15اگست اور 26جنوری ہندوستان کی تاریخ کے دو اہم دن ہیں۔ 15اگست یوم آزادی اور 26جنوری یوم جمہوریہ کے حوالے سے ہر سال ملک بھر میں بڑے تزک و احتشام سے منائے جاتے ہیں۔تمام ہندوستانیوں کے لئے یہ دودن پاسداری و تجدید عہد کے دن ہیں۔26جنوری 1950کو ہندوستان کا آئین (جو دنیا بھر میں اپنی انفرادیت اور کثرت میں وحدت کی وجہ سے احترام ووقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔)نافذہوا۔آئین ہند کا مسودہ دستور ساز اسمبلی نے تیار کیا۔ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان نے منتخب کیاتھا۔ ابتداً ارکان کی تعداد 389 تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کی تعداد 299ہو گئی۔9دسمبر 1946سے24جنوری1946 تک یہ دستور سازاسمبلی قائم رہی۔آئین کی تدوین میں تین سال لگے اور اس عرصے میں 165 ایام پر محیط 11 اجلاس منعقد ہوئے۔165دنوں پر محیط 11اجلاس میں آزاد بھارت کے نئے دستور کی ہر شق پرسنجیدگی سے غوروفکر اور بحث و مباحثہ کے بعد بالآخر اسے 26نومبر1949کو قبول کرلیاگیا۔ دستور سازاسمبلی کے آخری مختصر اجلاس مورخہ 24جنوری 1950کو تمام ارکان دستور ساز اسمبلی نے سوائے مولانا حسرت موہانی کے سبھی نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے۔ 26جنوری 1950کو آئین ہند ملک پر نافذ ہوگیا۔ دستور ساز اسمبلی کے اہم ارکان میں ڈاکٹر بھیم راؤ امیڈکر،سنجے فاکے،پنڈت جواہر لعل نہرو،چکرورتی راج گوپال چاری،ڈاکٹر راجندرپرساد،ولبھ بھائی پٹیل،کنہیالال مانک لال منشی،گنیش واسودیوماوالانکار،مولانا ابوالکلام آزاد،شیاما پرساد مکھرجی،نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا شامل تھے۔دستور ساز اسمبلی کے 30نمائندے درج فہرست طبقات و قبائل کی نمائندگی کررہے تھے۔اینگلوانڈین کی فرینک انتھونی،پارسی طبقے کی پی ایچ مودی،کرسچن اسمبلی کے نائب صدر ہریندرکمار مکرجی غیر اینگلوانڈین عیسائیوں،اری بہادر گورنگ گورکھا قبیلے کی نمائندگی کررہے تھے۔الاڈی کرشنا سوامی ایئر،بنینگال نرسنگ راؤ،کے ایم منشی اور گنیش ماولنکر جیسے جج بھی دستور ساز اسمبلی کے رکن تھے۔بلبل ہند سروجنی نائیڈو،ہرشا مہتا،درگابائی دیش مکھ،امرت کور اور وجیالکشمی پنڈت خواتین اراکین میں شامل تھیں۔دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر صرف دودن کے لئے سچدانندا سنہامنتخب ہوئے تھے اور بعد میں ڈاکٹر راجندپرساد اس کے صدر مقرر ہوئے۔ دستور ہند کی رو سے ہندوستان ایک سیکولر جمہوریہ ہے جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا۔ کئی سیاسی بدعنوانیوں کے باوجود آج بھی ہمارا ملک ایک مضبوط انتخابی جمہوریت کی صورت باقی ہے۔ملک کا آئین شہریوں کو آزادی کی ضمانت فراہم کرتا ہے جس میں آزادی اظہار اور مذہب کی آزادی بھی شامل ہے۔دستور ہند کی اساس اگرچیکہ جمہوریت اور سیکولرازم ہیں لیکن آزادی کے بعد سے ہی سیکولر نظریات ہندو فرقہ پرستوں کی تنقیدوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل جاری گاندھی اور گوڈسے کا فکری نظریاتی تصادم آج بھی جاری ہے۔ ہندوستان میں مذہب کا استعمال روحانی تسکین و تزکیہ نفس کے بجائے مذہبی منافرت،تعصب ا ور فرقہ پرستی جیسے انسانیت سوز جذبات کے فروغ کے لئے کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں کئی مذاہب،نسلیں، تہذیبیں اور زبانیں پائی جاتی ہیں۔ تنوع میں اتحاد ہندوستان کا طرہ امتیاز ہے۔ملک میں مسلمانوں یا کسی اقلیتی مذہب سے نفرت نئی بات نہیں ہے۔صدیوں قبل بدھ مت اور جین مت بھی نفرت اور تعصب کے اس الاؤ میں جھلس چکے ہیں۔ہندو ؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کے بیج جو تحریک آزادی کو سبوتاج کرنے کے لئے انگریزی سامراج نے ڈالے تھے وہ آزادی کے بعد بڑی تیزی سے خود روجنگلی پودوں کی شکل گلشن ہند کی خوب صورتی کو بگڑ رہے ہیں۔1947میں ہندواکثریتی ہندوستان اور مسلم اکثریت پاکستان(بشمول موجودہ بنگلہ دیش) کی صورت مادرہند تقسیم ہوگئی۔تقسیم کے نتیجے میں مہلک فسادات اور بھیانک فرقہ وارانہ تشدد بھڑک اٹھے۔جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے پاکستان اور ہندوؤں اورسکھوں نے ہندوستان ہجرت کی۔ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنے والے مہاجرین کے گھروں کو زمین بوس کیا گیا۔حیوانیت کا ننگا ناچ ہوا۔ سڑکوں پر نعشیں پھینکی گئیں۔صدیوں سے امن وآشتی اور محبت سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ابتداً اس کی وجہ انگریز کی ڈی وائڈ اینڈ رول کی پالیسی تھی اور بعد میں اسی پالیسی کے تحت منصۂ شہود پر آئیں فاشسٹ تنظیموں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا۔مسلم دشمنی پر مبنی ہندوقوم پرست تحریک کے ردعمل میں ملک کی تقسیم (پاکستان) کا مطالبہ کیا گیا جس کی ملک کے تقریباًمسلمانوں نے شدومد سے تنقید کی۔تقیم ہند کے بعد بھی نفرت کے جلتے الاؤ میں مسلمانوں نے خود کو جھونک دیا لیکن کبھی وطن عزیز سے ہجرت گوارا نہیں کی۔تقسیم کے بعد تقریباً35ملین(تین کروڑ پچاس لاکھ) مسلمان ہندوستان میں ہی قیام پذیر رہے۔ دستور ہند کی نمایاں خصوصیات بھارت کا دستور 395دفعات(Articles)ا،22بواب(Chapters)،12ضمیوں (Schedules)،اور 02تتموں (Appendix)پر مشتمل ہے۔ دستور میں واضح طور پر سماجی،معاشی اور سیاسی انصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے۔دستور کے دیباچے سے ہی دستور کی نمایا ں خصوصیات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔”ہم،بھارت کے عوام،بھارت کو ایک مقتدرسماج وادی سیکولرعوامی جمہوریہ بنانے کے لئے،اور اس کے تما م شہریوں کو،سماجی،معاشی اور سیاسی انصاف،خیال و اظہار،عقیدہ،مذہب اور عبادت کی آزادی،بہ اعتبار حیثیت اور موقع مساوات،حاصل کرانے کے لئے اور ان سب کے مابین فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سالمیت کو یقینی بنانے والی اخوت کو فروغ دینے کے لئے،متانت وسنجیدگی کا عزم کرتے ہوئے اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج مورخہ 26نومبر1949کو ذریعہ ہذا اس آئین کو اختیار کرتے ہیں،وضع کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں۔“ حق مساوات) آئین کی دفعہ (14
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں