھر اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا ”نماز قائم کرو اور زکواۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو(یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھو'' (البقرہ ۴۳)سورۂ توبہ میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کفار و مشرکین سے جنگ کا حکم دیا ہے اور مسلسل کئی رکوع تک جنگ ہی کے متعلق ہدایات دی ہیں اس سلسلے میں ارشاد ہے '' پھر اگر وہ کفر و شرک سے توبہ کرلیں،ایمان لے آئیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں '' (توبہ ۱۲) یعنی صرف کفر و شرک سے توبہ کرنا اور ایمان کا اقرار کرلینا کافی نہیں ہے اس توبہ کا ثبوت صرف اس بات سے مل سکتا ہے کہ وہ نماز کی بھی پابندی کریں اور زکواۃ دیں۔ لہٰذا اگر وہ اپنے اس عمل سے اپنے ایمان کا ثبوت دے دیں تب تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، ورنہ ان کو بھائی نہ سمجھو اور ان سے جنگ بند نہ کرو۔ اجتماعی زندگی اور زکواۃ:۔ قرآن کریم میں زکواۃ اور صدقات کیلئے جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،یعنی '' خدا کی راہ میں خرچ کرنا '' بعض مقامات پریہ بھی فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم راہِ خدا میں صرف کرتے ہو یہ اللہ کے ذمے قرضِ حسنہ ہے۔گویا تم اللہ کو قرض دیتے ہو اور اللہ تعالی تمہارا قرض دار ہوجاتا ہے۔بکثرت مقامات پر یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالی کی راہ میں جو کچھ بھی تم دو گے اس کا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے اور صرف تم کو اللہ اتنا ہی واپس نہ کریگا بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ دے گا۔اس مضمون پر غور کرنے کی بات ہے کہ۔کیا زمین و آسمان بلکہ ساری کائنات کا مالک وخالق نعوذ باللہ ہمارامحتاج ہے؟ کیا اس ذاتِ پاک اور سب سے اعلی وبرتر کو ہم سے قرض لینے کی ضرورت ہے؟ کیا وہ بادشاہوں کا بادشاہ، وہ بے حدوحساب خزانوں کا مالک اپنے لئے ہم سے کچھ مانگتا ہے؟ معاذ اللہ معاذ اللہ، اسی کی تو بخشش پر ہم پل رہے ہیں۔اسی کا تو عطا کیا ہوا رزق ہم کھاتے ہیں۔ہم میں سے ہر امیر و غریب کے پاس جو کچھ ہے سب اسی کا تو عطیہ ہے۔ایک فقیر سے لیکر ایک کروڑ پتی اور ارب۔پتی تک ہر شخص اس کے رحم و کرم کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔اس کو کیا ضرورت ہے کہ ہم سے قرض مانگے اور اپنی ذات کیلئے ہمارے آگے ہاتھ پھیلائے؟ اصل میں یہ بھی اس کی شانِ کریمی ہے کہ ہم سے خود ہمارے ہی فائدے کیلئے ہماری ہی بھلائی کے لئے ہمارے ہی کام میں خرچ کرنے کو فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ خرچ میری راہ میں ہے،مجھ پر قرض ہے، میرے ذمہ اس کا بدلہ ہے اور میں تمہارا احسان مانتا ہوں کہ تم اپنی ہی قوم کے محتاجوں اور مسکینوں کو دو۔ اس کا بدلہ وہ غریب کہاں سے دیں گے،لہٰذا ان کی طرف سے میں دوں گا۔ تم اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرو اس کا احسان ان پر نہیں مجھ پر ہے، میں تمہارے اس احسان کو اتاروں گا۔تم اپنے یتیموں،اپنی بیواؤں،اپنے معذوروں، اپنے مسافروں،اپنے بیماروں، اپنے مظلوموں اور اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جوکچھ دو،اسے میرے حساب میں لکھ لو۔ تمہارا۔مطالبہ ان کے ذمے نہیں میرے ذمہ ہے اور میں اس کو ادا کردوں گا۔ تم اپنے غریب اور پریشان حال بھائیوں کو قرض دو اور ان سے سود نہ مانگو،ان کو تنگ نہ کرو، اگر وہ ادا کرنے کے قابل نہ ہوں تو ان کو سول جیل نہ بھجواؤ،ان کے کپڑے اور گھریلو ساز و سامان کو نقصان نہ پہنچاؤ،ان کے بال بچوں کو گھر سے بے گھر نہ کردو۔تمہارا قرض ان کے ذمہ نہیں میرے ذمہ ہے۔اگر وہ اصل ادا کردیں گے تو ان کی طرف سے سود میں ادا کروں گا اور اگر وہ اصل بھی ادا نہ کر سکیں گے تو میں اصل اور سود۔ دونوں تمہیں دوں گا۔اسی طرح اپنی جماعتی و تنظیمی فلاح کے کاموں میں اپنے ابنائے نوع کی بھلائی و بہتری کے لیے جو کچھ تم خرچ کرو گے،اسی کا فائدہ اگر چہ تمہیں کو ملیگا،مگر اس کا بھی احسان مجھ پر ہی ہوگا۔میں اس کی پائی پائی نفع سمیت تمہیں واپس دوں گا۔ انسان کا بخل اور حرص:۔
اس بات کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان قرآن کریم کی زبان میں ظلوم اور جہول واقع ہواہے”اس کی نظر تنگ ہے“اس کی سوچ بہت محدود ہے،یہ زیادہ دور تک نہیں دیکھ سکتا،اس کا دل چھوٹا ہے،بڑے اور بلند خیالات اس میں کم ہی سماسکتے ہیں،یہ انسان بڑا خود غرض واقع ہوا ہے۔اپنی غرض کا بھی کوئی وسیع اور لمبا چوڑا خاکہ اس کے ذہین میں پیدا نہیں ہوتا۔یہ انسان وہی ہے جو جلد باز بھی واقع ہوا ہے۔چنانچہ ہر چیز کا فائدہ اور نتیجہ جلد اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔دور رس اس کی نگاہ نہیں ہوتی اور بڑے پیمانے پر جو فائدے حاصل ہوتے ہیں،جن فائدوں کا سلسلہ بہت دور تک چلتا ہے اس کا ادراک تو انسان کو مشکل سے ہی ہوتا ہے۔بلکہ بسااوقات ہوتا ہی نہیں۔یہ انسان کی فطری کمزوری ہے اور اس کمزوری کا اثریہ ہوتا ہے کہ ہر چیز میں انسان اپنے ذاتی فائدہ کو دیکھتا ہے اور فائدہ بھی وہ جو بہت چھوٹے پیمانے پر ہو،پس جلدی سے حاصل ہوجائے۔اس لئے انسان یہ کہتا ہے کہ جو کچھ میں نے کمایا ہے جو کچھ مجھے میرے باپ دادا سے ملا وہ میرا ہے،اس میں کسی کا حصہ نہیں۔مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں میرے مال کی زکواۃ ادا کروں،اس مال کو میری ضروریات پر،میری خواہشات پر،میری نفسانی وہیجانی لذات پر،میری راحت وآسائش پر ہی خرچ ہونا چاہیے،یہی وہ انسانی تصور وخیال ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اکرم ﷺ کے وصال کے فوراً بعد خلافت ِ صدیق ِ اکبر کے دور میں زکواۃ کی ادائیگی کے لئے رکاوٹ بن گیا تو مجبوراً نبوت کے جانشین ِ اول یار ِ غارسیدنا ابوبکر صدیق ؓ کو ایسے خیالات وتصورات کو جنم دینے والوں کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا پڑا کہ ”جو لوگ میرے آقاﷺ کے عہد ِ ذرّیں میں اگر رسی کا ٹکڑا بھی زکواۃکی مد میں دیتے تھے تو آج میں اس رسی کے ٹکڑے کو ضرور اصول کرکے رہوں گا اور زکواۃسے انکار کرنے والوں کے خلاف اعلان ِ جنگ کروں گا“حالانکہ زکواۃ کی ادائیگی کا انکار اُن حضرات کی جانب سے تھا جن مقتدار ہستیوں نے نبوت کا دیدار اپنی آنکھوں سے کیا تھا،آپ کے فیوض وبرکات سے براہ ِ راست فائدہ اٹھانے والے تھے،برسوں آپ کے سایہ ئ رحمت کے آغوش میں رہے،جن حضرات کا عہد ِ ذرّیں خیر القرون کہلایا جارہا تھا،مدینہ ئ منورہ کا ماحول نبوت ورسالت کی مہک اور عطر بیزی سے مہک رہا تھا،اسی لئے بڑی شدت کے ساتھ صدیق ِ اکبر نے زکواۃ نہ دینے والوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور زکواۃ وصول کرکے دم لیا اور صحابہ ئ کرام بھی اپنے امیر کی اطاعت میں اپنے موقف سے باز آگئے اور زکواۃ پابندی سے ادا کرنے کے خوگرہم گئے۔اسلام میں زکواۃ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے تذکرہ کے ساتھ فوراً زکواۃ کا تذکرہ کیا ہے۔ ترجمہ:۔نماز قائم کرو اورزکواۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(البقرہ)اس طرح قرآن ِ کریم کے مختلف مقامات میں جابجا کثرت کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے جو زکواۃ کی فرضیت کی غیر معمولی اہمیت کی طرف واضح اشارہ ہے اور مومنوں کو کبھی سختی کے ساتھ تلقین کی گئی ہے تو کبھی اس کی ادائیگی کے لئے ابھارا گیا ہے،کہیں پہ زکواۃ کی ادائیگی کرنے والے کے لئے جنت کی بشارت سے سرفراز فرمایا گیا ہے تو کہیں زکواۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے حق میں عذاب ِ جہنم خوف دلایا گیا ہے۔تاکہ انسان زکواۃ کی اہمیت کو اپنے قلب میں مضبوطی کے ساتھ بٹھانے اور انسان کا نفس جو جبلی وفطری تقاضے کی تحت بخیل و حریص واقع ہوا ہے یہ وصف زکواۃ کی ادائیگی کے لئے آڑ نہ بنے۔اللہ تعالیٰ خود اس بات کو مومنوں کے حق میں پسند فرماتا ہے کہ بندۂ مومن زکواۃ کی ادائیگی کے ذریعے آخرت کے مدارج ومقامات طے کرے اور اپنے پروردگارِ عالم کی مکمل خوشنودی ورضامندی حاصل کرے۔ زکواۃ کا مقصود افلاس کا خاتمہ:۔ زکواۃمعاشی ترقی اور افلاس کے خاتمہ کا واحد ذریعہ ہے اور افلاس جس سوسائٹی میں عام ہو وہ طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا ہوتی ہے۔اس کی جسمانی صحت خراب ہوتی ہے،اس میں بیماریاں پھیلتی ہیں،اس میں کام کرنے والے دولت کمانے والے کی قوت کم ہوتی چلی جاتی ہے،اس میں جہالت پروان چڑھنے لگتی ہے،اس کے اخلاق کی گراوٹ نمایاں ہونے لگتی ہے،وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے جرائم کا ارتکاب کرنے لگتی ہے اور آخرکار نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ لوٹ مار پر اتر آتی ہے۔عام بلوے ہوتے ہیں،دولت مند لوگ قتل کئے جاتے ہیں،ان کے گھر بار لوٹے اور جلائے جاتے ہیں اور وہ اس طرح تباہ وبرباد ہوتے ہیں کہ ان کا نام ونشان تک دنیا میں باقی نہیں رہتا تو سب سے اہم زکواۃ کے فرض کئے جانے کی حکمت یہی ہے کہ مالداروں کی جان ومال کی بھی حفاظت ہو اور افلاس وغربت کا سوسائٹی میں خاتمہ ہو،مال کی محبت وذخیرہ اندوزی کا جذبہ دلوں سے نکل جائے اور مسلمانوں کے درمیان معاشی واقتصادی قوت میں اضافہ ہوسکے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ جو تم لوگ ایک غریب ومسکین اور مفلس ویتیم کو اپنے مال میں سے دیتے ہو وہ مجھ پر قرض ہے آخرت میں اس کا اصل بھی ادا کردوں گا اور نفع سے بھی سرفراز کروں گا۔تو اللہ تعالیٰ جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے وہ بے حدوحساب خزانوں کا مالک ہے،اپنے لئے ہم سے کچھ مانگتا ہے؟معاذ اللہ اس کی بخشش اور دادودہش پر تو ہم پل رہے ہیں،اسی کا تو دیا ہوا رزق ہم کھاتے ہیں،ہم میں سے ہر غریب وامیر کے پاس جو کچھ ہے اسی کا توعطیہ ہے۔ ہر شخص اس کے کرم کا محتاج ہے اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ساری کائنات کے پالنہار کو کیا ضرورت ہے کہ ہم سے قرض مانگے اور اپنی ذات کے لئے ہمارے آگے ہاتھ پھیلائے؟ رب ِ کریم یہ کہتا ہے کہ تم اپنی بیواؤں،اپنے یتیموں،اپنے معذوروں،اپنے مسافروں،اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کو جو کچھ زکواۃ میں سے دو اسے میرے حساب میں لکھ لو۔تمہارا مطالبہ ان کے ذمہ نہیں میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کردوں گا۔غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک مالک الملک سارے کائنات کا پالنے والا ہم سے یہ لجاجب کرے اور ہمارے فائدہ کے لئے اتنی منت سماجی کرے اس قدر ہمیں سمجھائے اور ہم ہیں کہ مال ودولت کے غرور میں آپے سے باہر ہیں زکواۃ جیسے اہم رکن کی ادائیگی کے لئے ہمارا دل مائل ہی نہیں ہوتا،غریب ومسکین پر ہم احسان جتاتے ہیں،ہمارے دل میں زکواۃ و خیرات اور عطیات ادا کرتے ہوئے تکلیف پہنچتی ہے جب کہ مال اسی رب ِ کریم کا عطیہ ہے۔ زکواۃ کی ادائیگی میں کاہلی:۔ مال و دولت جو اللہ ہی کی عنایت کی ہوئی امانت ہے اس کی بخشش اورعطا کا نتیجہ ہے اس مال میں سے جب ہم پر خدا کی طرف سے زکواۃ واجب ہوتی ہے تو اسے ادا کرتے ہوئے ہمیں بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ہماری تجوریوں سے زکواۃ کے نام پر پیسہ نکالتے ہوہے ہماری پیشانی پر تلخ لکیریں نمایاں ہوجاتی ہیں اور ہمارے ذہنوں میں یہ بات آتی ہے کہ اگر کوئی یتیم ہے وہ محتاج ہے تو فوراً ہمارا ذہن یہ کہتا ہے کہ اس کے باپ کی ذمہ داری تھی اس کے باپ کو اس لڑکے کا انتظام کرنا چاہئے تھا؟ اس کی ذمہ داری ہمارے سرکس لئے؟اگر کسی بیوا کامسئلہ سامنے آیا تو خسیس القلب اور دولت کی پجاری کی زبان پر یہ بے مروت الفاظ نکلتے ہیں کہ اگر کوئی عورت بیوا ہے تو کیا کیا جائے؟اس کے شوہر کی ذمہ داری تھی اس کو پیسہ یا جائداد کا انتظام کرکے جانا چاہیے تھا؟ میں نے ہر ایک کا ذمہ تھوڑی لیا ہے۔اس طرح کے خیالات دولت مندوں کے ذہنوں میں پرورش پاتے ہیں۔ان بہانوں کی آڑ میں زکواۃ ادا کرنے میں اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔بعض لوگ صاف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی محنت وجفاکشی سے دولت کمائی ہے ہم فری میں کیسے دوسروں کو دیدیں؟اس سلسلے میں راقم السطور سے دو افراد کا سامنا ہوا۔دونوں سے میرے اچھے روابط تھے،ایک شخص نے میری موجودگی میں زکواۃ کی مدمیں ۵۲/ ہزار روپئے مدرسہ مظاہرالعلوم سلیم کے سفیر کودیا۔تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ ظاہری وضع قطع اسلامی نہ ہونے اور پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی نہ ہونے کے باوجود معقول رقم دینی ادارہ کو دے دیا۔میں نے اس شخص سے سوال کیا کہ آپ پر کتنی زکواۃ نکلتی ہے؟ مجھے اس بات کا علم تھا کہ ان کو ماہانہ کرایہ تقریباً ۴/لاکھ روپئے بھی ملتا ہے، تو مجھے جواب ملا کہ مولانا میں ایک لاکھ روپیہ تک زکواۃ کی مد میں ادا کرتا ہوں۔مزید میں نے اس سے استفسار کیا کہ بھائی سونا زیورات کی شکل میں کتنا ہے؟ تو جواب ملا کہ میری بیوی کے پاس پانچ کیلو اور لڑکی (جو غیر شادی شدہ ہے)کے پاس ۴/ کیلو ہے میں نے اس شخص سے کہا کہ بھائی اس کے مطابق آپ پر تو زکواۃ کئی لاکھ روپئے نکلتی ہے۔تو جواب ملتا ہے کہ مولانا بہت تکلیفوں اور مشکلوں سے میں نے دولت حاصل کیا ہے،اندازہ سے میں لاکھ روپئے نکالتا ہوں،میں نے کہا اس طرح آپ کے انداز ے سے زکواۃ کی ادائیگی نہیں ہوسکتی، آپ کو مسئلہ کی رو سے ڈھائی پرسنٹ ادا کرنا ہوگا۔مجھ سے اس شخص نے جواب دیا کہ چھوڑئیے مولانا اس رقم کو اللہ قبو ل کرلے گا اس طرح اگر حساب لگا کر زکواۃ دی جائے تو مجھے کافی پیسہ نکالنا پڑیگا۔میری نیت اچھی ہے اللہ قبول کریگا۔اس ضمن میں ایک دوسرا واقعہ بھی میرے ساتھ پیش آیا، وہ یہ کہ ایک میرے کرم فرما اور نیاز مند بنگلور رہتے ہیں۔انہوں نے پانچ سال پہلے اچانک ماہ ِ رمضان میں بلا امیتاز مذہب وملت تمام ہی غربا و مساکین کو زکواۃ کی مد میں کپڑے تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی اس میں شریک رکھااس کا بہت اہتمام کیا اللہ نے بے انتہا دولت سے نوازا ہے۔۰۰۰۵/ ہزار کروڑ نقد بینک میں جمع ہے ہر سال باقاعدہ اس رقم کا یہ حکومت کو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں توحکومت بھی ان کی بے انتہا عزت کرتی ہے اور ان کا ہر کام حکومت بہت جلد نمٹاتی ہے۔کپڑے تقسیم کرنے کے لئے باقاعدہ ڈیڑھ لاکھ روپئے کرایہ دے کر جے سی روڈ بنگلور سٹی میں واقع ”ٹون ہال“ بک کروایا صبح ۱۱/ بجے سے رات دس بجے تک ۵/ کروڑ روپئے کے کپڑے تقسیم کیا۔صبح اس کارروائی کا افتتاح موجودہ CMایڈورپّا کے ذریعہ کروایا،مسلمان مرد عورت کو ان کے ذوق کے حساب سے ہندوؤں کو ان کے مزاج کے مطابق اور ٹملنس کو ان کے مخصوص مذاق کے مطابق تقسیم کیا،اس کارروائی سے نمٹنے کے بعد میں نے تنہائی میں اُن سے بات کی اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کی بنگلور میں ۰۰۸۱/ ایکڑ زمین کے علاوہ نقد ۰۰۰۵/ ہزار کروڑروپئے موجود ہیں ڈھائی پرسنٹ کے حساب سے کروڑوں روپئے آپ پر زکواۃ نکلتی ہے۔آپ ۵/ کروڑ کے کپڑے تقسیم کرکے نہیں بچ سکتے میں ان کا جواب سن کر ششدررہ گیا۔ان صاحب نے مجھ سے یہ کہا کہ ”مولوی صاحب میں نے پیسہ بہت مشکلوں سے حاصل کیا ہے گندی بدبودار نالیوں میں ہاتھ ڈال کرمیں نے اسکراپ جمع کیا ہے۔ میں نے ۵/ کروڑ بھی بہت زیادہ ہی دیا ہے اس کو اللہ میاں قبول کریگا“اندازہ لگائیں کہ اس طرح کی ذہنیت رکھنے والے مال دار ہندوستان میں کتنے ہوں گے کہ جن کی زکواۃ شریعت کے مطابق نہیں نکلتی۔اگر باقاعدہ زکواۃ کی ادائیگی عمل میں آے تو غربت ومسکنت کا خاتمہ یقینا ہوجائے گا۔تقریباً ۵/ سال پہلے اردو اخبارات میں زکواۃ فاونڈیشن دہلی جو زکواۃ کے متعلق سب سے بڑا دارہ ہے اس کی طرف سے یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ ”ہمارے مسلم دولت مند دیانت سے زکواۃ ادا نہ کرنے کے باوجود پورے ملک سے بیس ہزار کروڑ زکواۃ نکل رہی ہے۔مگر یہ کثیر رقم کہاں کھپ رہی ہے کچھ پتہ نہیں۔اس قدر ہم لوگوں میں بدنظمی ہے الامان والحفیظ۔ زکواۃ کا صحیح مَصرَف اور ہماری بے توجہی:۔ بے انتہا افسوس کی بات ہے کہ جس طرح زکواۃ کی ادائیگی سے مسلمان غافل ہیں اسی طرح جن مصارف کی جانب قرآن ِ کریم میں وضاحت کی گئی ہے اس سے بھی غفلت برتی جارہی ہے،قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ”یہ صدقات تو دراضل فقیروں اور مسکینوں کے لئے ہیں اور ان لوگوں کے لئے جو صدقات کے کام پر مامور ہیں اور ان لوگوں کے لئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو۔نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور راہ ِ خدا میں اور مسافرنوازی میں استعمال کرنے کے لئے ہیں ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور داناوبینا ہے“اس آیت میں مصارف ِ زکواۃ کا بیان ہے۔اس مد سے معاشرہ کے جن لوگوں کی مدد مطلوب ہے یہاں ان کی صراحت کردی گئی ہے۔یہ مدّات تو معروف ہیں مگر آج کل افسوس اس بات کا ہے کہ ان مدّات کے علاوہ دیگر مدّات کی بہت قسمیں ایجاد کرلی گئی ہیں جیسے بہت سی رفاہی تنظیمیں،فاونڈیشن،فیڈریشن اور اجتماعی اعتکاف میں اکٹھا ہونے والی بھیڑکے کھانے پینے کے انتظام کے لئے ان مذکورہ مدوں میں بڑے حیلے حوالے اور خوب لچھے دار و اثرانگیز تقریروں کے ذریعے دولت مندوں سے وصولیابی کی جارہی ہے۔ان میں سے بعض تنظیموں نے پوری پوری صدی گزرگئی کوئی حسا ب نہیں دیا اور اہل ِ علم ایسی تنظیموں کی آنکھ بند کرکے تائید کر رہے ہیں۔تائید ہی نہیں بلکہ ایسی تنظیموں کے کلیدی عہدوں پر بھی فائز ہیں کیا اس قسم کی تنظیموں کی اعانت زکواۃ کی رقم کس طرح جائز ہے؟مگر خدا کے یہاں روز ِ قیامت سخت مواخذہ کا خوف ہی ختم ہوگیا ہے۔ دوسری ضروری گزارش ہے کہ تقریباً دیڑھ سو سال سے دینی مدارس کی کارکردگی مختلف دینی میدانوں میں بہت کامیابی کیساتھ رواں دواں رہی مسلمانوں کو بہترین واعظ،ناصح،مصنف،مؤلف،مقرر،مفسر،محدث،مناظر،مبلغ،مدرس،مجدد،مرشد،مفتی،قاضی غوث،ابدال اور قطب ان دینی اداروں نے قوم و ملت کو مہیا کئے۔یہ اونچی اور قد آور شخصیتوں کو تیار کرنے میں ملتِ اسلامیہ کے دولت مندوں کی زکواۃ وصدقات اور عطیات کا دخل رہا ہے۔ٹھیک ہے یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے ملت ِ اسلامیہ کے دولت مندوں نے مذہبی اعتبار سے اپنی ذمہ داری نبھائی مگر دوسری جانب سیاسی،اقتصادی،معاشی،مادی اور اکنومی میدانوں کویو نہی چھوڑدیا۔نہ ہی مذکورہ بالا اونچے درجے کے علماء ومشائخ نے ملت کے مالداروں کو متوجہ کیا نہ سیاسی شعورسے ہمکنار کیا،نہ معاشی واقتصادی نیّاکو بھنور سے نکالا، نہ اکنومی ومادی قوت کو حاصل کیا، زندگی گزارنے کے لئے ان مذکورہ اسباب کو اختیار کرنا نا جائز تھا؟کیا یہ رہبانیت کا رجحان نہیں؟اگر مٹھوں کے سادھو سنت اور مندروں کے پجاری،گرجہ گھروں کے پادری اور کلیساؤں کے پوپ رہبانیت وترکِ دنیا کے خوگر ہیں تو ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے اور ہماری مجلسیں مضحکہ خیز ہنسی وقہقہوں سے گونچ اٹھتی ہیں۔تو یہ ہماری دیڑھ سو سالہ زندگی رہبانیت کے نقش ِ قدم پر نہیں ہے؟ہم نہیں تو موجودہ اور مستقبل کا نیا جنریشن ونئی نسل ہمیں کیا کہے گی اور ہم پر ملامت بھی کریگی چونکہ ہماری پچھلی زندگی جو مذہبی شدت پسندی سے تعبیر ہے اس نے ملت ِ اسلامیہ کی نئی نسل کو سر اٹھا کر زندگی گزار نے کا موقع ہی ختم کردیا۔اب خدارا پچھلی غلطی کو ہرگز نہ دہرائیں مسلمان مادیت،معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ لے کر چلیں جب تک ہم اپنی قوم میں ڈاکٹر،انجینیر،بیرسٹر اور وکیل تیار نہیں کریں گے دوسری قومیں جو ثفاقت وحضارت سے دور اخلاق وکردار سے خالی اور خدا ورسول کے نزدیک ملعون ومبغوض ہیں ہم پر حاوی وحاکم رہیں گی اورامت ِ مسلمہ جو خیر ِامت،وسط ِ امت اور امت ِ اجابت کے خدائی القاب سے نوازی گئی ہے ایسی عظیم امت کی یہ نچلی قومیں بے حرمتی کرتی رہیں گی،دبوجتی رہیں گی اور محکوم وغلام بناکر رکھیں گی۔اگر ہم اپنی گردن اونچی رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی نئی نسل کو غلامی کے طوق ان کے گردن سے نکالنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک ہی تدبیر ہے کہ مسلمانوں کی زکواۃ سب سے بڑا فنڈہے۔اس کے ذریعے یتیموں،مسکینوں،غریبوں اور محتاجوں کے ذہین بچوں کو ڈاکٹر س،انجینیر،وکیل،بیرسٹر،آئی جی آفیسرس،دنیا کے دانشور سیاست میں ماہر ویکتا تیار کیجئے آج مذکورہ بالا حضرات کی بہت سخت ضرورت ہے،اب مدارس کے فضلا،علماء،مصنف،مقرر،مدرس محدث،مفسر،معلم،مفتی کی کثیر تعداد کی چنداں ضرورت نہیں حسب ِ ضرورت تعداد کافی ہے۔ کاش اس پر پہلے ہی توجہ کی جاتی وعلما وفضلا کے ساتھ ساتھ انجینئرس،ڈاکٹرس اور وکیل واسلامی سیاست داں بھی تیار ہوجاتے تاکہ ہمارے ملک کے ہر سرکاری شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نازک ترین مسائل کو سلجھانے کی توفیق عطافرمائیں۔آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں