عبداللہ دامداابو ندوی
جناب! الحمدللہ غیرمسلموں میں کوئز مقابلے ظلمتوں میں نور کے مینار ثابت ہوئے۔۔دین اسلام کے متعلق کئی لوگوں کے شکوک و شبہات دور ہوئے اور ان کے لیے ہدایت کی راہیں ہموار ہوئیں۔۔
تقسیم انعامات کی تقریب میں ایک غیر مسلم بچی نے یہ کہہ کر گراں قدر انعام واپس کردیا کہ :
”ایمان سے بڑھ کر کوئی انعام نہیں،اس لیے مجھے ان پیسوں کی کوئی حاجت نہیں ہے“
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
ایک غیر مسلم بچی کا حال یہ تھا کہ تقریب انعامات کے موقع پر وہ سر سے پا تک ڈھکی ہوئی تھی یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں میں دستانے بھی تھے اور اس نے وہیں پر کلمہ توحید کا اقرار کردیا۔۔
ان بچیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے،گھروں سے بے گھر کی جاتی ہیں،اپنے معاشرے میں ذلیل ہوتی ہیں لیکن ان کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہیں ہوتی۔۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
یہ تھی محبوب نگر(حیدرآباد) کی محبوب شخصیت مولانا عبدالناصر مظاہری جو مشفق و مربی مولانا الیاس صاحب ندوی مدظلہ العالی سے اپنے دعوتی نشیب و فراز کی عجیب و غریب داستان بیان کررہی تھی۔۔
مولانا عبدالناصر مظاہری بظاہر ایک سیدھے سادھے انسان معلوم ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ ایک عظیم داعی اور مبلغ اسلام ہیں،ان کو بات کرنے کا سلیقہ خوب آتا ہے،رس گھولتی اور پیار و محبت کی بولی بولتے ہیں گویا زبان سے پھول جھڑتے ہیں۔۔
حفیظ اپنی بولی محبت کی بولی
نہ اردو،نہ ہندی، نہ ہندوستانی
دلچسپ اور قابل ستائش بات یہ ہے کہ وہ حفظ کی تکمیل کے بعد دیہات کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے ،پھر کئی سال بعد خیال ہوا کہ حفظ قرآن کے بعد اس کا فہم اور علوم دینیہ سے واقفیت بھی ازحد ضروری ہے اسی غرض سے انھوں نے مدرسے میں داخلہ لیا اور جب مظاہر علوم میں دورہ حدیث کے لیے پہنچے تو وہ اپنی عمر مستعار کے چالیس سال مکمل کرچکے تھے ۔۔۔۔
حیدرآباد دکن ہمیشہ سے اہل علم اور ارباب تحقیق و تصنیف کی آماجگاہ رہا ہے،نہ جانے دکن کی خاک سے علوم و فنون کے کتنے ہی جواہر پارے نکلے جو اپنے علوم سے آج بھی اپنے متوالوں اور خوشہ چینوں کی جھولیوں کو بھررہے ہیں۔ان ہی نیک خصال اور ستودہ صفات لوگوں میں ماہر تعلیم و ماہر نفسیات بانی و چانسلر M.S محمد عبدالطیف خاں صاحب ہیں۔۔جن کا جدید ٹیکنالوجی سے مرصع تعلیمی نظام دیکھ کر ہر کوئی انگشت بدنداں اور ششدر رہ جاتا ہے۔گویا انھوں نے سیکڑوں اسکالروں کی نگرانی میں تحقیق و تصنیف کی پوری کائنات سجائی ہے۔انھوں نے جس اہتمام سے وفد کا استقبال کیا اور اعلی عہدے اور منصب پر فائز ہوکر جس تواضع و انکساری کا معاملہ برتا واقعتا قابل دید تھا۔۔کہنےوالے نے بالکل صحیح کہا کہ
درخت جس قدر پھل دارہوتا ہے اسی قدر جھکا ہوا ہوتا ہے
کاش یہ صفات ان میں بھی ہوتیں جو کچھ نہ جاننے کے باوجود اپنے آپ کو علامہء وقت تصور کرتے ہیں۔۔۔
محمد عبدالطیف خان آج بھی حصول علم میں کوشاں ہیں،کچھ ماہ قبل انھوں نے امریکہ میں نفسیاتی علوم میں صرف تین دن کا کورس تین لاکھ روپئے دے کر کیا۔۔۔وقتا فوقتا حصول علم کے لیے مختلف ممالک کا دورہ کرنا ان کا خاص مشغلہ ہے۔۔
علم کے دریا سے نِکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی! خزف چینِ لبِ ساحل ہوں میں
ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ تشویشناک صورتحال اور الحاد و ارتداد کا بڑھتا سیلاب اب گھر گھر پہنچ چکا ہے، باوثوق زرائع کے مطابق گزشتہ دوتین مہینوں میں سیکڑوں طلبہ و طالبات خارج از اسلام ہوکر مذاہب باطلہ میں داخل ہوچکے ہیں۔۔
ایسے میں امت کے بیدار مغز اور ہوشمند علمائے کرام نے اس سنگین صورتحال کا جائزہ لیا اور ملت کو اس سنگین مسئلے سے واقف کراتے ہوئے اقبال کی زبانی یہ اشارہ دیا کہ
نہ سمجھو گے تومٹ جاٶ گے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
مولانا الیاس صاحب ندوی،مولانا انصار صاحب ندوی مدنی،مولانا ابرار صاحب ندوی،مولانا بشیر صاحب ندوی اور مولانا عمار صاحب ندوی کے ساتھ ہوئے تین دن میں تین ریاستوں کے اس ہنگامی دورے میں بہت سے حقائق سامنے آئے،ان ریاستوں میں مرتدین اور ملحدین کی ایمان سوز داستانیں سنی گئیں اور ملت کے بیٹوں اور بیٹیوں کی اپنے دین سے بیزاری اور بے اعتمادی کے اسباب سامنے آئے۔۔
مولانا الیاس صاحب نے ان تین دنوں میں کسی عوامی اجلاس میں شرکت نہ کی بلکہ تین دن تک علماء کو جھنجھوڑا،ان کو اپنا فرض منصبی یاد دلایا،الحاد اور ارتداد کےبڑھتے سیلاب سے بچنے کی تدبیریں بتائی بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ
دامن پہ رکھ دیا تھا کلیجہ نکال کر
مولانا کے مطابق اس سنگین صورتحال کے اسباب میں مخلوط نظام ہائے تعلیم ،سوشل نیٹ ورک سے نوعمر بچوں اور بچیوں کی وابستگی،والدین کی غیر ذمہ دارانہ تربیت اور علمائے کرام کی اپنے فرض منصبی سے غفلت ہے۔۔۔۔
مولانا نے ہر جگہ بڑے ہی درد اور کرب سے یہ جملہ دہرایا کہ
طریقئہ دعوت منصوص نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف دعوت منصوص ہے
واقعتا مولانا کا یہ جملہ گرہ میں باندھنے والا ہے۔۔۔۔
میسور،بنگلور،حیدرآباد اور ممبئی کی غیر معمولی اور تشویشناک صورتحال سے سرپرستوں کو اپنی اولاد کی تربیت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ کمر بستہ ہونے کی اشد ضرورت ہے۔۔
مخلوط تعلیم کا زہر معاشرے سے ختم کرنا ہمارا مقصد ہو ورنہ یہ زہر زہر ہلاہل ثابت ہوگا اور پوری ملت کو تباہ کردے گا
تعلیم کے مرحلے تک سوشل نیٹ ورک کے استعمال سے اپنے بچوں کو بچانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، اس جانب مکمل طور پر سختی اپنانی چاہئیں
علمائے کرام ائمہ اور خطباء کو حکمت کے ساتھ تربیتی اور دین پر برقراری کی صورتیں اپنانی چاہیے اس اعتبار سے کہ نئی نسل کو اپنی جان سے بڑھ کر اپنا دین عزیز ہو۔۔اور وہ زبان حال سے اقرار اور ببانگ دہل اعلان کریں کہ
ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
کہیں ایسا نہ ہو کہ کل یہی سیلاب بلا ہماری بستیوں کا رخ کرے۔۔
العیاذ باللہ
جواب دیں