ظہران ممدانی اور ٹرمپ کی پہلی ملاقات، صدر کے بدلے ہوئے انداز پر سیاسی حلقے حیران

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نیویارک سٹی کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی کے درمیان جمعہ کو ہونے والی پہلی بالمشافہ ملاقات نے امریکی سیاسی حلقوں کو حیران کر دیا۔ سخت مخالفانہ بیانات کے باوجود دونوں رہنماؤں نے 40 منٹ کی گفتگو میں ایک دوسرے کے لیے غیر معمولی نرمی اور اعتماد کا اظہار کیا۔
ٹرمپ، جو ماضی میں ممدانی کو "کمیونسٹ”، "جہادی” اور "یہودی مخالف” قرار دے چکے ہیں، ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بولے:
"میں ان کے لیے cheering کروں گا… وہ بہت اچھا کام کر سکتے ہیں۔”
اسی طرح ممدانی، جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کو "آمر” اور "فاشسٹ” کہا تھا، اپنے بیان میں ٹکراؤ کے بجائے مشترکہ مقاصد پر زور دیتے نظر آئے۔
ملاقات کا ماحول: طنز، ہنسی اور اسٹریٹیجک نرمی
بریفنگ کے دوران جب صحافیوں نے دونوں رہنماؤں سے پرانے الزامات یاد دلائے تو ٹرمپ نے ہنستے ہوئے کہا:”ہم سب بدلتے ہیں… مجھے اس سے بھی بدتر کہا جا چکا ہے”۔
ممدانی مسکراتے رہے اور مخالفانہ سوالات پر خاموش سفارتی رویہ برقرار رکھا۔
ٹرمپ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ خود بھی ممدانی کے ساتھ بعض علاقوں میں "مشترکہ ووٹرز” رکھتے ہیں، خاص طور پر مہنگائی، گھریلو اخراجات اور مشرقِ وسطیٰ میں امن سے متعلق وعدوں کے حوالے سے۔
ممدانی کا ایجنڈا: مہنگائی، فلاح اور انسانی حقوق
اپنے بیان میں ممدانی نے موضوع کو سخت سوالات سے ہٹا کر اپنے بنیادی منشور—افورڈیبلٹی—پر مرکوز رکھا۔
انہوں نے کہا کہ نیویارک میں "ہر چار میں سے ایک شخص غربت کا شکار” ہے، اور یہ کہ صدر اور میئر کا مشترکہ مقصد شہریوں کو معاشی ریلیف دینا ہے۔
جب ایک لبنانی صحافی نے یہ پوچھا کہ کیا ممدانی نے امریکی حکومت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام نہیں لگایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا:
"میں نے اسرائیلی حکومت پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے… اور ہم اس کی فنڈنگ پر اپنے تحفظات صدر تک پہنچا چکے ہیں۔”

سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ کی یہ ملاقات دراصل ممدانی کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے اور شہری طبقے میں اپنی جگہ؎ مضبوط کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اس بات کی بھی تعریف کی کہ ممدانی کس طرح محض ایک سال میں "سنگل ڈِجٹ” سروے سے اٹھ کر امریکہ کے سب سے بڑے شہر کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہوئے۔

ٹرمپ نے آخر میں کہا:
"میں نیویارک سٹی میں ممدانی کی قیادت میں رہنے میں مکمل طور پرمطمئن ہوں… ہم توقع سے زیادہ باتوں پر متفق نکلے۔”
دونوں رہنماؤں کی یہ ملاقات بظاہر امریکی سیاست کی اس نئی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ متصادم نظریات رکھنے والے لیڈرز بھی مقبول عوامی ایشوز پر ایک دوسرے کے قریب آسکتے ہیں—خواہ یہ قربت وقتی ہی کیوں نہ ہو۔

غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی بمباری؛ مزید 22 فلسطینی شہید، 80 سے زائد زخمی

کرناٹک حکومت کا نئی فشریز یونیورسٹی کے قیام پر غور