گجرات میں جب سے ریزرویشن کی تحریک کا ا?غاز ہواہیوزیراعظم نے اپنا رخ بہار اور وارانسی کی جانب کرلیا۔ گجراتی عوام کے دلوں کی بادشاہت کا دعویٰ کرنے والے اس خودساختہ شہنشاہ نے گزشتہ تین ماہ میں ایک بار بھی گجرات کے اندر قدم رکھنے کی جرائت نہیں کی مگر گجرات کی ا?گ ان کے آگے امریکہ پہنچ گئی۔ گجرات اگرمودی جی کا میکہ ہے تو سسرال دہلی ہے۔ فی الحال جہاں ایک طرف گجرات سے لے کر امریکہ تک پٹیل سماج آگ بگولا ہے وہیں خود مودی جی نے ملک کو فسطائیت کی ا?گ میں جھونک رکھا ہے۔امریکہ میں مودی کا انتظار کرنے والی پٹیل برادری کے دل میں پھپھولے پھوٹ رہے ہیں۔ بقول شاعر
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
امریکہ کے اندر پٹیل سماج نے بیرونِ ملک پٹیل امانت سوسائٹی (اوپاس) قائم کرکیوزیراعظم نریندر مودی کی ا?مد کے موقع پر امریکی انتظامیہ سے احتجاجی جلوس نکالنے کی اجازت بھی حاصل کرلی ہے۔ ۔ اوپاس کے کنونیر تیجس پٹیل کے مطابق وہ لوگ کالے کپڑے پہن کر سیاہ جھنڈوں کے ساتھ مظاہرہ کریں گے۔ اوپاس کے رہنما بلدیو پٹیل کاکہنا ہے کہ پچھلی مرتبہ ہم نے وزیراعظم کیلئے سرخ قالین بچھایا تھا اس مرتبہ ہم سیاہ پرچم لہرائیں گے۔ ایک اور رہنما ستیش پٹیل نے کہا کہ ہم نے بھارت وکاس ایسو سی ایشن کے ناظم بھارت برائی سے اپنا چندہ لوٹانے کا مطالبہ کیا ہے گزشتہ سال دیا تھا۔ اس مطالبے کے جواب میں بھارت برائی نے میڈیسن اسکوائرمیں کئے گئے تماشے کی قلعی بھری بزم میں کھول دی۔ انہوں نے اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کیلئے جملہ ایک ہزار بیس کروڈ روپئے جمع کئے گئے تھے جس میں سے ایک ہزار کروڈ تو پروگرام کے انتظام وانصرام پر صرف ہوگئے اور باقی رقم سوچھّ بھارت مشن کو سونپ دی گئی گویا اس پر بی جے پی نے ہاتھ صاف کرلیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ دیش بھکتی کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک ہزار کروڈ کے اصراف سے منعقد کردہ ایک تفریحی کھیل تھا۔
پٹیل سماج اقوام متحدہ کے دفتر سے لے کر ہندوستانی سفارتخانیتک کے علاوہ سان جوس میں بھی احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکہ کے مختلف شہروں میں بھی مظاہرے ہوں گے۔ اس کے سبب سرکاری ایجنسیاں پٹیلوں کو مودی جی کے پروگراموں میں لانے کے بجائے دور رکھنے میں جٹی ہوئی ہیں۔ امریکہ میں موجود مودی بھکتوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے داخلی مسائل کو ہندوستان کیحدود سے باہر نہیں لانا چاہئے مگر خود وزیراعظم جب سابقہ حکومت پر فرانس، کینیڈا، چین اور دبئی میں کھلے عام تنقید فرماتے ہیں تو یہ مودی بھکت انہیں حق بجانب ٹھہراتے ہوئے بغلیں بجاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی بیرونِ ہندان پر تنقید کرے تو دیش بھکتی جاگ اٹھتی ہے اور وہ اس پر لعنت ملامت کرنے لگتے ہیں۔
مودی جی ا?ج کل سبھاش چندر بوس پر دل و جان سے فدا ہیں۔ پچھلے ایک ہفتہ میں ان کے دفتر سے بوس کے اہل خانہ کو ۸ مرتبہ فون کیا گیا گجرات کے مرد ا?ہن اور سنگھ پریوار کے منظور نظر ولبھ بھائی پٹیل کے احتجاج کرنے والیخاندان کو کوئی نہیں پوچھتا۔سردار پٹیل کا پڑپوتا (بھتیجا) کیول پٹیل فی الحال امریکہ میں مقیم ہیاس کا کہنا یہ ہے کہ ریزرویشن کے سبب وہ انجینیرنگ کالج میں داخلہ سے محروم رہا اور ترکِ وطن پر مجبور ہوا۔ ایک اور رہنما دکشیش پٹیل بی جے پی حکومت کے ذریعہ گجرات کے اندرپٹیل مظاہرین پر مظالم سے ناراض ہیں۔ ان کا شکایت ہے کہ ہم اپنے حقوق انسانی کی پامالی سے مودی جی کو ا?گاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس احتجاج میں پٹیل برادری کے ساتھ گجرات کے براہمن بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گوں ناگوں وجوہات کی بناء4 پر مودی جی نیگجرات براہمنوں کا سیاسی اثرو ورسوخ ختم کردیا یہی وجہ ہے امریکی خلاء4 باز سنیتا ولیم کے والد دیپک پنڈیا نے کہاکہ وہ اپنے گاوں کی پٹیل برادری کی حمایت کررہے ہیں۔ سارے سیاسی دانشور حیرت و استعجاب کے عالم میں گجراتیوں کے ذریعہ مودی جی کی مخالفت اور براہمنوں کے اندر بی جے پی حکومت سے ناراضگی کا چمتکار دیکھ رہے ہیں۔
ملک کے اندر فی الحال بے شمار مسائل ہیں۔ ان کو نظر انداز کرکیوزیر اعظم نریندر مودی اس قدر غیر ملکی دورے کیوں کرتے ہیں ؟ اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہے کہ ایوان پارلیمان میں جا کر مباحث میں حصہ لینے کی نہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ جرا?ت ۔ اندرون ملک ان کی باتوں پر نہ کوئی توجہ دیتا ہے نہ اعتماد کرتا ہے اس لئے خبر نہیں بنتی۔ اس لئیخبروں میں رہنے کا سب سے آسان طریقہ بیرونِ ملک دورہ ہے لیکن پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خبروں میں رہنا کیوں ضروری ہے؟ جمہوریت کی مجبوری یہ ہے کہ یا تو عوام کے کام کرو یا کم ازکم شور کرو؟مودی جی نے دوسرا متبادل پسند فرمایا ہے۔ مودی جی نہایت ذہین ا?دمی ہیں وہ اپنی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون سا کام وہ بحسن و خوبی کرسکتے ہیں اور کیاان کے بس کا روگ نہیں ہے اس لئے حسبِ استطاعت وہ قوم کی خدمت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اب یہ خدمت عوام کیلئے رحمت ہے زحمت اس سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ وہ تو اسے اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں نیز نارسیسس کی مانند خود ہی اپنے سیلفی کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ میں ا?ج کل منموہن سنگھ اور نریندر مودی کے غیر ملکی دوروں کا موازنہ کیا جارہا ہے۔منموہن نے۰ ۱ سالوں میں۰ ۴ ممالک کا دورہ کیا مودی جی ایک سال میں ۲۰ممالک گھوم آئے۔ اس طرح اگر پانچ سال کا موقع انہیں مل جائے تو سیکڑہ پورا ہوجائیگا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے مودی جی پر گزشتہ امریکی دورے کے دوران ۱۳ مضامین لکھے گئے جبکہ منموہن جی کے دورے پر صرف ۸ مضامین لکھے گئے تھے۔ ان مضامین میں لکھا کیا گیا تھاَ؟ مودی جی کی مخالفت اور منموہن کی کس قدر تعریف کی گئی تھی وہ ایک تحقیق کا موضوع ہے۔ ان مضامین میں کتنے اپنے طور پر لکھے گئے تھے اور کتنے لکھوائے گئے تھے اس کی تفصیل بھی دلچسپ ہوسکتی ہے۔مودی جی کے ٹی وی پر نظر ا?نے کا شوق صدراوبامہ کے دورے پر نظر ا?یا۔ مودی جی کے ساتھ وہ ۲۵۵ گھنٹوں تک ٹی وی کے پردے دکھائی دئیے جبکہ منموہن کے زمانے میں صرف۸۲ گھنٹوں تک عوام کو اوبامہ کا دیدار نصیب ہوا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سرکاری اشتہاربازی سے مودی جی اور اوبامہ کو تو خوب بھلا ہوا لیکن عوام کو تفریح کے علاوہ کیا ملا؟
