اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے تجویز کردہ غزہ امن منصوبے کو اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔ اس قرارداد کے ذریعے واشنگٹن کے تیارکردہ بیس نکاتی "غزہ امن فریم ورک” کو باضابطہ طور پر بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔
اس فریم ورک میں نہ صرف جنگ بندی بلکہ تعمیر نو اور گورننس کے لیے بھی عملی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ قرارداد کے مسودے کے مطابق، بین الاقوامی امن فورس کی تعیناتی کی اجازت دی گئی ہے جو غیر عسکری ہوگی اور اس کا مشن ہتھیاروں کو غیر فعال کرنا اور سابقہ فوجی ڈھانچوں کو ختم کرنا ہوگا۔
"بورڈ آف پیس” کی تشکیل اور عبوری اتھارٹی
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو "بورڈ آف پیس” میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے، جو غزہ میں عبوری حکومتی اور تعمیر نو کے کاموں کی نگرانی کرے گا۔ یہ ادارہ اعتماد سازی اور معاشی بحالی کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ہدایت دے گا۔
اس منظوری کے بعد اب غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ کی راہ مزید ہموار ہوگئی ہے، جو عالمی مینڈیٹ کے تحت کام کرے گی۔
حماس کا ردعمل
دوسری جانب، فلسطینی تنظیم حماس نے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق، یہ قرارداد فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق اور مطالبات کو تسلیم کرنے میں ناکام ہے اور عالمی سطح پر "بین الاقوامی نگرانی” کے ذریعے فلسطینی خودمختاری کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
حماس کے ترجمان نے اسے "سیاسی دباؤ کے زریعے قابض قوتوں کے مفاد میں تیار کردہ منصوبہ” قرار دیا ہے۔
عرب ممالک کی اکثریت نے عالمی امن فورس کے قیام کی مخالفت نہیں کی، جبکہ مصر اور اردن نے اسے "امن کی بحالی کی سمت مثبت قدم” قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، طویل المدتی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا فلسطینی فریقین اس عمل میں عملی طور پر شریک ہوتے ہیں یا نہیں۔




