ٹرمپ خود تو ذلیل ہوا امریکا کو بھی ایک خطرناک موڑپرکھڑاکر دیا…. ہندستان سمیت دنیا بھر کی جمہوریتوں کے لئے لمحہ فکریہ
عبید اللہ ناصر
اس دن دنیا بھر کے لوگ اپنے اپنے ٹی وی ا سکرین پر امریکی تاریخ کا سب سے شرمناک سب سے خوفناک اور اور سب سے عبرت ناک منظر دیکھ کر انگش بدنداں تھے انکی آنکھوں میں حیرت اور دلوں میں بے یقینی تھی انکے ذہنوں میں بس ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا امریکا میں یہ کیسے ممکن ہے -ایک ایسا ملک جو نہ صرف دنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہے بلکہ جس کا جمہوری نظام اسٹیل کی طرح مظبوط اور مستحکم وہاں جمہوریت پر ایسا ڈاکہ کیسے پڑ سکتا ہے جمہوریت کو اغوا کرنے کی ایسی شرمناک حرکت کیسے ہو سکتی ہے -شاید امریکی عوام ایک سر پھرے سنکی آشفتہ سر اور دنیا کے جھوٹے ترین انسان کو اپنا رہنما اپنا سربراہ منتخب کرنے کی قیمت ادا کر رہے تھے جس نے جاتے جاتے نہ صرف اپنی گردن میں طوق ملامت پہن لی بلکہ امریکی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا بھی اضافہ کر گیا دراصل صدر ٹرمپ نے صدارتی انتخاب شروع ہوتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ شکست کی صورت میں بھی وہ وائٹ ہاؤس خالی نہیں کرینگے اس وقت انکے اس بیان کو دنیا بھر کے لو گوں نے انکا ایک اور احمقانہ بیان سمجھ کر ہنس کے ٹال دیا تھا کیونکہ وہ ایسے احمقانہ بیان دینے اور لفاظی کرنے کا ریکارڈ بنا چکے تھے مگر جب ووٹوں کگنتی شروعا ہوئی اور جس طرح قدم قدم پر ٹرمپ نے ان نتائج کے خلاف نہ صرف بیان بازی شروع کی بلکہ ووٹوں کی گنتی کو متاثر بھی کرنے کی کوشش کی اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ شخص نہ صرف واقعی ااوندھی کھوپڑی کا ہے بلکہ اسے اپنے ملک کے جمہوری نظام پر کی اعتماد نہیں ہے یہاں تک کہ اس نے جارجیا کے افسران کو بھی ووٹروں کو متاثر کرنے تک کی ہدایت دے دی تھی – یہی نہیں دائیں بازو کے نیو نازی ٹائپ کے اپنے حامیوں کا ایک بڑا گروپ بھی انہوں نے امریکا میں تیار کر لیا اور جب انکی شکست پر امریکی سینیٹ آخری مہر لگانے جا رہی تھی تو اس نے انے ان حامیوں کو امریکی سینیٹ قبضہ کر لینے کے لئے بھی اکسایا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لمپٹ آشفتہ سر ٹھگ اور گنڈے امریکی پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل ھل پر حملہ اور ہو گئے امریکا کیا دنیا کے کسی ملک کی جمہوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب عوام کے فیصلہ کو اس طرح سے بدلنے کی احمقانہ مجرمانہ اور دیدہ دلیرانہ کوشش کی جائے – تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوامی فیصلوں کو بدلنے اور ہاری ہوئی بازی کو جیت میں بدلنے کی غیر جمہوری حرکتوں کا جو ریکارڈ ہم ہندستانیوں نے بنایا ہے وہ شاید ہی کسی جمہوری ملک میں ہوتا ہو لیکن اس طرح تو شاید ہندستان میں ابھی تک نہیں ہوا لیکن امریکہ نے جو راہ دکھائی ہے وہ کس ملک میں دوہرائی جا سکتی ہے اسکے اشارہ اشارے کیپٹل ھل پر حملہ کرنے والے امریکیوں کے ساتھ کچھ ہندستانیوں کی شرکت اور امریکی جھنڈے کے ساتھ بھگوا اور ترنگا لہرانے سے مل رہے ہیں ویسے بھی امریکآ کے صدارتی انتخاب میں ہمارے حکمرانوں نے ٹرمپ کی حمایت کر کے خارجہ پالیسی میں ایک منفی تبدیلی کا اشارہ دیا ہے دوسرے ملکوں کے انتخاب اور وہاں اپنی پسند کی حکومت کا قیام ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے لیکن اسکے لئے در پردہ کوششیں کی جاتی ہیں دیدہ دلیری سے ابکی بار ٹرمپ سرکار اور کھلے عام فریق بن کر نہیں – مودی سرکار نے اس معاملہ میں جو تنگ نظری دکھائی اور جس طرح امریکی ہندستانیوں نے کیپٹل ھل پر ہے حملہ میں شرکت کی اس سے ہند امریکا تعلقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے در اصل ٹرمپ نے امریکی سماج کے ایک بڑے طبقہ میں یہ بات بٹھا دی تھی کی وہ امریکی انتظامیہ عدلیہ میڈیا میں بیٹھے ان شیطان پرست عناصر کے خلاف ایک جنگ لڑ جو امریکا فرسٹ کی اسکی پالیسی کے خلاف ہین-ٹرمپ نے ان امریکیوں کے دلوں میں جارح وطن پرستی کا وہی جذبہ بھر دیا ہے جس جذبہ کی بنا پر جرمنی میں ہٹلر اٹلی میں مسولینی اور جاپان میں تو جو نے اپنے عوام میں بھر کر دنیا کو جہنم بنا دیا تھا -امریکا کے یہ عناصر سمجھتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت ٹرمپ کو انتخابی بے ایمانی اور بد دیانتی سے ہرایا گیا ہے ٹرمپ نے ان عناصر کے انھیں منفی جذبات کو بھڑکا کر ان سے وہ کرا دیا جس کی وجہ سے وہ خود دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہوا ہے اور اب امریکا میں اسکے خلاف تحریک ملامت پیش کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں -وائٹ ہاؤس سے اس طرح ذلیل و رسوا ہو کر جانے والا ٹرمپ پہلا صدر بھلے ہو لیکن اس نے امریکی سماج میں جوزہر بو دیا ہے وہ آنے والے خطرات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کی ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کی مسٹر ٹرمپ انتخابی نتائج کو الٹنے اور اقتدار سے چپکے رہنے کے لئے اس حد تک گر جائینگے کہ وہ پورے جمہوری نظام کے لئے ہی خطرہ پیدا کر دینگے – انہوں نے اپنے حامیوں کو کیپٹل ھل پر حملہ کرنے کے لئے اس وقت اکسایا جب کانگریس میں الیکٹورل ووٹوں کی گنتی چل رہی تھی اور مسٹر بائیڈن کی فتح پر مہر لگنے والی تھی -اس خطرناک بغاوت اور شرپسند عناصر کی حمایت کر کے ٹرمپ نے اپنی صدارت کے بقیہ دن وائٹ ہاؤس میں رہنے کے حق کو گنوا دیا ہے اب یھاں انکا رہنا خطرہ سے خالی نہیں ہے کیونکہ اب بھی انکے ہاتھ میں امریکا کی نیو کلیائی تنصیبات کے بٹن کے نمبر ہیں -حالانکہ ٹرمپ نے با دل نخواستہ ہی سہی معینہ اریخ یعنی ۱۲ جنوری کو اقتدار بائیڈن کے حوالہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کو انکی ان غیر قانونی حرکتوں اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کو معاف کیا جا سکتا ہے -انکے خلاف تحریک ملامت کی مانگیں اٹھنے لگی ہیں ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے -ہاؤس سپیکر ننسی پلوسی نے آئین میں?? ون ترمیم کے استعمال کا اشارہ دیا ہے لیکن اس کے لئے نائب صدر اور کابینہ کی منظوری ضروری ہ – ان سب کا انحصار امریکا نئے صدر بائیڈن کے رویہ پر ہے امریکا میں جو کچھ ہوا لوگ اسے بھیڑ تنتر (انبوہ گردی)پر لوک تنتر (جمہوریت) کی فتح بھلے کہہ لیں یہ ممکن ہوسکا ہے ہے امریکا میں جمہوری اور آئینی اداروں مضبوطی اور سیاست دانوں میں پارٹی لائن سے بلند ہو کر جمہوریت کے تحفظ کے جذبہ کی وجہ سے' لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ اور انکے حامیوں کی اتنی شرمناک حرکت کے باوجود امریکی کانگریس کے??? اور سینیٹ کے? ممبروں نے ارجونا اور پنی سلوینیا کے ووٹروں کے فیصلہ کو پلٹنے کی ٹرمپ کی کوششوں کی حمایت کی ہے یعنی امریکا میں بھی زہر پھیل تو چکا ہی ہے بھلے ہی فی الحال وہ ھلاھل نہیں بن سکا ہے – دنیا کے کئی ملکوں میں بھی یہ خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور جب تک خود عوام اپنی جمہوریت کے تحفظ کے لئے حساس نہیں ہونگے جب انھیں اپنے مذہب اپنی نسل اپنی ذات کی برتری بالا دستی سے ملک سے زیادہ پیار ہوگا تب تک عوام کے ان منفی جذبات کو ہوا دے کر اقتدار پر اپنی گرفت مظبوط کرنے والے حکمران آتے رہینگے امریکہ کے واقعات ایک سبق ہیں جب حکمران اپنے زیر اثر تمام اختیارات طاقت اور وسائل کا استعمال کر کے عوام کے ذہنوں میں ملک قوم مذھب نسل اور ذات برادری کو لے کر منفی جذبات بھر دیتے ہیں اور پھر انکا استعمال اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے کرتے ہیں تو نہ صرف اس ملک کو بلکہ انسانیت کو بھی اسکی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے -اپنے ملک میں بھی جو ہو رہا وہ سب اسی خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کر رہا ہے ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
14 جنوری 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں