از۔محمدقمرانجم فیضی حکومت میں بیٹھے لوگ اردو کی شیرینی اور لطافت کی باتیں تو بہت زور وشور سے کرتے ہیں، لیکن جب بات عملی اقدام کی ہوتی ہے تو حکومت میں بیٹھے لوگ ایسے رویہ پیش کرتے ہیں کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں حکومتیں بدلتیں رہیں، لیکن اردو […]
حکومت میں بیٹھے لوگ اردو کی شیرینی اور لطافت کی باتیں تو بہت زور وشور سے کرتے ہیں، لیکن جب بات عملی اقدام کی ہوتی ہے تو حکومت میں بیٹھے لوگ ایسے رویہ پیش کرتے ہیں کہ اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں حکومتیں بدلتیں رہیں، لیکن اردو اساتذۃ کی تقرری کا معاملہ 2003ء سے حل نہیں ہو سکا۔ حالانکہ 2003ءسے 2020ء کے بیچ صوبہ کے اقتدار پر کبھی بی جے پی تو کبھی کانگریس کا قبضہ رہا ہے۔ 2018ءاسمبلی انتخابات میں اردو اساتذہ کی تقرری کے معاملے میں بی جے پی نے تو خاموشی اختیار کی تھی، لیکن کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں اردو اساتذۃ کی تقرری کا ذکربھی کیا تھا۔ اس کے باوجود صوبہ میں اردو اساتذہ کی تقرری کا معاملہ حل نہیں کیا جاسکا۔
واضح رہے کہ صوبہ مدھیہ پردیش کی تشکیل یکم نومبر 1956ء کو ہوئی تھی۔ اس وقت مدھیہ پردیش میں اردو اسکولوں کی تعداد 578 تھی۔ اردو اسکولوں میں اردو کی کتابوں کی فراہمی کے ساتھ اردو اساتذہ کی تقرری کا عمل کسی نہ کسی صورت میں 2003ء تک جاری رہا۔ 2003ء میں صوبہ کے وزیر اعلی دگ وجئے سنگھ نے صوبہ میں 2200 اردو اساتذہ کی تقرری کا اعلان تو ہوا۔مگر صوبہ میں اعلان کے مطابق اردو اساتذہ کی تقرری نہیں کی جا سکی۔ سرکاریں بدلتیں رہیں اور اسکولوں میں اردو اساتذہ ریٹائرہوتے رہے، لیکن ان کی جگہ کسی کی تقرری نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوبہ میں 400 سے زیادہ اردو اسکول ان 17 سالوں میں بند ہوگئے۔
وہیں صحت کا شعبہ کورونا کے وبا میں زمین دوز ہوتا ہوا نظر آیا۔ دوسری جانب مسلمانوں نے سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماوں کی جم کر مخالفت کی، لیکن 30 سالوں میں ان کے حالات نہیں بدلے۔ آج بھی مسلمانوں کی بڑی آبادی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے حاشیہ پر کھڑی ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش ملک کے پسماندہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ایسے میں موجودہ اسمبلی انتخابات میں لوگ سوال کررہے ہیں
کہ اردوکے ساتھ ایسا سوتیلا برتاؤ30 سالوں تک آخر کیوں کیاجاتا رہاہے شیوراج سنگھ چوہان نےرام راجیہ کی حکومت قائم کرنےکا دعویٰ تو کیا۔ انصاف کے ساتھ ترقی کا وعدہ بھی کیا۔ صوبے میں سڑکیں نہیں بنوائیں، اسکولوں کا نظام بھی نہیں بدلا، اسکولوں میں پوشاک اور سائیکل اسکیم شروع تک نہ ہوئی، خواتین کو ریزرویشن مہیا نہیں کرائی، بجلی بھی فراہم نہ کرائی اور لاء اینڈ آرڈر درست کرنے کا دعویٰ تو بہت کیا، لیکن پھر بھی مدھیہ پردیش کے دامن پر لگا بدحالی کا داغ ختم نہیں ہورہاہے مدھیہ پردیش کے مقدر میں ترقی آئی بھی تو اس کی رفتار اتنی سست رہی کی جب ملک میں لاک ڈاؤن لگا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ مدھیہ پردیش کے لوگ کس طرح باہر کے صوبوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ مائیگریٹ نہیں کریں تو ان کے گھر کی دال روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہو جائےگا۔ جب کورونا نے مدھیہ پردیش میں اپنی رفتار پکڑی تو شیوراج سگھ چوہان کے صحت کے شعبہ کی حالت دنیا کے سامنے آئی، جس صحت خدمات کا دعویٰ کرکے شیوراج سنگھ چوہان اپنا پیٹھ تھپتھپاتے رہے۔
قارئین کرام : مہذب حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ اپنے شہریوں کو ضروریات زندگی کے وہ سامان مہیا کرائے جو قابل استعمال ہوں، مگر مدھیہ پردیش میں جو معاملہ سامنے آیا ہے، اس نے سبھی کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت کے محکمہ فوڈ سول سپلائی اینڈ کنزیومر پروٹیکشن کے ذریعہ عوام کو جو چاول تقسیم کیا گیا ہے وہ انسانوں کے استعمال کے قابل ہی نہیں ہے۔ 21 اگست کو کرشی بھون نئی دہلی کے ذریعہ مدھیہ پردیش کے محکمہ فوڈسپلائی اینڈ کنزیومر پروٹیکشن کے پرنسپل سکریٹری لکھے گئے خط کے منظر عام پر آنےکےبعد حساس شہریوں کے پیروں سے زمین نکل گئی ہے۔
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہےکہ ان کے منڈلا اور بالا گھاٹ کے مختلف ویئر ہاؤس میں عوام کو تقسیم کئے جانے والے چاول کے جو 32 نمونے لئے گئے تھے وہ نہ صرف فیل ہوئے بلکہ وہ اتنے ناقص تھے۔ کیونکہ انہیں انسانوں کے ذریعہ استعمال بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد نہ صرف سیاسی سطح پر گھمسان مچا ہوا ہے بلکہ عوام کے ساتھ دانشوروں نے بھی اس کی سخت مذمت کی ہے۔ لوگوں نےکہا کہ اس سے زیادہ شرمناک اورکیا ہوگا کہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے ایسا چاول جو مرغیوں کے کھانے کے لئے بھی لوگ استعمال نہیں کرتے ہیں، انہیں کورونا کے قہر میں انسانوں کے کھانے کے لئےتقسیم کردیا گیا، جن لوگوں کے ذریعہ بھی کیا گیا ہے ان کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہئے اور صوبہ کے جن بھی ویئر ہاؤس میں ناقص چاول موجود ہے، اسے وہاں سے نکال کر زمین دوز کیا جانا چاہئے۔
کتنی بےشرمی کی بات ہے کہ جو چیزیں مرغیوں کو کھانے کے لئے تھیں، انہیں بی جے پی سرکار میں بیٹھے لوگوں نے انسانوں کو بیچ تقسیم کر کے منافع کمایا ہے۔ جن افسران کے ذریعہ یہ گھنونا کام کیاگیا ہے، ان کے خلاف جانچ کرکے سخت کارروائی کرنے کے ساتھ اس بات کی بھی جانچ کی جانا چاہئے کہ اس کے پیچھے کن سیاسی لوگوں کا ہاتھ رہا ہے۔ کیونکہ اتنا بڑا کام افسران بغیر سیاسی لوگوں کی ملی بھگت سے انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ کورونا قہر میں عام انسان ہر طرح سے مجبور ہوگیا ہے اور یہ سرکار میں بیٹھے لوگ افسران کے ساتھ مل کر ایسا گھنونا کام کام رہے ہیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور حکومت کو جلد سے جلد اس پر سیاست کرنے کے بجائے عملی کارروائی کرنا چاہئے۔ کورونا قہر میں عام انسانوں کو محکمہ فوڈ سول سپلائی کے ذریعہ جو چاول تقسیم کیاگیا ہے وہ انسانوں کے لئے استعمال کے قابل نہیں تھا۔کورونا قہر میں مجبور شہریوں کو ناقص چاول تقسیم کرکے شیوراج سرکار واہ واہی لوٹ رہی تھی اور اس جھوٹی واہ واہی میں اس نےشہریوں کو وہ ناقص چاول تقسیم کیا ہے، جو پولٹری فارم کی مرغیوں کے کھانے کےلئے ہوتا ہے۔ حکومت کے ذریعہ ایسا جرم کیا گیا، جس کی مذمت کے لئے لفظ چھوٹے محسوس ہوتے ہیں۔لہذا مدھیہ پردیش میں اردو اسکولوں کو نئی زندگی دینے اور اردو اساتذہ کی تقرری کے معاملے کو لےکر محبان اردو نے ایک بار پھر تحریک شروع کی ہے۔ محبان اردو کمیٹی کے روح رواں جاوید بیگ کہتے ہیں کہ اسے اپنوں کی بے حسی کہیں یا حکومت کی تنگ نظری کہ اب اردو کے معاملے کو لے کرکوئی بھی بولنے کو تیار نہیں ہے۔ ہم نے نئی تعلیمی پالیسی میں اردو کو شامل کرنے کے مطالبہ کو لے کر 21 اگست کو صدر جمہوریہ ہند، وزیر اعظم، مرکزی وزیر تعلیم کو میمورنڈم بھیجا اور ان سے ملاقات کا وقت مانگا، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ یہی نہیں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ کو بھی اردو کے مسائل کو لے کر ٹوئٹ کیا۔ میمورنڈم بھیجا، لیکن یہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ نہ تو وزیر اعلی نے کوئی جواب دیا اور نہ ہی ان کے وزیر تعلیم نے۔ اپنے مطالبات کو لے کر آج ہم نے پھر انہیں میمورنڈم میل کرنے کے ساتھ ٹیوئٹ بھی کیا ہے۔ اگر اب بھی انہوں نے اردو اسکولوں اور اردو اساتذہ کی تقرری کے مطالبے پر غور نہیں کیا تو ہمیں کورونا قہر کے بیچ اسمبلی کا گھیراؤ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ 21 ستمبر سے اسمبلی کا سیشن شروع ہوگا ہم لوگ سبھی ممبران اسمبلی کو میمورنڈم دے کر اردو کے مطالبے کو لے کر متوجہ کرنےکا کام کریں گے۔کانگریس لیڈر اور بھوپال وسط سے کانگریس ایم ایل اے عارف مسعود کہتے ہیں کہ یقیناً ہماری سرکار نے انتخابی منشور میں اردو اساتذہ کی تقرری کا وعدہ کیا تھا اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اساتذہ کی تقرری کو لے کر اس کا ریٹن ٹیسٹ بھی ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے کہ صوبہ میں اردو اساتذۃ کی تقرری ہوتی ہماری حکومت چلی گئی۔ اب بی جے پی کو چاہئےکہ اردو اساتذہ کی تقرری کو لے کر جو پہل کی گئی تھی اس پر عمل کرے اور اردو والوں کو اس کا حق دے۔ اردو اس ملک کی زبان ہے اس کو حق ملنا چاہئے۔ اردو اور اقلیتوں کے مسائل کو لے کر بی جے پی کا نظریہ کیا ہے یہ کسی سے چھپا نہیں ہے۔وہیں ایم پی بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صوبائی صدر ڈاکٹر صنوبر پٹیل کہتے ہیں کہ اردو اور اقلیتوں کے مسائل کو لے کر کانگریس نے دھوکہ دینے کا کام کیا ہے۔ کانگریس نے اپنے منشور میں اردو اساتذہ کی تقرری کے معاملے کو شامل کیا تھا لیکن اس نے 15 مہینے کی سرکار میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ بی جے پی حکومت میں 'سب کا ساتھ، سب کا وکاس' پر کام ہوتا ہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ دگ وجئے سنگھ کے زمانے میں ایم پی اردو اکادمی کا بجٹ کل 52 لاکھ ہوتا تھا، لیکن یہ ہماری شیوراج سنگھ سرکار تھی، جس نے اردو اکادمی کا بجٹ 52 لاکھ سے بڑھا کر دو کروڑ کیا تھا۔ حکومت ابھی بنی ہے۔ کورونا کا قہر جاری ہے ۔حالات بہتر ہوں گے، سب کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔
لیکن اتنا سب ہونے کے باجود آخری سوال یہ ہے کہ کب تک اردو کےساتھ ایسا سوتیلا برتاؤ کیا جائے گا،
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں خود اردوکو بچانے کے لئے کوئی تھوس اور مستحکم لائحہ عمل بناناہوگا اور اس پر عمل درآمد کروا کر اردوکے اس مسئلے کو دور کیاجاسکتاہے، اور اس کام کے لئے محبان اردو کو پیش پیش رہناہوگا
مضمون نگار۔روزنامہ شان سدھارتھ سدھارتھ نگر سے وابستہ ہیں
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں