یکساں سول کوڈ عدلیہ کے دائرہ سے باہر

کاروباری طور پر جس طرح تباہ کیا جارہا ہے اور جس منصوبہ بند انداز میں ان کا نسلی صفایا کیا جارہا ہے اس سے مسلم زعما، دانشوروں، علما اور مدبروں کا فکرمند اور بے چین ہونا ایک فطری امر ہے۔ حالیہ دنوں گائے کے حوالے سے جو ہوا اور اب بھی کسی نہ کسی مشکل میں ہو ہی رہا ہے وہ نہ صرف ہمارے سیکولر اور جمہوری ملک کے ماتھے پر بدنما داغ ہے بلکہ پوری نوع انسانی کے لیے شرمناک ہے۔ 
یہ سیاست کا انتہائی گھناؤنا کھیل ہے جس کو دھرم اور سنسکرتی کے نام پر کھیلا جارہا ہے اور اس وقت تک کھیلا جاتا رہے گا جب تک ہندو راشٹر کا خواب پورا نہیں ہوجاتا۔ کچھ ہندوتوا عناصر کے خیال میں تو موجودہ مودی حکومت غیر اعلانیہ ہندوراشٹر ہے اور جب تک ہندوراشٹر کا باضابطہ اعلان نہیں ہوجاتا اس وقت تک ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، اس کے لیے چاہے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ 
ملک کی فرقہ وارانہ فضا کو ایک بار پھر شراروں سے بھر دینے کی پوری پوری کوششیں جاری ہیں۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو بھاری اکثریت حاصل ہوجانے کے بعد ملک کی فاشسٹ قوتیں پورے ملک کو یرغمال بنالینے میں پیش پیش ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں جن حساس موضوعات پر بحث جاری ہے، ان میں مسلمان کا پرسنل لا خصوصاً ہندوتوا کے نشانے پر ہے جسے وہ اپنے عزائم و منصوبوں کو روبہ عمل لانے میں روڑا سمجھ رہے ہیں۔ مباحثے کے دوران بعض تو اسے متوازی قانون قرار دے رہے ہیں، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا قومی میڈیا کتنا اور کس حد تک غیر جانبدار ہے۔ مسلم خواتین سے ہمدردی، چار چار شادیاں اور تین طلاق پر واویلا آج نیا نہیں ہے اور نہ ہی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ ہی کوئی نیا ہے۔ یہ معاملہ تو ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ عدالت نے مفاد عامہ کی تین عذر داریوں کی یکجا سماعت کے بعد جو فیصلہ یکم مارچ 1997 کو سنایا تھا اسے ہم ہفت روزہ ’’بادبان‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ یکساں سول کوڈ کے نام پر آئے دن شور و ہنگامہ کرنے والوں کے لیے درس عبرت بھی ہے اور درس عمل بھی۔ 
مسلم پرسنل لا کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے جو حقیقت پسندی کی میزان پر بھی پورا اترتا ہے اور آئین کی روح سے پوری طرح ہم آہنگ بھی ہے۔ چیف جسٹس مسٹر اے ایم احمدی، محترمہ جسٹس سجاتادی منوہر اور مسٹر جسٹس کے وینکٹ سوامی پر مشتمل ایک تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں بہت ہی دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ پرسنل لا کا تعلق ’’ریاست کی پالیسی سے ہے اور عدالت کو عام طور پر اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘ فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ ’’کئی دیگر مواقع پر بھی جب پرسنل لا سے متعلق مسائل اس عدالت کے سامنے لائے گئے تو کورٹ کا فیصلہ یہی رہا کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے ان کا حل کہیں اور تلاش کیا جانا چاہیے۔ 
فاضل بنچ نے یہ تاریخ ساز فیصلہ مفاد عامہ کی تین عذر داریوں کی یکجائی سماعت کے بعد سنایا ہے جن میں مسلم ہندو اور کرسچین خواتین کے ساتھ مختلف قوانین کے ذریعہ برتے جانے والے امتیاز کو ختم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ 
مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمہ سے متعلق عذرداری احمد آباد ویمن ایکشن گروپ (AWAG) کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ اس میں عدالت سے درج ذیل ریلیف چاہی گئی تھی: 
* مسلم پرسنل لا کو جو کہ ایک سے زائد شادی کی اجازت دیتا ہے، غیر قانونی قرار دے دیا جائے کیونکہ یہ آئین کی دفعہ 14 اور 15 سے متصادم ہے۔ 
* مسلم پرسنل لا کو جو کہ مسلم شوہر کو اپنی بیوی کی اجازت اور عدالتی کارروائی کے بغیر یکطرفہ طور پر طلاق کی اجازت دیتا ہے، غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس سے آئین کی دفعہ 13، 14 اور 15 پر ضرب پڑتی ہے۔ 
* اعلان کیا جائے کہ کسی مسلم شوہر کے ذریعہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا عمل اپنے آپ میں انفساخ نکاح قانون 1939 کے کلاز 8 (ایف) یا سیکشن 2 میں بیان کردہ ظالمانہ سلوک کے ذیل میں آتا ہے۔ 
* مسلم خواتین (تحفظ حقوق بعد از طلاق) قانون 1986 کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ یہ آئین کی دفعہ 14 اور 15 کو پامال کرتا ہے۔ علاوہ ازیں شیعہ اور سنی قوانین وراثت کو بھی جو کہ یکساں حیثیت والے مردوں اور عورتوں کے درمیان ترکہ کے معاملے میں امتیاز برتتے ہیں، غیر قانونی آئین دیا جائے کیونکہ ان میں عورتوں کے ساتھ محض جنس کی بنیاد امتیاز برتا گیا ہے۔ 
دوسری عذر داری لوک سیوک سنگھ وغیرہ کی طرف سے دائر کی گئی تھی جس میں ہندو سیکشن ایکٹ 1956 کے سیکشن (II) 5 (2) اور 6 III نیز سیکشن 30 کی وضاحت کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ اس سے آئین کی دفعہ 13، 14 اور 15 پر ضرب پڑتی ہے۔ علاوہ ازیں ہندو میرج ایکٹ 1955 کے سیکشن 2 کو بھی اس بنیاد پر غیر قانونی قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی کہ یہ آئین کی دفعہ 14 اور 15 کو پامال کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عذر داری میں ہندو مائنارٹی اینڈ گارجین شپ ایکٹ کے سیکشن 6 (2) 3 اور 9 کے تعلق سے بھی عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی تھی کہ اسے آئین کے مغائر قرار دیا جائے۔ 
تیسری عذرداری ینگ وومن کرسچین ایسوسی ایشن کی طرف سے داخل کی گئی تھی اس میں انڈین ڈرائیورس ایکٹ (قانون طلاق) کی دفعہ 10 اور 34 اور انڈین سیکشن ایکٹ کی دفعہ 43، 44، 45 اور 46 کو آئین کے مغائر قرار دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ 
عدالت عظمیٰ کی تین رکنی فاضل بنچ نے ان تینوں عذر داریوں کی یکجائی سماعت کے بعد جو فیصلہ سنایا ہے اس کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہی ہے کہ پرسنل لا خواہ اس کا تعلق کسی بھی فرقے سے کیوں نہ ہو، عدالت کے بجائے قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ پرسنل لا سے جڑے بنیادی سوالات سے عدلیہ کو کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ اس بنیادی اصول کو ہی سامنے رکھتے ہوئے فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ان تینوں عذرداریوں کے حوالے سے جو دلائل پیش کیے گئے انہیں سننے کے بعد ہمیں اس بات پر کلی اطمینان ہوگیا کہ متعلقہ ایشوز سے ہماری اپنی رائے میں مقننہ کو ہی نمٹنا چاہیے۔ (باقی آئندہ)

«
»

جھوٹ بولے تو بولتے چلے گئے

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے