یہ بیماری کرونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ یہ بیماری ڈائیریا یعنی پیچِش ہی کی طرح ہوتی ہے جو بھی پوسٹ آئے اگر فوری پاس آوٹ یعنی فاورڈ کرکے فارغ نہ ہوجائیں مریض کو سکون نہیں ملتا۔ جوں ہی کوئی فساد کی، ہیٹ اسپیچ کی یا اشتعال انگیز پوسٹ آئے گی یہ فرض کرلیتے ہیں کہ پوری قوم غفلت کی نیند سو رہی ہے، اِس پوسٹ کے فاورڈ کرتے ہی جاگ جائیگی، فاورڈ کرکے پھر یہ خود سوجاتے ہیں۔ ہم ایسے فاورڈ کرنے والوں کی اکثریت سے واقف ہیں، اس لئے ایسے پوسٹ ڈیلیٹ کردیتے ہیں، لیکن بعض اوقات اِن کی جال میں پھنس ہی جاتے ہیں۔ ڈی پی پر سوٹ یا شیروانی میں تعلیم یافتہ چہرہ دیکھ کر مروّت میں میسیج کھولتے ہیں کہ شائد کوئی کام کا میسیج ہو، ابھی آدھا منٹ بھی دیکھ نہیں پاتے کہ ایسے ہی دو تین اور سمجھدار حضرات کے ویڈیوز پہنچ جاتے ہیں۔اب اگر مروّت میں سارے پوسٹ دیکھنے لگیں تو ہمارا حشر بھی نواب میر عثمان علی خان جیسا ہوسکتا ہے جنہوں نے مروّت میں بے شمارچھوٹے چھوٹے خطابی نوابوں، رئیسوں، جنگوں اور بہادروں کی بھیڑ کو دربار میں جمع کرلیا، جن کا کام سوائے گپ شپ کے کچھ نہیں تھا۔ بے چارے عثمان علی خان ایسی ہی وقت بربادی میں حکومت گنوا بیٹھے۔ فارورڈ کرنے کی اس بیماری میں اب تو ہر بوڑھا اور جوان مبتلا ہوچکا ہے۔خود ہی ثواب سمجھ کر ہر ہر پوسٹ چیک کرتے ہیں، اپنے آپ کو تھکاکر خود ہی کہتے ہیں ”لوگ ایسے فالتو میسیجس کیوں بھیجتے ہیں؟“۔ واٹس اپ فارورڈ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بکری، بیل، ہاتھی اور شیر سب کو ایک ہی چارہ ڈالنے کے عادی ہوتے ہیں۔ یعنی ایک گروپ بنا کر سب کو فاورڈ کرتے رہتے ہیں چاہے وہ کسی سے متعلق ہو یا نہ ہو۔ اسی کے نتیجے میں کبھی بوڑھوں کے پاس دوسری شادی کے فضائل فاورڈ ہوجاتے ہیں تو کبھی خواتین کے پاس مردانہ طاقت بڑھانے کے میسیج فاورڈ ہوجاتے ہیں۔ واٹس اپ فاورڈ کرنے والوں کے مختلف اقسام ہوتی ہیں جیسے: انٹلکچول گروپ: یہ لوگ صرف اپنی ذاتی تخلیق پیش کرتے ہیں جو واقعی تعمیری، فکری اور ہوتی ہیں۔ فی زمانہ یہ ناپید ہیں۔ البتہ کچھ شاعر، ادیب، صحافی اور لیڈر جن کی کہیں بھی دال نہیں گلتی، وہ واٹس یا فیس بک پر اپنی تخلیقات ڈال کر اپنی حسرت پوری کرلیتے ہیں۔ ان کا دل رکھنے کے لئے دوسرے مروّتاً ایک عدد لائک یا تھمس اپ سے انہیں نواز دیتے ہیں۔ یہ خودساختہ صحافی سنجیدہ لکھتے ہیں یا مزاحیہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ جس طرح یہ انڈیا، امریکہ اور عرب سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں، اس طرح کرتے ہیں گویا مودی، جوبائیڈن،کنگ سلمان سارے انتہائی شرمندہ و پشیمان کان پکڑ کر سامنے کھڑے ہیں، اور خوفزدہ ہیں کہ یہ حضرت اُن کی غلطیوں کا راز فاش نہ کردیں۔ مولوی گروپ: صبح اٹھتے ہی یہ پہلے فجر کی قضا ادا نہیں کرتے لیکن ”السلام علیکم“، صباح الخیر، جمعہ مبارک، شب برات شب قدر مبارک وغیرہ فارورڈ کرتے ہیں۔ ایک عدد حمد، نعت یا دعا بھی فارورڈ کردیتے ہیں۔ پھر ان کو اتحادِ امت کی بہت فکر ہوتی ہے، اس لئے کِس کس مسلمان سے امت کے اتحاد کو خطرہ ہے، کون کون کافر، مشرک اور خارج از اسلام ہے، ان کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔ جاگ مسلمان جاگ گروپ: اِن مریضوں کو ہر وقت اسلام اور مسلمان خطرے میں نظرآتے ہیں۔ بھگوا، اسرائیل، اور امریکہ کہاں کہاں کیا کیا کررہے ہیں، اس کی ایک ایک پل کی خبرفاورڈ کرتے رہتے ہیں۔ نعرہ ایک ہی ہوتا ہے کہ مسلمانو جاگو۔ یعنی یہ واٹس اپ تم بھی پچاس کو فاورڈ کرو تین جہاد اور پانچ حج کا ثواب ملے گا۔ یہ لوگ آپ کو جہاد کے لئے گھر سے نکال کر، خود اپنے دیوان خانے میں نہیں بلکہ بیڈ روم میں چھپ جانے والے لوگ ہوتے ہیں۔ دیڑھ شانہ گروپ: یہ لو گ واٹس اپ یا فیس بیک پر اپنی تصویر نہیں لگاتے۔ پوچھنے پر یہ کہہ کہہ کر ہماری جان جلاتے ہیں کہ تصویر خودنمائی ہے، وہ اسے پسند نہیں کرتے۔چونکہ ہماری ڈی پی پر ہماری فوٹو ہے، جس سے یقیناً اِن کے پردے یا حجاب کی بے حرمتی ہوتی ہے، اس لئے ہم ان کی پوسٹس کو Archive کے حوالے کردیتے ہیں۔ تاکہ دوبارہ نہ ان کی پوسٹ آئے نہ ہمارا خون جلائے۔ واٹس اپ پر تصویر یعنی DP آدمی کی شناخت کے لئے ہوتی ہے۔ جسے دیکھ کر آپ کو یاد آجائے کہ کہاں ملے تھے، کون صاحب ہیں، بوڑھے ہیں جوان ہیں، عورت ہیں، مرد ہیں، تعلیم یافتہ ہیں، مولانا ہیں یا کیا ہیں۔ لیکن یہ ایک بے نیاز، قلندر اور درویش بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو اور بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں، تصویر کی جگہ مکہ، مدینہ، درگاہ، یا آیت یا کوئی اقوالِ زرین چسپاں کردیتے ہیں، اور بعض لوگ جہیز میں ملی ہوئی کار یا بائیک کی تصویر لگادیتے ہیں یا پھر اپنے ہمزادوں کی تصویریں جیسے شیر، گھوڑے، چڑیا یا پھولوں کی تصویریں ڈالتے ہیں۔ یہ سب تو پھر بھی ٹھیک ہے لیکن جو لوگ اپنے پوتوں یا نواسوں یا نواسیوں کی تصویریں ڈالتے ہیں، ان کی عقل پر رونا آتا ہے۔ اب آپ ان معصوم بچوں کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگاتے بیٹھئے کہ کس پھل کا یہ تخم ہے۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر گروپ بھی بناتے ہیں اور آپ کی اجازت کے بغیرآپ کو شامل بھی کرلیتے ہیں۔ گروپ کا نام بھی اتنا با رعب ہوتا ہے کہ آپ ڈیلیٹ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، جیسے ”دفاعِ اسلام گروپ“، ”صدائے حق گروپ“ وغیرہ۔ لیکن اندر وہی بھرا ہوتا ہے جو گروپ کے مقصد سے ایک سو کلو میٹر دور ہوتا ہے۔ زوالوجیکل پارک گروپ: جس طرح باغِ عامہ میں ہمہ اقسام کی مخلوقات ہوتی ہیں، اسی طرح ہمہ اقسام کی پوسٹس آپ کے واٹس اپ میں ہر صبح فاورڈ ہوجاتی ہیں، چاہے ان کا تعلق آپ سے ہو یا نہ ہو، کوئی صاحب صحت پرتو کوئی صاحب سیاست پر، کوئی صاحب جنرل نالج پر تو کوئی صاحب مذہبی معلومات پر مسلسل فارورڈ کی بمباری کرتے ہیں۔کچھ لوگ ”جاگتے رہو“ پکارنے والے چوکیداروں کا رول نبھاتے ہیں۔ ایمپلائیمنٹ، اسکالرشپس، کالجس میں فری داخلے، ووٹرکارڈ، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ JIO والے کی شادی پر فری ریچارج، کانگریس کی طرف سے فری ریچارج، وغیرہ کی بھی اطلاعیں دیتے ہیں۔ کوئی صاحب جو خود اپنے خاندان کے مسائل سے بے خبر ہیں دوسروں کے خاندانوں کے اندر گھس کر اطلاعیں لاکر فاورڈ کرتے ہیں، جیسے چھوٹے امبانی کی شادی، عامرخان کی طلاق وغیرہ۔ پھٹکاری گروپ: اِن لوگوں کو قوم کی غلطیاں پکڑکر قوم پر لعنت، ملامت اور پھٹکار کرنے میں مزہ آتا ہے۔ یہ لوگ ہر واقعہ کا فوری لیباریٹری ٹیسٹ کرکے فوری رپورٹ بھی دے دیتے ہیں اور علاج بھی بتادیتے ہیں، جیسے؟ مساجد پر بلڈوزر۔۔۔۔۔ لوگ نمازوں کے لئے نہیں نکلیں گے تو یہی ہوگا لڑکی نے غیرمسلم سے شادی کرلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماں باپ کا قصور ہے۔ وہ تربیت نہیں کرتے۔ فسادات۔۔۔۔۔۔۔ لیڈر، مولوی، عوام سب بزدل ہوگئے ہیں۔ ان کی ہر پوسٹ میں تبصرے اور مشورے ہول سیل میں ہوتے ہیں۔ ان کو ”چاہئے گروپ“ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی اِن کی پوری بکواس ایک عدد ”چاہئے“ پر ختم ہوتی ہے۔ جیسے: اتحاد ہونا چاہئے۔ ایجوکیشن ہونی چاہئے، مودی کو یہ اور اویسی کو وہ کرنا چاہئے،وغیرہ۔ یہ مشورے تو کروڑوں خرچ والے دیں گے لیکن اپنی جیب سے ایک ہزار روپئے نکالنے کے بھی روادار رنہیں ہوں گے۔ اس پورے دردِ سر کا علاج یہ ہے کہ آپ واٹس اپ، فیس بک اور یوٹیوب اکاؤنٹ ہی ختم کردیں، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،آپ اس کے بغیر جس طرح پہلے زندہ تھے،بعد بھی زندہ رہیں گے۔ اپنوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی میلے میں بے مقصد گھومتے ہوئے کھوئے ہوئے بچے کی طرح نہیں رہیں گے۔ذہن ہر وقت عدالت کا ایک کٹہرا نہیں ہوگا جس میں کبھی زعفرانیوں کو لا کر کھڑا کررہے ہیں تو کبھی یہودیوں کو، اور ان سب پر خود مقدمہ چلارہے ہیں، خود ہی فیصلے سنا رہے ہیں۔ ابھی ایک مقدمہ ختم بھی نہیں ہوتا کہ ذہن میں پھر دوسرا مقدمہ دائر ہوجاتا ہے۔ وقت جیسی عظیم نعمت جس کے بارے میں قیامت میں سب سے پہلے سوال ہونے والا ہے، وہ کسی تعمیری کام میں صرف ہوگا۔اگر سوشیل میڈیا نہیں ہوگا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ آپ اگر واقعی قوم کے کسی کام کے آدمی ہیں تو لوگ خود چل کر آپ کے پاس آئیں گے یا فون کرلیں گے۔لوگوں کو معلوم ہے کہ آپ خود بھی ایک بے مقصد انسان ہیں جس کا پورا وقت صرف تبصرے اور مشورے دینے میں گزرتا ہے۔ آپ خود جب ایک کچہرے کا کنٹینر بن چکے ہیں تو لوگ اگر اِس میں فالتو میسیجس فارورڈ نہیں کریں گے تو کیا تازہ پھولوں کا گلدستہ لاکر ڈالیں گے؟ اِس سوشیل میڈیا پر وقت برباد کرنے والوں کی 99% اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ اگر واٹس اپ یا فیس بک پر داخلے کی پانچ یا دس ڈالر فیس عائد کردی جائے تو پھر نہ کوئی واٹس اپ پر نظر آئے گا نہ فیس بک پر۔یہ مفت کے چبوتروں پر بیٹھنے والے گنجیٹی اور چرسی کی طرح ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف وقت کو برباد کرنا ہے۔ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ہتھیار ڈالنے کو ہتھیار بھی نہیں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں