ویسے بھی یہ سب کے سب کمبخت ایک ہی آدم کی اولاد ہی تو ہیں……الغرض پیرس خود کش حملہ آوروں میں کوئی بھی باقی نہیں بچا…. انکے ڈی این اے ٹیسٹ فورا سے پیشتر لے لئے گئے تھے…. جبکہ ایسے ٹسیٹ کے نتا ئج اکثر جلد ہی معلوم ہو جاتے ہیں… تفتیش کے اصولوں کے تحت انکی بھی اپنی ایک منطق ہوتی ہے…لیکن مغرب اب اتنا بھی ترقی یافتہ نہیں ہوا ہے کہ وہ ڈی این اے ٹیسٹ سے انسان کے دین و مذہب کی تشخیص کرلے یا مسلمان کا ایمان ناپ تول لے….. القصہ مختصر یہ کہ متعدی سوشیل میڈیا پر سب کچھ ہمیشہ کی طرح دہشت گردی بلکہ اسلامی جہاد اوردہشت گردی کے نام کی بنی بنائی فلم ریلیز کر دی گئی…… اور اسکا ٹریلر ٹی وی میڈیا پر آنا فانا جاری و ساری بھی ہو گیا…… نیند سے اٹھا اٹھا کر اینکرز حضرات کا میک اپ کیا گیا اور انکے ہاتھوں اسکرپٹ بھی تھما دی گئی…. اور اسکے ساتھ ہی فیسٹیول گفٹ ہیمپرز بھی…سردی کے موسم کا لحاظ کرتے ہوئے مختلف لوازمات بھی ہتھے چڑھ گئے …لیجیے اب چند لوگ ہماری زبانی یہ سب کچھ سن کر بہت نالاں ہونگے کہ یہ سخن گسترانہ چے معنی……راقم کو مذاق کی سوجھی ہے اور یہاں معصوموں کی جان چلی گئی…… ہم نے بھی خود سے یہی کہا تھا….لیکن اب اہل مغرب نے اور میڈیا نے دنیاکو مذاق بنا ڈالا ہے تو ہم بھی کیا کریں…. یہ سب اب ختم ہونا چاہیے جو معصوم انسانوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اور جس کے ذمہ دار وہ تمام لوگ ہیں جو حملہ کرتے اور کرواتے ہیں اور وہ بھی جو پردے کے پیچھے ہیں اور جو بساط بچھائے بیٹھے ہیں ……… خیر دنیا کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی جلد یاد آگیا کہ ایک عرصہ ہوا ہے موم بتیاں جلائے ہوئے … اور اہل مغرب کے ساتھ گلے لگ کر روئے ہوئے….عالمی معیشت کا رونا ہی کیا کم تھا کہ اب پھر ایک اور دھماکہ…جبکہ سفارتی اور سیاسی دھماکوں کی گونج میڈیا کو سنائی نہیں دیتی…نہ لندن میں نہ نیویارک میں، اور نہ ہی ممبئی اور کراچی میں….کیونکہ یہ خود کش نہیں ہوتے بلکہ ان سے ہونے والی اموات نظر بھی نہیں آتی….. کیوں نہ ہو…. یہ دھماکے دہشت طاری نہیں کرتے… ہاں نشہ ضرور طاری کرتے ہیں…..عوام کو ان سیاسی اور سفارتی دھماکوں میں مزا آتا ہے…انہیں احمق بنایا جاتا ہے …عوام الناس کو اب اسکی عادت سی ہو گئی ہے … بلکہ اب تو خود کش دھماکوں کی بھی ہوگئی ہے …
پیرس دھماکے کا وقت و مقام بھی کیا خوب کہ اہل شہر ہو یا امیر شہر سب یونہی چادر اوڑھے سو نہیں رہے تھے…. جو کتوں کے ذریعے جرم کی بو سونگھتے پھرتے ہیں……پھر وہ چاہے سیاسی جرایم ہوں یا سماجی، مقامی ہوں یا عالمی.. خلا ئی ہو یا زمینی ہر ایک جرم کا اہل مغرب کو قبل از وقت پتہ ہوتا ہے … کیوں نہ ہو بھلا…. آلۂ جرم اور موقع واردات کا تعین کرنا اگر خود کش بمبار کے بس میں ہوتا تو پھر کیا تھا…یہ تو اہل مغرب ہی بناتے اور طے کرتے آئے ہیں… اور موساد اور سی آئی اے اس کے گواہ رہے ہیں، جس کا ذکر بھی سوشیل میڈیا پر عام کردیا گیا ہے.. انکے سیاسی اور سفارتی مسودات ایسے تمام رازوں سے بھرے پڑے ہیں اور وہ بھی سوشیل میڈیا پر عام ہیں…..الغرض مہذب دنیا اب اتنی بھی بے وقوف نہیں رہی …..اور نہ ہی جاہل کہ کوئی مصری سوری یا افغانی اپنے ساتھ امریکی یا اسرائیلی پاسپورٹ رکھ کر خود کش دھماکے کرنے نکلتا ہوگا……اور نہ کوئی امریکی، برطانوی یا اسرائیلی غیر ملکی پاسپورٹ لے کر نکلے گا …… کیا کسی ہندوستانی یا پاکستانی کے لئے مغربی پاسپورٹ بنوانا کوئی مشکل کام ہوتا ہوگا….. کیا سارے خود کش بمبار جان بوجھ کر اپنے اپنے ملک کے پاسپورٹ لے کر اور اپنی تنظیموں کو عین وقت پر اشارہ کر اس آتش نمرود میں کود پڑتے ہونگے، اگر بالفرض ایسا کرتے بھی ہونگے… کیونکہ میڈیا اور سیاست میں سب کچھ با لفرض ہی مانا جاتا ہے.. تو بے شمار مغربی تفتیشی اور جاسوسی ادارے سب کے سب دن رات نشے میں رہتے ہیں کیا؟؟؟… زمینی تو زمینی اب خلا ئی ایجنسیا ں بھی کیا رات دن نشے میں رہتی ہے……انہیں باقی سب کچھ پتہ ہوتا ہے بس ایک اپنی بربادی کا پروانہ اڑتا نظر نہیں آتا… صرف یہی پتہ نہیں چلتا کہ چند لٹے پٹے بے وطن بے نقاب، کب کفن پہن کر داڑھی، وہ بھی لمبی چوڑی رکھ کر انکی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں…….. جبکہ غیر ملکی ہو یا مقامی دونوں قسم کے مشتبہ حضرات کی فہرست انکے پاس ہوتی ہے… اور داڑھی والوں کے تو ایک ایک لمحہ کا اہل مغرب حساب رکھے ہوئے ہیں..بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں تو انکی داڑھی کے بال بال کا حساب رکھا ہوا ہے…..اور تعجب ہے وہ سب ہتھ گولوں سے بھرے تھیلے لئےکھیل کود کے میدان اور کھانے پینے کی جگہوں پر دندناتے پھرتے ہیں…. اور یہ سب خود کش حملہ آور جو بقول میڈیا مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں… پہلے کبھی مدارس سے ہواکرتے تھے… لیکن آج کل مدارس سے نکلنا بند ہو گئے ہیں … پتہ نہیں مدارس میں اب ایسا کیا ہوا ہے… خیر یہ سارے مہذب دنیا کے بے حد مہذب اور تعلیم یافتہ، ڈاکٹرز، انجینیرز سائینٹسٹ.. پتہ نہیں انہیں کیا ہوگیا ہے کہ یہ مغربی تعلیم سے بغاوت کر بیٹھے ہیں … ایسے ہی جیسے کسی دور میں مدارس کے باغی مغربی افکار کے تالاب میں گر پڑے تھے…… یا یہ بھی غیر ممکن نہیں کہ مختلف ترقی یافتہ ممالک کی باغی تنظیمیں ، یا زیر زمین سر گرم عمل جرائم پیشہ ادارے ایسے غیر قانونی کام چٹکی بجاتے ہوئے نہ کرسکتے ہوں…یا اہل سفارت اس کام میں شامل نہ ہوں …… کسی ترقی یافتہ ملک کی خفیہ تنظیموں کے لئے یہ سب بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے…. جہاں گورے کو کالا اور کالے کو گورا کرنے میں وقت نہیں لگتا… جنہیں حکومتوں اور سرکردہ سیاست دانوں کو سبق سکھانے کے لیے پالا پوسا جاتا ہے…جو کسی امیر شہر کو چٹکی بجا کر غریب اور کسی احمق کو دانشمند بلکہ نوبیل پرائیز ونر بھی بنا سکتے ہیں…. اور کسی ظالم کو امن کا اعزاز بھی دے سکتے ہیں……چلیے پھر وہی ہما ہمی اور بو قلمونی کہ ….. دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بگل بجا دیا گیا ہے… دہشت گردی کا جواب اب زیادہ سے زیادہ دہشت سے دیا جائیگا…… یہ وارننگ بظاہر تو یوں ہی لگتا ہے کہ اس خود ساختہ تنظیم کو دی جا رہی ہے جس نے پیرس بم دھماکوں کی ذمہ داری راتوں رات بلکہ قبل از جرم ہی قبول کر لی ہے … بغور معائینہ کیا جائے اور وقت کو ناپا اور تولا جائے تو یہ حقیقت بھی سامنے آسکتی ہے کہ دھماکوں سے چند لمحہ پہلے ایک تنظیم جس کا اتہ پتہ صرف اہل مغرب کو ہوتا ہے یا میڈیا کو، وہ سامنے آجاتی ہے….. انگریزی فلم کے ایک بد کردار کردار کی طرح……یا کوئی تنظیم اپنی دشمن تنظیم کے نام پر سارے انسانیت سوز کام کرتی ہے اور الزام کسی اور تنظیم پر آسانی سے رکھا جاسکتا ہے… مغرب میں آئے دن ایسے کردار سامنے آتے رہتے ہیں اور جو جلا وطن کر دیے جاتے ہیں ….. یہ سارے کردار اب پردہ رنگین سے نکل کر دنیا میں ظاہر ہوچکے ہیں…. لیکن اس پردہ پر تاریک پردہ ڈالنے کا کام میڈیا بخوبی انجام دیتا ہے…. اور ناظرین کی نظریں اور سامعین کی سماعتوں کو دھوکے میں رکھنا اب ایسا کوئی جادو جگانے کا کام بھی نہ رہا … لیکن انہیں اہل فکر و قلم اچھی طرح جانتے ہیں اور اسے صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے سے قاصر بھی نہیں ہیں … ..چلیے پھر وہی گھسی پٹی بیان بازی میڈیا میں جاری ہوگئی ….. انسانیت کے دشمن، جمہوریت کے دشمن، تہذیب کے دشمن…… سماج کے دشمن ….. یہ سب تو بجا سہی لیکن کہیں نہ کہیں.. اسلام کا نام لئے بغیر ایسے خود کش حملوں پر سفارتی جوابی حملے، اور جنگی حملے کرنا اب اہل مغرب کے لئے غیر ممکن ہوتا جارہا ہے …. میڈیا کو ذرا غور سے دیکھیں اور سنیں……. اوباما کا بیان، کیمرون کا بیان، پوپ کا بیان، ہولیندے ہو یا پوتین، سب کے بیانات ، سب کا رد عمل، شدید رد عمل……جو کسی بھی عام انسان سے مختلف نہیں ہوتا ……بلکہ کیا خاص اور کیا عام…..کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم، کیا مسلمان مذہبی رہنما اور کیا مسیحی اور کیا ہندو رہنما… ہر ایک ایسی بربریت پر شدید رد عمل کا اظہار ہی کرتا ہے…..لیکن وائے تعصب کہ بیانات کی بھر مار متعصب میڈیا کے چہرے پر بد نما داغ کی طرح نظر آتی ہے، جہاں اسلامی دینی تنظیموں اور رہنماؤں کا بیان ندارد… بلکہ ان کی سرد مہری کو یہاں ثابت کیا جاتا ہے تاکہ اسلام اور مسلمان کو بدنام کیا جاسکے……یہی وہ نقطہ ہے جس میں خود کش حملوں کا سارا راز پوشیدہ ہے…… ابھی حملے کو چند گھنٹے ہی ہوئے ہیں…. ابھی خود کش بمبار کے نقاب بھی نہیں الٹے گئے… ابھی مرنے والوں کی صحیح گنتی بھی نہیں معلوم….. ابھی اوزاروں کی شناخت کے لئے اڑے ہوئے پر کھچے بھی جمع نہیں ہو سکے….. ابھی گناہ گاروں کی صحیح شناخت بھی نہیں معلوم کہ بس خیالوں کے گھوڑوں پر ٹی آر پی کو رفتار دے دی گئی ….. سوشیل میڈیا پر اور میڈیا پر کہرام مچانے والے…. آئی ایس کی دہا ئی دے کر اسلام کو بدنام کرنے والے… اور عراق اور شام میں لڑنے مرنے والے کیا نہیں جانتے کہ فرانس کا یا اہل مغرب کا کوئی اور دشمن نہیں ہے… کیا اہل مغرب خود اپنے اور ایکدوسرے کے دشمن نہیں ہیں… کیا ان کے سیاسی، سماجی، معاشی دشمنوں کی کوئی کمی ہے….. کیا اصلحجات اور معیشت کی اس عالمی دوڑ میں فرانس کا اور کوئی دشمن نہیں…. سوائے ان مسلمان احمقوں کے جو اغیار کے اوزار پر اپنی بے بس آئیڈیالوجی کا جنازہ لئے پھر رہے ہیں….اور تعجب اس پر کہ جو ایک سوئی بنانے کے روادار نہیں چہ جائیکہ مغربی مکاری کو چلینج کرتے ہوئے حملے کرتے پھریں … انکی اجازت اور شمولیت کے بغیر…. کیا صرف نام نہاد مسلمان اور اسلامی تنظیموں پر تفتیش کے اولین دور میں انگلی اٹھا کرفرانس اپنے اصل دشمنوں سے نجات پا جا ئے گا…… اور کیا یہ سلسلہ اسلام اور معصوم مسلمانوں کو بدنام کر کے رک جائے گا… کیا انسانی تاریخ اتنی کمزرو ثابت ہوئی ہے کہ تفتیش کے پیمانے اور حقائق سے آگاہی کے راستے محدود و مسدود کر کے رکھ دئے جاسکتے ہیں….. کیا آنے والی نسلوں کو اتنا احمق تصور کر لیا گیا ہے کہ وہ "جو دکھتا ہے وہی حقیقت ہے” کے کمزور اصولوں کی بنیاد پر تاریخ کے اوراق پلٹے گی…کیا وہ ماضی کے میڈیا کی متعصب سیاہ چادر کو چاک نہیں کر پائیگی…. کیا آنے والی نسلوں میں یہ سوالات اٹھانے والا کوئی نہ ہوگا…. الغرض پیرس شہر میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل معافی جرم ہے …. لیکن سوال تو اب بھی منہ چڑا رہا ہے کہ ….. اہل مغرب جو خلا میں بیٹھے بیٹھے جرائم کے تاریک رازوں سے پردہ اٹھاتے رہتے ہیں….. وہ اتنے بے بس و مجبور کیوں ہیں… ان سے کیا غلطیاں ہورہی ہیں….. وہ کہاں اور کیوں ناکام ہورہے ہیں….. اہل مغرب نے مسلمان اور اسلام کا نام لے لے کر سب کچھ تو تباہ کردیا ہے… اب بچا ہی کیا ہے … نہ وہ مصر و لبنان رہے، نہ وہ فلسطین و شام، نہ ہی اب لیبیا رہا اور نہ ہی وہ نجد و حجاز و یمن و ایران، اور نہ وہ تاشقند و بخارا …… جن راہوں پر چل کر اہل مغرب نے پیٹرول میں ڈوبے اپنے پیروں کے نشان چھوڑے تھے…. انہیں ہی چنگاری دکھا کر کہاں کا دانشمندانہ کام کیا ہے …. یہ آگ تو پھیلنی ہی تھی.. اور انکے گھر تک پہنچنی تھی سو پہنچ گئی …..پیٹرول کی آگ، جذبات کی آگ، آئیڈیا لوجی کی آگ، جھوٹے عقایدکی آگ ، برہنہ تہذیب و تمدن کی آگ، معیشت کی آگ، جعلی جمہوریت کی آگ، جنگ و جدل کی آگ، جھوٹے الزمات کی آگ، دغا بازی اور دھوکہ دہی کی آگ، پیٹ کی آگ، اور نہ جانے ایسی کتنی آگ ہے جسے اہل مغرب نے اپنی معاشی اجارہ داری کی نذر کر دیا…….اہل مغرب… یہ آگ تمہیں نے لگا ئی ہے اور تمہیں ہی بجھانا ہوگا….
جواب دیں