جناب یسین محتشم ایک سچا مدرس(وکیل جس نے تدریس کو ترجیح دی)

✒️ : محی الدین بشار رکن الدین ندوی

رات دیر گئے جب محتشم محمد یسین (یسین سر) کی وفات کی خبر کانوں سے ٹکرائی تو آنکھوں کے سامنے ان کی مسکراہٹ گھوم گئی، اور ذہن میں ان سے ملاقات کے لمحے گردش کرنے لگے تھوڑی ہی دیر میں بھٹکل کے تمام گروپس میں یہی خبر گردش کر رہی تھی اور ہر کوئی ان کی اچانک وفات پر متحیر تھا لیکن موت تو بہر حال آنی ہے اور جب آتی ہے تو اس میں لمحہ کی بھی تاخیر یا جلد بازی نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے قران کہتا ہے :(فاذا جاء أجلھم لا یستأخرون ساعةولا یستقدمون)

یسین سر نے اگرچہ وکالت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی، لیکن انہوں نے عدالت کے بجائے درسگاہ کو چنا آپ کا یہ جملہ جو آپ بار بار دہرایا کرتے تھے تدریس کے تئیں آپ کے خلوص کی نشاندہی کرتا ہے

*بیٹا میں BY CHANCE TEACHER نہیں BY CHOICE TEACHER ہوں*

آپ کا انداز تدریس نرالا اور دلوں کو موہ لینے والا تھا، آپ خشک سے خشک اسباق بھی طلبہ کو اس انداز سے پڑھاتے کہ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور تازگی کے آثار نمایاں ہوتے اسی طرح آپ پوری کوشش کرتے کہ ہر طالب علم سبق کو سمجھ لے -دوران درس آپ ہر ایک کو مخاطب کرتے چٹکلے،اقوال،اشعار اور تفریح کے ذریعے سب کو متوجہ رکھتے اور پورے شوق اور لگن کے ساتھ تدریس کا فریضہ انجام دیتے ، اسی طرح اسباق کی تیاری اور نوٹس کے لئے آپ خوب تیاری کرتے اور پورا نچوڑ طلبہ کے سامنے رکھتے ، مسجد ملیہ سے متصل آپ کی جو *محتشم اکیڈمی* تھی وہاں آپ دیر رات تک اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور طلبہ کے لئے نوٹس اور اپنے اسباق کے لئے PPT وغیرہ تیار کرتے الغرض آپ ایک سچے اور منجھے ہوئے مدرس تھے۔

مجھے محتشم اکیڈمی میں دو سال تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اس دوران مرحوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ، مرحوم میں اللہ نے بہت سے خوبیاں ودیعت فرمائی تھی، آپ نوجوانوں کو سمجھاتے اور انھیں آگے بڑھنے کے لئے موٹیویٹ کرتے اسی طرح تعلیم سے زیادہ طلبہ کی تربیت عقائد ،اخلاق اور کردار پر توجہ دیتے،اکثر یہ شعر آپ پڑھا کرتے تھے

*تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی*

*تہذیب سکھاتی ہے جینے کا طریقہ*

آپ میں سخاوت کی صفت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مختلف بہانوں سے طلبہ کے لئے دعوت کرنا دوران درس آئس کریم ،جوس وغیرہ کے ذریعے تواضع کا انتظام کرنا آپ کی عادت تھی۔

آپ نے اپنی اکیڈمی کے ذریعے کئی طلبہ کے لئے مفت ٹیوشن کا بھی انتظام کیا اور خاموشی سے ان کی مالی امداد بھی کرتے رہے۔ آپ علماء اور مدارس کے طلباء کی قدردانی کرتے تھے اور انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا مختلف علوم و فنون کی کتابیں آپ کی الماریوں میں سجی ہوئی تھیں خاص طور پر علامہ اقبال کی شاعری اور ان کے افکار سے آپ کو خصوصی لگاو تھا اسی طرح نفسیاتی کتب کے مطالعہ کے بھی آپ شوقین تھے ، دینی کتابوں سے بھی آپ کو خصوصی شغف تھا جس کا اندازہ آپ کی گفتگو سے ہمیشہ ہوتا تھا ۔

آپ نے ہمیشہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب دی اور اپنے مخصوص لب و لہجہ کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے قریب کیا اور انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ، کئ ایسے طلبہ جو مایوسی کا شکار تھے آپ نے انھی زندگی نو کا سبق دیا اور آج وہ کامیابیوں کا زینہ طے کر رہے ہیں ،الغرض قوم کے طلبہ کو آگے بڑھانے اور انھیں اخلاقیات کا درس دینے کے لئے آپ نے اپنی زندگی وقف کردی۔

رات میں کبھی کبھی جب آپ اکیڈمی میں ہوتے تو آپ سے ملاقات ہوتی جس میں اکثر علم و کتاب ، شہر کے حالات ،طلبہ کے مسائل اور ان کے حل پر گفتگو ہوتی ، ایک مرتبہ کہا کہ طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ انھیں زبان پر درک (commond on language ) ضروری ہے اور ہمارے طلبہ میں اس کا بہت فقدان ہے لیکن میں جامعہ کے طلباء اور فارغین میں اس چیز کو دیکھتا ہوں، اسی طرح ایک مرتبہ اساتذہ کے ادب کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ اسکول و کالجس اس چیز کی بہت کمی ہے لیکن جامعہ کے طلبہ جس طرح سے راستوں وغیرہ پر اپنے اساتذہ کی سواری سے آگے (over attack) نہیں جاتے بلکہ ان کے پیچھے چلتے ہیں یہ چیز مجھے بہت متاثر کرتی ہے الغرض طلباء اور معاشرے میں جو خامیاں اور خوبیاں پائی جاتی ہیں اس پر آپ کی گہری نظر تھی اور آپ بارہا اس کا اظہار کرتے تھے اور متفکر رہتے تھے کہ کس طرح طلباء اور نوجوانوں کی علمی و اخلاقی خوبیوں کو پروان چڑھایا جائے۔

اگر آپ چاہتے تو معاشی زندگی سے وابستہ ہوکر اپنے لئے ایک بہتر معاشی مستقبل کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن قوم کے نوجوانوں کے لئے، تدریس کے لئے آپ کی لگن اور جنون نے انھیں اس سلسلے میں کبھی سوچنے نہیں دیا اور آپ نے تعلیم اور تعلم کی جو راہ اپنائی آپ نے اس کا پورا حق ادا کیا شاعر کہتا ہے

*موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس*

رات دیر گئے ان کی وفات کی خبر سن کر نوجوانوں اور عوام کا جم غفیر سوشیل میڈیا کے ذریعے آپ پر مضامین اور تعزیتی پیغامات ،آپ کے جنازہ میں عوام کا ہجوم اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ آپ صرف ایک استاد نہیں تھے بلکہ آپ ایک مشن اور تحریک تھے، جس نے قوم کے نوجوانوں میں شعور ،علم اور خودداری کی جوت جگائی، انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور مایوسی سے لڑنا سکھایا ۔

اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین

مرثیہ مگر کس کا

بھٹکل کو تعلیمی میدان میں بڑا نقصان: یاسین محتشم (یاسین سر) انتقال کرگئے