یہ عوامی تفریح مفت نہیں تھی بلکہ ان کی فلاح وبہبود پرخرچ ہونے والے ٹیکس میں سے ایک خطیر رقم وزیراعظم کیدوروں کی نذر ہوگئی۔ ا?سٹریلیا میں مودی جی کے وفد کو ٹھہرانے پر ۶ء4 ۵ کروڈ روپئے خرچ ہوئے تھے اور ٹیکسی کا بل ۴ء4 ۲ کروڈ روپئے تھا۔ مودی جی بھوٹان کیدورے پر بھی۱۴ لاکھ سے زیادہ پھونک آئے۔ امریکہ میں انہوں نیرہنے سہنے پر ۶ کروڈ سے زیادہ خرچ کئے۔ پچھلی مرتبہ مودی جی نیویارک پیلس میں رکے تھے اور قصر
ابیض بھی تشریف لے گئے تھے۔ اس بار اوبامہ نے مودی جی کے بجائے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو قصر ابیض کا مہمان بنا لیا تو ممکن نے مودی جی کے حواریوں نے سوچا ہو کہ کیوں نہ مودی جی کو اوبامہ کے ساتھ والڈروف اسٹوریہ نامی ہوٹل میں ٹھہرا دیا جائے جہاں پچھلی مرتبہ اوبامہ کا قیام تھا ممکن ہے ایک ا?دھ سیلفی کا موقع ہاتھ آجائے لیکن بدقسمتی سے اوبامہ نے اپنا اراددہ بدل دیا اور وہ خود نیویارک پیلس میں منتقل ہو گئے جہاں مودی ٹھہرے تھے۔ اس بات کاقوی امکان ہے کہ سان جوس سے واپسی کے بعد مودی اور اوبامہ کی باہمی گفتگو والڈروف اسٹوریہ میں منعقد ہو۔
ڈرامہ بازی سے لوگ بہت جلداوب جاتے ہیں اس لئے اسے ایک ہی انداز میں بار بار دوہرایا نہیں جاسکتا ہے۔ فلمی دنیا کے لوگ اسی لئیاپنے فارمولوں کو باری باری سے ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ مودی بھکتوں نے بھی سوچا بار بار ناچ رنگ کا کھیل نہیں چلے گا اس لئے اب کی بار صنعتکاروں کی ملاقات کے علاوہ اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں خطاب رکھوادیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ یونیورسٹی کے اندر مودی جی زبردست تقریر پڑھ کر سنائیں گے اس لئے کہ ایم جے اکبر جیسے لکھنے والوں کی خدمات انہوں نے حاصل کررکھی ہیں لیکن اگر وہاں کسی طالبعلم نے مودی جی سے ان کی تعلیمی لیاقت دریافت کر لی تو مسئلہ ہو جائیگا۔ گجرات کے ایک آر ٹی آئی رضا کار نے حقِ معلومات کے تحت مودی جی کی ۱۰ ویں ،۱۲ ویں اور ایم اے کی مارک شیٹ طلب کرلی تو اس کو وزیراعظم کے دفتر اور الیکشن کمیشن سے دلچسپ جوابات موصول ہوئے۔
وزیراعظم کے دفتر نے اسے وزیراعظم کی ویب سائٹ سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا لیکن اس سیقبل وہاں سے ایم اے (پولیٹیکل سائنس) والا جملہ ہذف کردیا گیا تھاجس سے پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ وزیراعظم کے حلف نامہ کو دیکھے۔وہ رضا کار عدالت میں پہنچ گیا تو وہاں پر موجود جج ایس ای رضوی صاحب نے فیصلہ سنایا’’ عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریکارڈ میں موجود معلومات فراہم کریں لیکن اس بابت چونکہ دفتری ریکارڈ میں معلومات موجود نہیں ہے اس لئے وزیراعظم کے دفتر وہ فراہم نہیں کرسکتا‘‘۔ عدالت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اجازت دی تھی اس لئے وہ بھی کردی گئی تو جواب ملا وہ پھر سے آرٹی آئی کے تحت درخواست دے گویا یہ ثابت کردیا گیا کہ دنیا گول ہے اور مودی جی تعلیمی لیاقت میں کہیں نہ کہیں جھول ہے۔ ان کے بھکت ا?ج کل کالی داس ، سور داس اور کبیرداس کی مثالیں دے رہے ہیں کہ ان کے پاس کون سی ڈگری تھی لیکن وہ بھول جاتے ہیں ڈگری کا نہ ہونا مسئلہ نہیں ہے مگر اس کا جھوٹا دعویٰ کردینا ایک سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب کرنے والے سنگھ داس (سمرتی ایرانی
جواب دیں