جاوید ائکیری ندوی
میری عمر شاید چھ یا سات سال کی ہوگی، کبھی پڑوسی گھر چچا اور کبھی اک اور پڑوسی گھر پھوپھی کے پاس جانا عام سی بات تھی، اگرچہ رشتے میں والد مرحوم کی چچا زاد بہن تھی، اور میرا انکو صابرہ آتا (پھوپی ) کے نام سے پکارنا عادت بن گئی تھی، اگر پرانی یادیں تازہ کروں وقتا فوقتاً انکو یہ کہتے سنا ہوں، مکہ اور مدینہ جاؤں تو واپس نہ آنا ہو، اس وقت میرے ذہن میں یہ بات اس حساب سے پیوست کرائی گئی تھی کہ پرانے زمانے میں سفر لمبا اور کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اسی لئے اکثر واپسی کی امید نہ رہتی تھی اسی وجہ سے اکثر احباب ایسی باتیں عمرہ و حج کے سفر پر کہتے تھے۔
زمانے نے ترقی کرلی، ہزاروں میل کا سفر گھنٹوں میں طئے ہونے لگا، لوگ زمانے کے حساب سے اپنی سوچ اور باتیں بھی بدلنے لگے، اب جانے والے اکثر الوداعی الفاظ کے ساتھ واپسی کی باتیں کرنے لگے.
وقت گزرتے مجھے اپنے بچپن کی یادیں لیے غوثیہ اسٹریٹ سے شہر کے اوپری حصہ میں منتقل ہونا پڑا. پھر جن سے ملنا روزانہ تھا، مہینوں اور سال لگ گئے، زندگی کی ضروریات اور اہمیت کچھ اور بن گئی، میں اپنی پڑھائی کے بعد معاش وغیرہ میں مصروف ہوگیا اور پھوپی اپنی اولادوں کے رشتوں کو لے کر فکرمند ہوگئی، الحمد للہ بیٹیاں اپنے شوہروں کے ساتھ ہنسی خوشی بس گئیں اور انکے بیٹے اپنے بہنوں کے گھر بسانے، گھر کی مرمت میں اتنے منہمک ہوگئے کہ کچھ سال شادی کے لئے انتظار کرنا پڑا، اس وقت پھوپھی کو عمرہ یا حج پر جب بھی کوئی زور دیتا تو انکی زبان پر بیٹوں کی شادی اور عمرہ یا حج کے سفر پر واپس نہ آنے کا تذکرہ رہتا, الحمد للہ دونوں بیٹوں کی اک ساتھ شادی اور اللہ نے جلد اولاد سے بھی نوزا، الحمد للہ بڑا بیٹا مولوی فیصل جو پھوپھی زاد بھائی کم اور کلاس میٹ زیادہ تھا، مقیم جدہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ کے بعد معاشی طور پر مستحکم ہوگیا، پھوپھی کو عمرہ کے سفر میں اب ظاہری طور پر عمر کے تقاضے کے سوا اور کوئی رکاوٹ نہ تھی، سفر کی تیاری شروع ہوگئی. پاسپورٹ، ویزا، ٹکٹ سب اپنی جگہ بر وقت ہوگیا، بھٹکل کی قدیم رواج آج پھوپھی کے گھر سجی تھی، دو دن میں سفر طئے تھا، صابرہ پھوپی کا زندگی بھر کا صبر ختم ہوچکا، اپنے بچوں کو اپنی زندگی میں خوش دیکھ کر اس کے لیے اور کوئی افسردہ رہنے کی وجہ نہ تھی، دو بول میں اکثر سنتا آریا تھا، میری اولاد اپنی ازدواجی زندگیوں میں خوش و خرم رہے اور زندگی میں اگر عمرہ یا حج کا سفر ہو تو واپسی نہ ہو. محفل سج چکی تھی، پھوپی جلوہ ( jilwa) پورے جوش وخروش کے ساتھ نہ صرف اپنے ساتھ جانے والوں کے لیے گا رہی تھی بلکہ خود اپنے لئے بھی. رشتہ دار اور انکی کچھ عمر رسیدہ سہیلیاں جو سفر کی مبارکباد دینے آئی تھی اصل میں اک واپس نہ آنے والے سفر پر وداع کررہے تھے.
زندگی کا پہلا بیرونی سفر، قافلہ سات سے آٹھ افراد پر مشتمل، ماں کی ممتا فرط محبت میں امنڈ رہی تھی، اور کیوں نہ ہو، اسکے بیٹے نے ہر وہ ادھورے خواب پورے کئے جسکی وہ برسوں سے انتظار میں تھی، اپنی زندگی 66 بہاروں میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھے، اللہ نے اسکے نام کی صفت اسمیں کوٹ کوٹ کر رکھی، کبھی بیماری پر صبر، بچوں کے مستقبل اور انکے گھر بسنے کی فکر پر صبر کرتے آج وہ صابرہ اپنے آپکو شاکرہ میں ڈھال چکی تھی، ظاہری طور پر اسکی دنیا میں رہنے کو وجہ پوری ہوچکی تھی، وہ اپنے آپ کو اس سفر پر آمادہ کر چکی تھی جسکی خواہش برسوں سے ظاہر کرتی آئی تھی، سفر کی تھکان جدہ میں مقیم بیٹے کے گھر سے ہوچکی تھی، والدہ کی طبیعت میں معمولی سی گراوٹ پر فرمانبردار بیٹا پریشان ہوگیا، جدہ جماعت سے کی رہنمائی پر ماں کے ساتھ ہسپتال کا رخ کیا، بیٹے کے لئے یہ انتہائی مشکل کام تھا، الحمد للہ جدہ جماعت ہر مرحلے میں اسکے ساتھ کھڑی تھی، پھوپی کے ہمسفر بیٹی، بہو اور بچوں کو جدہ میں مقیم خواتین کا بھی بھر پور ساتھ رہا، لیکن اسکے بچے اپنی ماں کو، شوہر اپنی بیوی کو، بہو اپنی ساس کو اور پوتے اپنی دادی کو غیر شعوری طور پر الوداع کہہ چکےتھے، سانس میں دشواری اک بہانہ تھا، کچھ افاقہ ہوا، امید کی کرن روشن ہوئی، ملک الموت کو روح قبض کے وقت اور جگہ میں کچھ گھنٹوں کا فاصلہ تھا، اچانک جدہ ہسپتال میں اک تجربہ کار ڈاکٹر انکو مکہ مکرمہ کے ہسپتال میں منتقلی کی ہدایت دیتا ہے، اور اپنی مصروفیت کے باوجود انکو ایمبولینس سے منتقلی تک کھڑا رہتا ہے، گویا وہ اس پر مأمور کیا گیا ہو، سفر مکہ کا شروع ہوگیا، آخری لمحات تھے، مولوی فیصل کے ہم جماعت گروپ میں امی کی صحت کو لے کر بھرائی آواز جواب دے چکی تھی، مکہ منتقلی اور روح قبض میں منٹوں یا آدھ گھنٹے کا فاصلہ تھا، "وما تدري نفس بأئ أرض تموت” اور وہ اپنی خواہش کی جگہ پہنچ چکی تھی. ‘رب أشعث أغبر لو أقسم على الله لأبرهم ” انہی جیسی لوگوں کے لیے ہے کہ اگر وہ کچھ کہتے ہیں تو اللہ انکے زبان کی لاج رکھتے..
إنا للہ وانا الیہ راجعون..