ترکی کی مثال اسی تاریخی حقیقت کی طرح اہل ایمان کے سامنے ابھر رہی ہے،جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالی نے ایک مرد مومن کاتذکرہ کیاہے، جن کو اللہ نے سو سال تک کے لیے سلادیا،اور اس کے بعد ان کو نیند سے بیدار کیا، ان کا کھانا پانی اسی طرح ترو تازہ تھا، اور ان کا گدھا سڑ گل کر ختم ہوچکا تھا، ان کے دیکھتے ہی دیکھتے اس میں زندگی کے آثار نمودار ہوئے،اللہ نے اس مرد مومن کواپنی قدرت کی نشانیاں دکھادی، اور وہ پھر اپنی قوم کے پاس جاکر ان کو راہ راست بتانے لگے، ان کے لیے ہدایت کا سامان تیار کرنے لگے، آج ترکی کے لیے وہی حال نظر آتاہے، کہ اس کی دین بیزاری اورذلت و پستی کے سو سال پورے ہوچکے ہیں،اس نے خلافت کے خاتمہ کے بعد دین سے نفرت اورشریعت سے دوری اختیارکر کے اسلام کی پاسبانی کے فرائض سے اپنے آپ کو مستغنی سمجھ لیا تھا، کمال اتاترک کے جانشینوں نے اپنی نسلوں کو ایمان سے دور رکھنے کی خاطر جس طرح کی پلاننگ اختیار کی تھی، حتی کہ عربی الفاظ میں اذان تک دینے پر پابندی عائدکردی گئی تھی، حفظ کے مکاتب و مدارس بند کردیئے گئے، کھلم کھلا شعائر اسلام کا مذاق اڑایاجانے لگا تھا،لیکن پھر اللہ نے کچھ قدسی نفوس کو بیدار کیا،جنہوں نے شب تاریک میں قندیل رہبانی کے ذریعہ امت کو ایمان پر قائم رکھنے کے لیے محنت کی،قوم میں موجود ایمان کی چنگاری کو ہوا دی،جس کے نتیجہ میں اس کودنیا پھر ایک بار اسلام کی طرف پلٹتاہوادیکھ رہی ہے،امت محمدیہ کی رہنمائی اور سربراہی کے لیے اب اسی کی طرف نگاہیں پھر سے اٹھ رہی ہیں،اب مسجدیں پھر سے آباد ہونے لگی ہیں، اور عالم اسلام کی قیادت کے لیے ترکی اپنے ہوش مند اور زیرک قائد کے ساتھ میدان میں نظر آرہاہے، ترکی نے پچھلے سالوں میں اقتصادی اور تعلیمی میدان میں نمایاں ترقی کر کے اپنے عوام کے لیے فلاح و ترقی کے راستے آسان کردیئے ہیں۔
ترکی کا مرد آہن اپنے دل میں انسانیت کا جذبہ لیے مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کے لیے اپنے آباء واجداد کے کارناموں کو سامنے رکھتے ہوئے ملت اسلامیہ کی روشن تاریخ کا ایک نیا باب رقم کرنے جارہاہے،وہ ایک طرف شامی مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھولے ہوئے ہے، دوسری طرف مصیبت زدہ و فاقہ زدہ روہنگیا مسلمانوں کے لیے امن و شانتی کادر وا کئے ہوئے ہے،برما میں ہونے والے مظالم پر آواز اٹھانے کی توفیق بھی اسی کو ملی،اور برما کے پناہ گزینوں کی امداد کے لیے دروازے کھولے۔
یہ ترکی کے حکمراں کا ہی دل تھا کہ غزہ پر۲۰۰۷ سے ڈالے گئے حصار کو توڑنے کے لیے جوچھ کشتیاں روانہ کی گئیں، اس میں سب سے مقدم ترکی کی ہی کشتیاں تھیں،جس پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر کے کئی لوگوں کو قتل کیا، اسرائیل کی قید سے آزاد ہونے والے فلسطینیوں کو بسانے کے لیے اردوغان نے ہی ترکی میں خیر مقدم کیا،دوسری طرف قدرت کے دیئے ہوئے تیل وگیس کے ذخائر پر خدابن کر بیٹھے ہوئے عرب حکمرانوں کو اپنی عیاشیوں سے ہی فرصت نہیں تھی کہ وہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لیے جو ان ہی کے ہم قوم و ہم مذہب تھے، ان کے ساتھ انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے۔
یہ ترکی کے صدر ہی تھے جس نے دنیا کے سب سے قد آور لیڈر باراک اوبامہ کو جی ۲۰ کے کانفرنس ہال میں پہلے داخل ہونے سے روک دیا، اور حرمین شریفین کے تقدس کا پاس رکھتے ہوئے حجازکے شاہ سلمان کو آگے بڑھایا۔
یہ ترکی کا صدر ہی تھا جس نے دافوس کی ایک کانفرنس میں اسرائیلی حکمراں شمعون پیریز کو بھری محفل میں کراراجواب دے کر اس کو آئینہ دکھایاتھا، اور کہاتھا کہ تم مجھ سے عمر میں بڑے ضرور ہو، لیکن تمہیں اس طرح بلند آواز سے چیخنے کا حق ہرگز نہیں،خواہ مخواہ بلند آواز سے چیخ کر بات کرنا خود تمہارے مجرم ہونے کی دلیل ہے، اگر تم قتل کی بات کرتے ہو تو یاد رکھو ہم نے تمہارے فوجیوں کو غزہ اور القدس کی سڑکوں پر فلسطینی بچوں کے ساتھ بربریت کا سلوک کر کے قتل کر تے ہوئے دیکھاہے،اور تمہارے فوجی کمانڈر کہتے ہیں کہ ہم جب اپنے ٹینکوں پر سوار ہوکر غزہ میں داخل ہوتے ہیں، تو ہمیں بہت سکون ملتاہے،حالانکہ تمہیں تورات میں لوگوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیاہے، لیکن تم قتل کرتے ہو۔فرعون وقت کے سامنے اتنی بڑی جرائت وہی کرسکتاہے، جس کو اپنے رب پر غیر متزلزل ایمان ہو، اور اس کو یقین ہو کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
یہ ترکی کا موجودہ حکمراں ہی تھا،جو کوسوفا او ر بوسنیا کے مسلمانوں کی داد رسی کیاکرتا تھا، اور اس نے مجاہدین کے ساتھ مل کر میدان جہاد میں سربی درندوں کو کئی بار ناکوں چنے چبوایا۔
یہ ترکی کا حکمراں ہی تھا جو جمعہ کی نماز میں جگہ نہ ملنے پر وضو خانے کے پاس کھڑا ہوکر نماز ادا کر رہا تھا،یہ ترکی کا حکمراں ہی تھا جو اپنے آفس جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کر تے ہوئے عام لوگوں کے ساتھ ہینڈل پکڑ کر کھڑا رہتا،اور اپنی سیٹ کسی معمر فرد کے لیے خالی کرتا تھا۔
وہ ترکی کے شہر استانبول میں۲۶ فروی ۱۹۵۴ ء کوایک معمولی کوسٹ گارڈ کے گھر میں پیداہوا، بحر اسود کے ایک ساحلی گاؤں ریزہ میں ابتدائی زندگی گذاری، ۱۳ سال کی عمر میں استنبول کی گلیوں میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے شربت بناکر فروخت کرتارہا،اورتربوز و کھیرا بیچ کر اپنے والد کی معاشی مدد کرتارہا۔’’ اما م و خطیب نامی ایک اسلامی مدرسہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، آگے کی تعلیم کے لیے مرمرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔وہ نوجوانی میں فٹبال کا بہترین کھلاری رہا، خداداد صلاحیتوں کے باعث پہلے استنبول اور پھر ترکی کے طلباء کا قائد بنا، لیکن اس کی صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ کو کسی اور میدان میں کام لینا تھا۔
چنانچہ نجم الدین اربکان کی اسلام پسند رفاہ پارٹی سے جڑ کر سیاست میں قدم رکھا، سیاست کے نشیب و فراز دیکھے، اور یہ محسوس کیا کہ اپنی اسلامیت کو ظاہر کر کے سوائے نقصان ہونے اورحکومت سے بے دخل ہونے کے کچھ حاصل نہیں ہے، اسی لیے انہوں نے ہمیشہ سیکولر طبقے کو یہی تاثر دیاکہ وہ دین کو حکومت پرحاوی نہیں ہونے دیں گے، ۱۹۸۵ ء میں اردوغان رفاہ پارٹی کی ایک شاخ کے سربراہ مقرر ہوئے، اور ۱۹۹۴ ء میں استنبول کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی، لیکن ایک جلسہ میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے جذباتی ہوکر یہ الفاظ جب استعمال کیے۔کہ ’’مسجدوں کے مینار ہمارے تیر و میزائل ہیں اور نمازی ہمارے فوجی ہیں، مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں‘‘۔ اس کے فورا بعد مختلف ذرائع سے ان کو گھیرنے کی کوشش کی گئی، اورمذہبی عصبیت کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیاگیا، لیکن اس حادثہ سے اردوغان متاثرنہیں ہوئے،بلکہ انہوں نے اپنی پالیسی بدلی، اور جسٹس اینڈ ڈیولپمینٹ کے نام سے نئی پارٹی کی بنیاد رکھی۔
اردوغان ویران مسجدوں اور بارونق نائٹ کلبوں سے بھرپور معاشرے میں اسلام کے لیے جدو جہد کرتارہا، سیکولر ترک فوج کے سامنے اقراری مجرم بنارہا، جیلوں میں گیا، اس کی بنائی گئی پارٹیوں پر حکومت پابندیاں عائد کرتی رہی، اور وہ نئے نئے پلیٹ فارموں سے نام بدل بدل کر قدم آگے بڑھاتاگیا، استنبول کا میئر بن کر اس کی تقدیر بدل دی، ۸۶ فیصد ووٹ لے کر ممبر اسمبلی بنا اور پھر ملک کا وزیر اعظم بن کر سرکاری رہائش گاہوں اور پارلیمنٹ لاڈجز کو فروخت کر کے ملکی معیشت کو مضبوط بنایا، کرائے کے مکان میں زندگی کے ایام گذارنے والا ترکی کا صدر رجب طبیب اردوگان ۲۰۱۰ ء میں دین اسلام کی خدمت کے صلہ میں فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا ۔
آج پوری امت کی مائیں اس کو اپنے لیے نجات دہندہ سمجھ رہی ہیں، خاصان خدا کی دعاؤں میں اس کے لیے یقیناًوافر حصہ ہے، اس نے مسلم ممالک کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے لیے عزیمت و انسانیت کی عظیم مثال پیش کی ہے، اخلاص و سادگی کا پیکر ، نرمی و محبت سے سجا ہوا وہ عظیم انسان اپنی قوم کے دلوں کی دھڑکن بننے کے ساتھ ساتھ پورے عالم اسلام کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے۔
جواب دیں