1967 ء کے آخر میں ہر ریاست کے وزیرا علیٰ کو چودھری چرن سنگھ نے لکھنؤ بلایا اور ایک نیشنل پارٹی بنانے کی تجویز رکھی۔ اس وقت ہم چودھری صاحب سے بہت قریب ہوچکے تھے۔ اسی لئے ہم بھی ابتدائی مشوروں میں شریک رہے۔ چودھری صاحب چاہتے تھے کہ پارٹی بنانے کا پہلا اجلاس لکھنؤ میں ہو لیکن مدھیہ پردیش کے تخت مل جین نے ضد کی کہ اجلاس اندور میں ہونا چاہئے۔ بعد میں سب نے اتفاق کرلیا کہ اندور میں ہی اجلاس ہوجائے۔ چودھری صاحب کو زیادہ قریب سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کسی آل انڈیا پارٹی کو چلانے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ اُن کے اندر ہر خوبی تھی لیکن وہ دیانت داری اور ایمانداری میں کسی کی رعایت نہیں کرسکتے تھے اور بڑی پارٹی سونے چاندی کے پہیوں کی گاڑی میں چلتی ہے۔
جن کانگریس اترپردیش میں نام کے لئے اور بھی مسلمان تھے لیکن چودھری صاحب جن کے اوپر اعتماد کرتے تھے وہ ایس ایم جعفر اور حفیظ تھے۔ ہمارے اور چودھری صاحب کے درمیان اعتماد کی سب سے مضبوط کڑی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام نرائن ترپاٹھی تھے۔ جو بیحد شاہ خرچ تھے۔ مسئلہ جب اندور جانے کا آیا تو ترپاٹھی جی دو بوگی لے جانے سے کم پر تیار نہیں تھے اور چودھری صاحب اسے فضول خرچی سمجھتے تھے۔ ترپاٹھی جی کا کہنا تھا کہ اگر ہم 25-20 آدمی لے جائیں گے تو ہماری آواز ہی کیا ہوگی؟ پھر ایسا ہوا کہ جے رام ورما، اُدِت نرائن شرما، شیام لال یادو اور دوسرے وزیر بھی بوگی کے حق میں ہوگئے اور لکھنؤ سے دو بوگیاں اندور پہونچ گئیں۔ اندور میں دھرم شالے بہت ہیں اور بہت عالیشان ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے ہر صوبہ کے ڈیلی گیٹ کے لئے الگ دھرم شالہ کا انتظام کیا تھا۔ ہم اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے جعفر بھائی، محسن عثمانی اور ٹنڈن کے ساتھ ایک ہوٹل میں ٹھہر گئے جن کا کرایہ اس لئے بہت کم تھا کہ وہاں دھرم شالے بہت تھے۔
دو دن اجلاس چلا زبردست جوش و خروش نظر آیا ہر صوبہ کے ڈیلی گیٹ اپنے صوبہ کے لیڈر کو صدر بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لئے بہت رسہ کشی اور نعرے بازی ہوئی لیکن سب کچھ دوستانہ فضا میں ہوا۔ اُترپردیش کے کئی دوست جو چودھری صاحب کو قریب سے جانتے تھے انہوں نے صدر کے نام کے لئے چودھری صاحب کی اندر اندر مخالفت کی صرف اس لئے کہ وہ خرچ کرنے کے نام پر دیانت داری کا سوال اٹھائیں گے اور ہر کسی کی خواہش اندرا گاندھی سے مقابلہ کرنے کی تھی جو کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح نوٹ برسانے کی شہرت رکھتی تھیں آخرکار صدر کے لئے بہار کے وزیر اعلیٰ مہامایا پرساد سنہا کے نام پر اتفاق ہوگیا اور پارٹی کا نام بھارتیہ کرانتی دل رکھا گیا جس کا انتخابی نشان چودھری صاحب نے ہل دھر کسان رکھوایا اور اس اجلاس میں ہی پرچم کی نقاب کشائی ہوگئی۔
آزادی کے بعد یہ کانگریس کے خلاف باغی کانگریسیوں کا پہلا محاذ تھا جو جیسے تیسے بنا پھر چلا اور خود ہی ختم ہوگیا۔ اندرا گاندھی نے 1975 ء میں جے پرکاش نرائن کی تحریک سے گھبراکر ایمرجنسی لگادی اور اپنے ہر مخالف کو جیل میں ڈال دیا۔ مسلمانوں کا اس تحریک سے کوئی سیاسی تعلق نہیں تھا لیکن کانگریسیوں کو اور اُن کے متعصب ہندو افسروں کو اس وقت تک مزہ ہی نہیں آتا تھا جب تک وہ اپنے ظلم کا نشانہ مسلمانوں کو نہ بنائیں۔ انہوں نے آنکھ بند کرکے بے وجہ مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں بند کردیا کہ تمام مسلمان چیخ پڑے اور جب 1977 ء میں جے پرکاش نرائن آچاریہ کرپلانی جن سنگھ کے لیڈر اور سوشلسٹ پارٹی کے راج نرائن نے جنتا پارٹی بنائی تو اس میں صرف تین کانگریسی تھے۔ بابو جگ جیون رام، ہیم وتی نندن بہوگنا اور نندنی ست پتھی اس کے باوجود پارٹی کے بڑوں نے وزیر اعظم نہرو خاندان کے بدترین مخالف مرارجی ڈیسائی کو وزیر اعظم بنایا اور یہی فیصلہ قسطوں میں پارٹی کے ٹوٹنے کا سبب بنا۔
اب یہ تیسرا محاذ ہے جو 15 اپریل کو وجود میں آیا ہے۔ اس میں ایک اچھائی یہ ہے کہ مختلف نظریات والوں کی بھیڑ نہیں ہے۔ جو چھ پارٹیاں اس میں شریک ہیں ان میں ملائم سنگھ کے علاوہ دیوگوڑا بھی بزرگ لیڈر ہیں لیکن ایک بہت بڑی کمزوری اُن کی یہ ہے کہ وہ انگریزی یا کنڑ کے دائرہ سے آگے نہیں نکل پاتے۔ حالانکہ جب وہ وزیر اعظم بنے تھے تو انہوں نے 15 اگست کو لال قلعہ سے اپنی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ میں ہندی نہ بولنے پر شرمندہ ہوں۔ اگر میں ایک سال اور وزیر اعظم رہا تو آئندہ سال میں ہندی زبان میں ہی تقریر کروں گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر وہ قومی لیڈروں کی صف میں کھڑے رہنا چاہتے تھے تو ہندی بولنے کی مشق کرتے لیکن وہ پھیلنے کے بجائے سکڑتے ہی جارہے ہیں۔ یہ بات بہت اچھی کی ہے کہ پارٹی کا نام نشان اور پرچم ایک کمیٹی تیار کرے گی۔ کوئی بھی پارٹی اپنا نشان چھوڑنے کے لئے آسانی سے تیار نہیں ہوگی کیونکہ اگر کسی وجہ سے یہ محاذ پھر بکھرا تو کوئی اپنا پرانا نشان واپس نہ لے سکے گا۔
ملائم سنگھ کی سائیکل اور لالو کی لالٹین نے پندرہ پندرہ برس حکومت کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کانگریس کا پہلا نشان دو بیلوں کی جوڑی تھا۔ اختلاف ہوا تو وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اندرا کانگریس کو دودھ پیتا بچھڑا ملا۔ پھر وہ بھی چھین لیا گیا۔ اب وہ ہاتھ پر الیکشن لڑرہی ہے۔ جنتا پارٹی بنی تو اس نے بی کے ڈی کے نشان کو اپنالیا اس کے بعد چودھری صاحب نے بہت چاہا کہ یہ نشان اُن کے لوک دل کو مل جائے لیکن سبرامنیم سوامی اسے دبائے بیٹھے رہے اور اب وہ مردہ نشانوں میں مل گیا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ لالوجی اور ملائم سنگھ جی نے اوم پرکاش چوٹالہ کو اپنے ساتھ کیوں لے لیا جبکہ وہ بدعنوانی کے الزام میں دس سال کی سزا کاٹ رہے ہیں؟ بہرحال ایک بات اور سوچنے کی ہے کہ بہار میں جب لالو جی اور نتیش کمار گلے ملے تھے تو کانگریس بھی ان کے ساتھ تھی۔ اب اگر وہ الگ رہی تو جمہوری ووٹ دو جگہ تقسیم ہوجائیں گے بلکہ مایاوتی الگ رہیں تو تین جگہ تقسیم ہوں گے اور بھگوا ووٹ بس ایک ہی جگہ رہ جائیں گے۔ اگر ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانا ہے تو سب کو فراخدلی سے کام لینا ہوگا اور کم از کم سونیا گاندھی کو دماغ سے اسے نکال دینا ہوگا کہ کانگریس کی یہی تاریخ ہے کہ وہ نیست و نابود ہوجاتی ہے اور پانچ سال کے بعد اس سے زیادہ شان و شوکت سے واپس آجاتی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو۔
جواب دیں