ووٹروں کی فہرست میں نام درج کرانے کی اہمیت کیوں ہے؟

عارف عزیز(بھوپال)

* ہندوستان کے الیکشن میں ووٹروں کی تعداد دنیا کے ہر جمہوری ملک سے زیادہ ہے اور ہر بالغ شخص کو اپنا ووٹ استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے قانونی طور پر حکومت نہ صرف پابند ہے بلکہ بہت بڑی رقم بھی صرف کرتی ہے، دشوار گزار مقامات پر ووٹروں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشن کا پورا عملہ وہاں پہونچایا جاتا ہے پھر بھی بعض علاقوں اور شہروں کے لوگ ووٹروں کی فہرستوں میں اپنا نام نہ ہونے کے باعث ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جائیں تو یہ انتہائی غلط بات ہوگی جس کے لئے صرف انتظامیہ ہی نہیں رائے دہندگان بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ ہر الیکشن سے پہلے انہیں یہ موقع دیاجاتا ہے کہ وہ ووٹر لسٹوں میں اپنا نام نہ ہو تو درج کرالیں۔
ووٹروں کی فہرستیں تیار کرنے والے عملہ کی کوتاہی یا جانبداری کا انسداد اسی طرح کیا جاسکتا ہے کہ جب الیکشن کمیشن کے حکم پر نئی فہرستیں تیار کرنے کا کام شروع ہوتو ووٹر اپنا اور اپنے اہل خاندان کا نام ان فہرستوں میں تلاش کرلیں اگر نام غلط ہوں تو انہیں وقت مقررہ کے اندر درست کرالیں اگر ناموں کا سرے سے اندراج نہ ہوتو ان کا بروقت اندراج کرالیں، یا نام کاٹ دیئے گئے ہوں تو اس کی شکایت کی جائے۔
یہ کام نہ کرکے ووٹ ڈالتے وقت شکوہ وشکایت سے کام لینا یااہل کاروں کی لاپرواہی اور جانبداری پر چیخ وپکار کرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا، اگر عام شہریوں کی نظر میں ووٹ ڈالنے کے حق کی اہمیت ہے یا سیاسی وسماجی کارکنان اس حق کی ادائیگی کو جمہوریت کے لئے ضروری سمجھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ جیسے ہی نئی فہرستوں کے مرتب ہونے کا کام شروع ہو محلہ کے دو چار ذمہ دار عملہ کے ساتھ گھوم پھر کرناموں کا صحیح اندراج کرائیں۔ پھر جب فہرستوں کے معائنہ کی دعوت دی جائے تو متعلقہ مقامات پر جا کر دیکھ لیں جو نام اور دیگر تفصیلات لکھائی گئیں ہیں ان کا اندراج صحیح صحیح ہوگیا ہے یا نہیں، اگر غلطی ہوئی ہے یا کسی طرح کی جانبداری برتی گئی ہے تو افسران بالا سے رجوع کرکے اس کو فوراً درست کرالیں ، شہروں کی بہ نسبت قصبوں میں اور قصبوں کی بہ نسبت مواضعات میں لاپرواہی یا جانبداری کا امکان زیادہ رہتا ہے اور وہاں اس پر گرفت نسبتاً دشوار ہوتی ہے، لہذا گاؤں کی پنچایتیں اگر اپنی ذمہ داری کا احساس کریں تو ہر طرح کی دھاندلی پر روک لگائی جاسکتی ہے۔ 
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کو اپنے طور پرریاستی حکومت کی معرفت خود ایسا انتظام کرنا چاہئے کہ ووٹروں کی فہرستوں کی صحیح تیاری کے بعد ان کی معقول جانچ ہوسکے کیونکہ اگر ایک محلہ یا ایک فرقہ کے ووٹروں کی کوئی تعداد ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم رہے گی تو الیکشن سے متعلق عوام میں طرح طرح کے شکوک وشبہات پیدا ہوجانا فطری ہے۔ اترپردیش سے پچھلے دنوں خبر ملی تھی کہ وہاں ووٹروں کی تعداد پہلے سے کم ہوگئی۔ بعض علاقوں اور حلقوں میں بڑھنے کے بجائے کمی آگئی، ظاہر ہے کہ اس میں مقامی انتظامیہ کی سازش کا ہاتھ ہوسکتا ہے جس نے سیاسی مقاصد سے بعض فرقوں کے ووٹروں کے نام حذف کرادےئے ہوں ، یہی عمل دوسری ریاستوں اور علاقوں میں بھی ہوسکتا ہے۔
پانچ چھ ماہ بعد مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڈھ وغیرہ ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں یہاں کے ووٹروں کو فہرست رائے دہندگان میں اپنا نام دیکھ لینا چاہئے اگر نہ ہوں تو وہ مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابی فہرستوں میں اپنا نام درج کرالیں اگر نام غلط ہیں تو انہیں درست کرالیں۔ گذشتہ انتخابات کے دوران ممبئی، لکھنؤ دہلی اور مدھیہ پردیش کے بعض شہروں کے بارے میں ایسی شکایات ملی تھیں کہ وہاں کے کئی شہریوں بالخصوص اقلیتوں کے نام فہرست رائے دہندگان سے غائب ہیں اور عین وقت پر وہ ووٹ ڈالنے سے محروم رہ گئے ، ایسے لوگوں کو کچھ عرصہ بعد بیرونی درانداز بھی قرار دیاجاسکتا ہے جیسا کہ مغربی بنگال، بہار، آسام وغیرہ سرحدی ریاستوں کے بارے میں شکایات ملتی رہی ہیں کہ وہاں کی اقلیتوں کے نام ووٹروں کی فہرست میں درج نہیں کئے جاتے اور کچھ عرصہ بعد انہیں بنگلہ دیشی یا پاکستانی قرار دیدیا جاتا ہے۔خاص طور پر آسام میں جو کچھ مسلم اقلیت کے ساتھ وہاں کی حکومت کی سرپرستی میں ہوا اس کے بعد تو یہ خطرہ بہت بڑھ گیا ہے کہ مسلمانوں کو مارنے اور اجاڑنے کے ساتھ درانداز قرار دیکر اس ملک سے ہی بے دخل کرنے کی سازش کی جائے۔ اس صورت حال سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ رائے دہندگان کی فہرست میں اپنے نام ضرور درج کرالئے جائیں۔ اور اس کام کی پوری نگرانی ہو۔

 

«
»

ان تہی دستوں کے ہاتھوں میں نہ چادر ہے نہ خاک

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجابِ صنفِ نازک ہے وبال؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے