از: ڈاکٹر مفتی عرفان عالم قاسمی
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ٰٓیاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۔ وَاللّٰہُ ےَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْن۔(سورہ مائدہ 67)
ترجمہ: اے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ پہنچا دیجئے جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچایا اور لوگوں سے اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا، بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کو راہ نہیں دکھائے گا۔
اگر ملک کے موجودہ حالات کے مستقبل پر غور کیا جائے تو اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ان کا تحفظ ہے، تحفظ کی ایک مادی تدبیر ہے، جو ہر انسان انفرادی حیثیت سے اور ہر گروہ اجتماعی طریقہ پر روبہ عمل لاتا ہے اور یقیناًہمیں اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے، یہ ہمارا شرعی فریضہ اور قانونی حق ہے، لیکن تحفظ کا ایک غیبی نظام بھی ہے۔ جس کا تذکرہ اللہ رب العزت نے مذکورہ بالا آیت میں فرمایا ہے۔ اس آیت میں ’’عصمت من الناس‘‘ سے مراد دشمنان اسلام سے حفاظت ہے، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا تھا اور حضرت ابوطالب روزانہ بنو ہاشم کے کچھ لوگوں کو اس کام پر مامور فرماتے تھے، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اللہ تعالیٰ نے جنات اور انسان سے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے، اس لئے اب کسی پہرہ دار کی ضرورت نہیں ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی ۱۱؍۲۵۶، حدیث ۱۱۶۶۳) ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ارشاد فرمایا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے آپ کی قیام گاہ پر پہرہ دیا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد قبہ سے سر مبارک نکال کر ارشاد فرمایا: ’’تم لوگ واپس ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ نے خود میری حفاظت فرمائی ہے۔‘‘ (ترمذی، کتاب تفسیر القرآن حدیث: ۳۰۴۶) یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل کئے جانے والے دین کی طرف ہدایت سے محروم لوگوں کو دعوت دینے پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی تحفظ کا وعدہ ہے اور اللہ کی حفاظت سے بڑھ کر کس کی حفاظت ہوسکتی ہے؟ اس آیت میں اللہ رب العزت نے اپنے غیبی نظام کا ایک فارمولہ ظاہر فرمایا ہے کہ جب کوئی میرا نیک بندہ حق کی دعوت لے کر اٹھ کھڑا ہوگا تو میں اس کی خصوصی امداد کروں گا اور اس کے ساتھ رہوں گا۔
اس کائنات ارضی و سماوی اور اس کی لامحدود وسعتوں میں اصل ذات ان سب کو بنانے اور ان میں جاندار و بیجان ہر چیز کو پیدا کرنے والی واحد ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مٹی سے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ دنیا میں اس طرح انسانی زندگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ چنانچہ آپ اپنی اولاد کو راہ راست پر اور خدا کی بندگی پر قائم رکھنے کی فکر و کوشش کے لئے مقرر ہوئے۔ آپ کے بعد آپ کی اولاد آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتی رہی، لیکن جب وقت اور نسلوں کے گزرنے کے ساتھ ان میں بگاڑ آگیا تو اللہ نے حسب ضرورت ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے برگزیدہ نبیوں کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ یہاں تک کہ کوئی ایسی قوم نہیں جن میں ڈرانے والا نہ بھیجا گیا ہو، ہر قوم میں نبی آئے، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت نوح علیہ السلام مبعوث کئے گئے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اپنے نیک اور بڑے لوگوں کی تعظیم میں ان کی یادگار بنا کر تعظیم کرتے کرتے ان کی عبادت کرنے لگی اور اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر ان نامور شخصیتوں کو ہی خدا کا درجہ دینے لگی تو حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک ان کی اصلاح فرماتے رہے۔ لیکن پھر بھی ان کی قوم کے اکثر افراد خدائے واحد کی طاعت و بندگی کو چھوڑ کر طرح طرح کے گناہوں اور ظالمانہ حرکتوں میں ہی ملوث رہے تو اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں کو زبردست طوفانی سیلاب کے ذریعہ سزا دی، لیکن جن لوگوں نے نوح علیہ السلام کی بات مانی اللہ نے انہیں ہلاک ہونے سے بچا لیا۔ بعد میں ان ہی نجات پانے والے انسانوں کی اولاد اس دنیا میں چلی اور جب جب اور جن جن قوموں نے اپنے پروردگار کی نافرمانی، سرکشی و طغیانی اور گناہوں پر اصرار کیا اور اپنے ظالمانہ حرکتوں سے باز نہیں آئی اور اپنے نبی کی بات نہیں مانی تو ان پر عذاب آیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد یمن کے مشرقی خطہ میں قوم عاد آباد ہوئی، اس نے بھی اپنے اصل مالک و خالق کو چھوڑ کر اپنی پسند کے بتوں اور مورتیوں کی پوجا شروع کر دی اور اسی کے ساتھ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم و زیادتی، تکبر و غرور کرنے لگی تو اللہ نے ان کی ہدایت کے لئے حضرت ہود علیہ السلام کو مقرر کیا لیکن وہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کا مذاق اڑاتے رہے۔ ان پر بھی اللہ کا عذاب آیا۔ حضرت ہود علیہ السلام کے بعد قوم ثمود کی ہدایت کے لئے اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا۔ ان کی قوم بھی طرح طرح کے فحش کاموں میں مبتلا تھی۔ چنانچہ یہ لوگ بھی تباہ کر دئے گئے۔ قوم ثمود کے بعد قوم مدین کا تذکرہ قرآن مجید میں اللہ نے کیا ہے کہ ان سب قوموں نے اپنے اپنے نبیوں کو پریشان کیا اور اپنی مکروہ باتوں کا طریقہ نہیں بدلا تو اللہ نے کسی کو آتش فشاں زلزلہ تو کسی کو تیز و تند ہواؤں کے ذریعہ تباہ و برباد کر دیا۔ قوم مدین کے بعد مصری قوم کا تذکرہ قرآن نے کیا ہے کہ وہاں کا بادشاہ فرعون نے بہت ادھم مچایا اور اس نے خدائی کا دعویٰ کرکے خود اپنی پوجا کروائی۔ وہاں بنی اسرائیل اقلیت میں تھے، ان میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو فرعون کے سپاہی اس کو ذبح کر دیتے تھے اور اگر لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ اس کو اپنی خادمہ بنا لیں چنانچہ اس کی گوشمالی کے لئے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسے بہت سمجھایا لیکن فرعون اپنی زیادتی اور ظلم سے باز نہیں آیا تو اللہ کا غضب جوش میں آیا اور فرعون اور اس کے پیروکاروں کو سمندر میں ڈبو دیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوگئی یہاں تک کہ اپنے نبی کے قتل کے درپے ہوئی اور انہوں نے اپنے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کروانے کا پورا انتظام کر لیا جس کو کہ اللہ رب العزت نے ناکام بنا دیا۔ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ناخوش ہوکر تقریباً چھ سو سال تک اپنے نبیوں کے بھیجنے کا سلسلہ بند فرما دیا اور پوری دنیا میں ہر سو تاریکی ہی تاریکی چھا گئی۔ دنیا کا دست ترقی شل ہوگیا، ہر قوم دوسری قوم سے برسرپیکار اور ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کے خون کا پیاسا بن گیا، حرص و طمع اور کشت و خون کی گرم بازاری عام ہوگئی، نفس انسانی کی ملکوتی طاقت جذبات خبیثہ کے دیوتا کے سامنے پامال ہوچکی، عدل و راستی اور پاکبازی و پارسائی کے عطر کی خوشبو انسان کے جامۂ خاکی سے اڑ چکی اور توحید اور خدا پرستی کا نور دیوتاؤں، دیویوں، ستاروں، شہیدوں، ولیوں اور مجسموں کی پرستش کی عالمگیر تاریکی میں چھپ گیا تو رب العالمین کا رحم اس کے غضب پر غالب آیا اور اس نے ان کو سمجھانے کا ایک موقع پھر عطا فرمایا اور اس کے لئے مزید خصوصیات اور اعلیٰ ترین صلاحیتوں کا حامل نبی مبعوث فرمایا۔ یہ ہمارے نبی محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی خصوصیات، صلاحیت اور صفات سے نوازا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا والوں کے لئے رحمت ثابت ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار کے حکم سے غیر معمولی حکمت، فکرمندی اور حسن تدبیر سے کام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدا سے پچھڑے ہوئے بندوں کو ان کے خالق و مالک سے ملایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں کو پاک، روح کو روشن، دماغ کو درست، طبع کو ہموار بنایا، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی مدد فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام میں غیر معمولی تاثیر پیدا فرمائی۔ جس کا غیر معمولی اثر پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم امن عامہ کو مستحکم اور مصلحت عامہ کو استوار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غریبی، امیری، جوانی، پیری، امن و جنگ، امید و ترنگ، گدائی و بادشاہی، رنج و راحت، حزن و مسرت کے ہر درجہ پر کمزور طبقات کو عزت کا مقام عطا کیا، پوری نسل انسانی کو آدم اور حوا کی اولاد بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود عرب تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے سامنے واضح طور پر یہ اعلان کر دیا کہ نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت اور نہ کسی عجمی کو عربی پر کوئی امتیاز حاصل ہے جو تقویٰ اختیار کرنے والا نیکو کار ہے صرف اسی کو فضیلت اللہ کی قربت اور خوشنودی حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ عورت کو عزت کا درجہ دیا اور مرد کے ساتھ وراثت میں حصہ دلایا اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش پر بڑے ثواب اور جنت کا وعدہ کیا۔ انسانیت کی نیّا جو طوفانی موجوں میں ہچکولے کھا رہی تھی اسے یونہی نہ چھوڑ دیا بلکہ اپنی جان بچانے کی فکر کے بجائے بدی کے ہلاکت خیز گردابوں سے لڑ کر ساری اولاد آدم کے لئے نجات کا راستہ کھولا۔ تمدن کی کشتی کی پتوار سنبھالی اور پھر اسے ساحل مراد کی طرف رواں دواں کر دیا۔
اسلام میں خدا نے مقناطیسی صلاحیت رکھی ہے، یہ دین دین فطرت ہے، اس لئے اس میں ایسی کشش ہے کہ وہ سخت سے سخت دشمن کو بھی اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ اگرچہ یورپ کا یہ الزام ہے کہ اسلام صرف تلوار کے زور سے پھیلا لیکن پروفیسر ہٹی نے لکھا ہے کہ
’’مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کر لی جہاں ان کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے۔‘‘ مدینہ، یمن، عمان، یمامہ اور بحرین کو فتح کرنے کے لئے اسلام کا کونسا لشکر جرار پہنچا تھا، انصار مدینہ نے خود مکہ میں آکر اسلام کو لبیک کہا، اطراف مدینہ کے قبائل میں غفار نے خود مکہ آکر قریش کی تلوار کی آگ میں کھڑے ہوکر لاالٰہ الا اللہ پڑھا،یمن سے دوس کے قبیلہ کے آدمیوں نے خود مکہ معظمہ پہنچ کر ایمان کی دولت حاصل کی اور اس کے سردار نے اپنا قلعہ اسلام کی پناہ کے لئے پیش کیا۔ اشعر کا قبیلہ بھی اسی زمانہ میں غائبانہ مشرف بہ اسلام ہوا، ہمدان کا قبیلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ایک دن میں مسلمان ہوگیا، حبشہ کے بادشاہ کو کس نے تلوار دکھا کر مسلمان بنایا تھا، چین میں کیا تلوار کے زور سے اسلام پھیلا؟ اندلس (اسپین) میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی، لیکن وہاں مسلمانوں نے کبھی بھی تلوار کا استعمال مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لئے نہیں کیا۔ اگر مسلمان عرب میں اسلام پھیلانے کے لئے تلوار کو کام میں لاتا تو کیا وہاں ایک بھی عیسائی باقی رہتا لیکن وہاں آج بھی ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب قبطی عیسائی ہیں۔ مسلمانوں نے ہندوستان میں تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی ہے اور ان میں دوران حکومت اتنی طاقت و قوت اور اتنا اثر و رسوخ تھا اگر وہ چاہتے ایک ایک غیر مسلم کو کلمہ پڑھنے پر مجبور کر دیتے اور پھر آج اس ملک کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا لیکن آج بھی ہندوستان میں ۸۰ فیصد حصہ غیر مسلمانوں سے آباد ہے جو اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں تلوار کام میں نہیں لائی گئی، اسلام اپنی تبلیغ و اشاعت کے لئے کسی تیغ و سنان کا محتاج نہ کبھی ماضی میں رہا ہے اور نہ اب ہے، اسلام ہمیشہ اپنی حقانیت و عقیدہ کی سادگی اور تبلیغ خالص سے پھیلا ہے۔ انبیاء، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، سلف صالحین، علمائے کرام اور بزرگان دین نے نہ جانے کیسی کسی مشقتوں اور دقتوں کا سامنا کیا، آبلہ پائی کی کانٹوں کے بستر پر چلے اور آگ کے دریا میں تیرنا گوارہ کیا لیکن انہوں نے اپنے پائے استقامت میں ذرا بھی جنبش نہیں آنے دی اور نہ ہی آخرت کے مقابلے دنیا کے سودے پر رضا مند ہوئے۔ سمندروں کا سینہ چاک کرنا، صحراؤں میں آبلہ پائی کے مزے چھکنا، موت سے آنکھ مچولی کھیلنا، سمندروں میں گھوڑے دوڑانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا تھا اس ملک میں بھی زیادہ تر دعوت کا کام صوفیہ کے ذریعہ ہی ہوا لیکن کئی صدیوں سے ہم لوگوں نے وطن عزیز میں دعوت دین کی کوئی منظم اور مربوط کوشش نہیں کی ہے، لیکن اب بھی وقت نہیں گیا ہے، اسلام کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی اگر مسلمان اس کام کو لے کر اٹھیں تو کامیابی و کامرانی قدم چومے گی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے غیبی نظام کے مطابق اس امت کے تحفظ کا سرو سامان ہوسکتا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا، محسن انسانیت کا جو پیغام دعوت تھا جس کے ہم پاسبان بنائے گئے تھے، اور جس کلمۂ حق کی امانت ہمیں سونپی گئی تھی جب ہم نے اسی کلمہ حق کی مشعل کو بلند رکھنے میں کوتاہی کی اور اس نظام حق کا اپنے ہاتھوں ستیاناس کرکے رکھ دیا اور ہم اس انقلاب آفریں مقصد کو بھلا دیا جس کے نتیجے میں دور حاضر کا قافلہ غلط سمت مڑا اور مڑتا ہی چلا گیا جس سے آج پوری انسانیت بحران کا شکار ہے، موجودہ عالم گیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجئے تو وہ حال زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔پوری اولاد آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت اور اقتدار کے لئے ہاتھا پائی ہورہی ہے۔ آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے اسی وجہ سے ہم ہر جگہ پریشان ہیں۔ آج ہم تحفظ شریعت کی بات کرتے ہیں، لیکن کیا ہم خود شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ہم سے مکمل اسلام پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیا ہماری زندگی میں مکمل اسلام ہے؟ کیا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ کی مدد اسی وقت ہوگی جب ہم اسلام پر عمل کریں گے، ہماری خود زندگی غیر اسلامی زندگی ہے سب سے پہلے ہم خود شریعت پر عمل کریں پہلے ہم خود اپنی زندگی میں شریعت کو نافذ کریں آج مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے جو غلط فہمیاں ہیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان غلط فہمیوں کا ازالہ سب سے زیادہ اخلاق حسنہ سے ہوگا، اگر ہم شریعت پر عمل کریں گے تو اللہ کی نصرت و مدد شامل حال ہوگی۔ کیوں کہ قرآن و حدیث کے اندر یہ نہیں ہے کہ ہم مسلمانوں کی حفاظت کریں گے، البتہ قرآن کریم کی حفاظت ضرور کی جائے گی۔ دین کی حفاظت ضرور کی جائے گی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہمیں بقا اور تحفظ مقصود ہو تو کتاب و سنت کا دامن تھامنا پڑے گا۔ دین کے ساتھ اگر ہم تعلق رکھیں گے تو ہم بھی باقی رہیں گے اور اگر تعلق توڑ دیں گے تو ہمارے اور آپ کی بقا و حفاظت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہماری بقا اسی میں مضمر ہے کہ ہم بقائے اسلام کے لئے آگے بڑھیں اور اس کے لئے ہمیں قرآن و سنت کی حقیقی تشریح و تعبیر یعنی مشن صوفیاء سے تجدید عہد کرنا ہوگا۔ جو راستہ ہمیں عطا کیا گیا ہے اسی پر ایک بار پھر لوٹنا ہوگا، نفرت و تعصب کی زنجیروں کو توڑ کر اپنے اندر محبت و اخوت، رواداری و یگانگت، حریت و غیرت، لگن و جستجو، ہمت و جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ عیارانہ ماحول کو سچائی اور امانت داری میں بدل دینا ہوگا، نفرت کی زنجیروں کو توڑ کر انسانیت کو محبت کے ہار میں پرونا ہوگا، کانٹوں کو چن کر پھولوں کی سیج کو بچھانا ہوگا، فرقہ پرستی کے بتوں کو پاش پاش کرکے مسلمان کامل بننا ہوگا اور روشن ضمیری کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ انتقامی جذبات سے الگ ہٹ کر وقتی جوش و جذبہ کو چھوڑ کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل، خدمت اور دعوت کے سلسلے میں بنایا جائے اور اس بدلے ہوئے حالات میں اگر ہمت و حکمت کے ساتھ داعیانہ کردار اپنایا جائے تو اس ملک میں جو مسائل درپیش ہیں اس میں خاطر خواہ مؤثر کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
خود بھارت کے فرقہ وارانہ حالات کی فضا سے ایسا لگتا ہے، بھارتی مسلمانوں کا مستقبل نہایت اندوہناک ہے اور ہم مسلمان خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ وقت کی رفتار کو دیکھ کر بیدار ہونے کا وقت آگیا ہے لیکن عوام و خواص کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔ آج ہم فروعی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، مذاکرے، مشورے میں لگے ہوئے ہیں لیکن امت مسلمہ کی بقا و تحفظ کے بنیادی مسائل سے چشم پوشی کر رہے ہیں یا حالات سے مجبور ہوکر تجاہل عارفانہ کا شکار ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم اپنے مقصد سے بھٹک گئے ہیں۔ عقائد کی درستگی، مسائل کی تعلیم و تدریس، شریعت کی تفہیم و تنفیذ کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے فلاح وبہبود، وجود و بقا اور وقار و عظمت کے لئے سوچنا، لائحۂ عمل ترتیب دینا اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے قیادت کرنا امت کے ذی شعور افراد کے لئے فرض ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کا احساس اگر ہمارے اندر نہیں ہے تو پھر بھارت میں ملت اسلامیہ کی کشتی کو گرداب حوادث میں پھنسنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ امت دنیا و آخرت دونوں کے لئے پیدا کی گئی ہے، چنانچہ دنیا میں فلاح و صلاح کے ساتھ زندگی گزارنے کے علاوہ آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے عمومی و خصوصی پروگرام پیش کرنا علماء کے ذمہ ہے۔ علماء امت اور عمائدین قوم و ملت اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں اور ہر قدم پر امت کی رہنمائی کریں، جب امت کے سامنے حوادث کا طوفان کھڑا ہوا اس وقت میدان میں آکر امت کے لئے دفاع و قربانی کے بجائے کمروں اور گپھاؤں میں بیٹھ کر صرف مشورہ کرنے سے امت کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔ یہ ہوش کا ناخن لینے کا وقت ہے، امت پریشانی میں ہے، ہندوستانی ملت اسلامیہ اضطراب کے دور سے گزر رہی ہے۔ سماجی زندگی کا تانا بانا ٹوٹنے کے قریب ہے، یہ ایک درد مند دل کی پکار ہے، وقت سے پہلے عظمائے امت کو بیدار ہوجانا چاہئے۔ امت مسلمہ ان کو ایک امید کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور ان کے پاس ہی مسائل کا حل موجود ہے۔ الحاد، مادہ پرستی اور قوم پرستی وہ بڑے بڑے چیلنج ہیں جو اس وقت عالم اسلام کو در پیش ہیں۔ ان بھول بھلیوں سے نکال کر امت مسلمہ کو اسلام کی سچی اور سیدھی شاہراہ پر گامزن کر دینا اہل فکر و نظر کا اہم فریضہ ہے۔ یہ موضوع سوچ بچار کا نہیں ہے بلکہ عملی جد و جہد کا تقاضہ بھی کرتا ہے۔ مرحلہ سوچ بچار کا ہو یا عملی جد وجہد کا اس کی فکری راہنمائی اہل علم درد حضرات ہی کر سکتے ہیں۔ امت کی بقا و تحفظ کے لئے باطنی اسباب کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب پر غور و فکر کے ساتھ ہی عمل آوری کی بھی ضرورت ہے، اگر اقدام نہیں کیا گیا تو زمانہ ہمیں معاف نہیں کرے گا اور ہم تاریخ کا قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں
فکر فردانہ کروں محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
06؍ اگست 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں