اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر متفق : ٹرمپ کا اعلان


(واشنگٹن / دوحہ / یروشلم / غزہ) — دو سال سے جاری غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے لیے ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس نے جنگ بندی منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کر دیے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاہدے کے تحت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی جلد متوقع ہے، جبکہ اسرائیلی افواج ایک متعین لائن تک واپس ہٹ جائیں گی۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر لکھا:
"یہ دن عرب و مسلم دنیا، اسرائیل، خطے کے تمام ممالک اور امریکہ کے لیے عظیم دن ہے۔ ہم قطر، مصر اور ترکی کے ثالثوں کے مشکور ہیں جنہوں نے اس تاریخی اور بے مثال معاہدے کو ممکن بنایا۔ مبارک ہیں وہ جو امن کے لیے کام کرتے ہیں!”
قطر کی تصدیق:
قطر کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے تصدیق کی کہ پہلے مرحلے کی تمام شقوں اور عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق ہو چکا ہے، جس کے نتیجے میں جنگ کا خاتمہ، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اور انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ "مزید تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔”
اسرائیلی ردِعمل:
اسرائیلی حکومت کے ترجمان کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی ہفتے سے شروع ہوسکتی ہے۔
وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا:
"یہ اسرائیل کے لیے عظیم دن ہے۔ میں صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے یرغمالیوں کی رہائی کے مقدس مشن میں کلیدی کردار ادا کیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ جمعرات کو کابینہ کا اجلاس بلا کر معاہدے کی باضابطہ منظوری دیں گے۔
حماس کا موقف:
حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیہ نے شرم الشیخ میں کہا کہ ان کی جماعت "ذمہ دارانہ اور سنجیدہ مشاورت” کے لیے آئی ہے، اور ان کا مقصد واضح ہے —
"جنگ کا خاتمہ، اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، اور تمام یرغمالیوں (زندہ یا مردی) کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی۔”
حماس نے امریکہ اور دیگر ضامن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو معاہدے پر مکمل عمل درآمد کا پابند بنائیں۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی ردِعمل:
اقوامِ متحدہ میں فلسطینی نائب سفیر ماجد بامیہ نے ایک لفظی پوسٹ میں صرف لکھا: "آخرکار…”
بعد ازاں ایک صارف کے تبصرے پر جواب دیتے ہوئے کہا: "مجھے یقین ہی نہیں آ رہا!”
منصوبے کی تفصیلات:
ٹرمپ کا مجوزہ 20 نکاتی منصوبہ گزشتہ ہفتے پیش کیا گیا تھا، جس پر فلسطینی حلقوں نے تنقید کی تھی کہ یہ زیادہ تر اسرائیلی بیانیے پر مبنی ہے۔
پہلا نکتہ بیان کرتا ہے کہ:
"غزہ کو ایک غیر عسکری علاقہ بنایا جائے گا جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔”
منصوبے میں شامل دیگر نکات کے مطابق:
ایک بین الاقوامی امن فورس غزہ میں قیامِ امن کی نگران ہوگی۔
ایک عبوری ٹیکنوکریٹک حکومت تشکیل دی جائے گی۔
فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی نفی کی گئی ہے، مگر ’بورڈ آف پیس‘ کے نام سے ایک نیا ادارہ تجویز کیا گیا ہے جس کی سربراہی خود ٹرمپ کریں گے — جسے ناقدین نے نوآبادیاتی نوعیت کا قدم قرار دیا ہے۔
سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلیئر کو بھی ایک منتقلی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
زمینی حقائق:
دو سالہ جنگ میں اب تک 2,38,000 سے زائد فلسطینی شہید، زخمی یا لاپتہ ہوچکے ہیں، اور غزہ کی بیشتر آبادی، تعلیمی ادارے، عبادت گاہیں اور اسپتال ملبے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ اور متعدد ماہرینِ نسل کشی کے مطابق یہ جنگ فلسطینیوں کے خلاف ایک منظم نسل کشی (Genocide) کی تمام علامات رکھتی ہے۔

غزہ میں نسل کشی کے ملزم نیتن یاہو کی تعریف کرنے پر وزیراعظم مودی پرکانگریس کی شدید تنقید

فلسطینی نژاد سائنس داں عمر یاغی نے نوبل انعام جیتا