توپ قاپی محل یا توپقاپی محل (عثمانی ترک زبان: توپقاپی سرائے) 1465ء سے 1853ء تک دارالحکومت قسطنطنیہ میں عثمانی سلاطین کی باضابطہ رہائش گاہ تھی۔ یہ محل ریاستی معاملات کا مرکز تھا اور آجکل ایک عجائب گھر کی حیثیت سے استنبول کے بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ اس محل کی تعمیر کا آغاز 1459ء میں سلطان محمد فاتح کے حکم پر ہوا۔ یہ محل 4 مرکزی احاطوں اور کئی چھوٹی عمارات کا مجموعہ ہے۔ اپنے عروج کے زمانے میں اس میں 4 ہزار سے زائد افراد رہائش پذیر تھے۔ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان محمد فاتح کا وزیراعظم علی الصبح گھرسے گھوڑے پر سوار ہوکر فجر کی نماز آیہ صوفیہ میں ادا کرنے کے بعد شاہی محل میں بادشاہ کا سلام کرتا تھا اور پھر محل کے دیوان خاص میں امراء، سفراء اور سلطنت کے سرکردہ ملازمین سے ملاقات کرتا تھا اور فیصلے کرتا تھا،اس مشاورت کے دوران،سلطان ایک جالی دار کھڑکی سے سب کارروائی دیکھتا اور سنتا تھا اور جب کسی بات پر مداخلت کی ضرورت ہوتی تو وہ وہیں سے فیصلہ سنا دیتا۔ یہ محل ہزاروں کمروں پر مشتمل ہے جن میں سے اہم ترین تک ہی عوام کو رسائی حاصل ہے۔ مذکورہ وزارت کے حکام اور ترک افواج کے مسلح دستے اس کی حفاظت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ بحیرہ با سفورس کے کنارے واقع یہ عجائب گھر ایک وقت میں سلاطین ترکی کی رہائش گاہ اور دیوان خاص ہوتا تھا اسکے مین گیٹ پر تو پیں نصب تھیں اسی مناسبت سے یہ توپ قاپی یعنی توپ والا دروازہ کہلانے لگا اب تمام میوزیم توپ کاپی کے نام سے مشہور ہے۔ توپ قاپی کا مطلب ہے توپ کا دروازہ۔ اردو میں اس کا نام عام طور پر ہر جگہ "توپ کاپی" لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ عثمانی ترک زبان میں دروازے کو "قاپی" کہا جاتا تھا اس لیے اسے توپ قاپی کہا جانا چاہیے۔ اس کی ایک مثال اصفہان کا عالی قاپو محل ہے جس کا نام ترک زبان ہی میں بابِ ہمایوں اس محل کی بنیاد رومن سلطنت کے عہد میں تیسری صدی عیسوی میں رکھی گئی تھی،1453ء میں جب ترکوں نے استنبول فتح کیا تو یہ محل سلطان محمد (جو فتح استنبول کے حوالے سے سلطان محمد فاتح کہلاتا ہے) کی سرکاری رہائش گاہ بن گیا کئی صدیوں تک ترکی سلطان اس محل کو رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کے قدیم شاہی محل کے کھنڈرات تلاش کروائے۔ اس جگہ پر عثمانی دربار نے اسکی سرائے یعنی قدیم محل کی تعمیر کا حکم دیا جو آجکل جامعہ استنبول کا حصہ ہے۔ سلطان مزید بہتر جگہ کی تلاش کے بعد 1459ء میں توپ قاپی کی موجودہ جگہ پر محل کی تعمیر کا حکم دیا۔ ابتدائی طور پر یہ ینی سرائے یعنی نیا محل کے نام سے معروف ہوا۔ توپ قاپی کا نام اسے 19 ویں صدی میں ملا۔ سلطان نے اس محل کی تعمیر کے لیے سلطنت کے مختلف علاقوں سے ماہرین اور کاریگروں کو طلب کیا جنہوں نے اپنے زمانے کے مہنگے اور نایاب ترین مواد استعمال کر کے اس محل کی تعمیر کی۔ جب کمال اتاترک نے خلافت ختم کرکے جدید ترکی کی بنیاد رکھی تو 1923ء میں اس محل کو عجائب گھر کا درجہ دے دیاگیا اب اس کے دروازے ہر عام وخاص کے لئے کھلے ہیں۔ باب السلام محل کے جنوبی اور مغربی جانب ایک عظیم شاہی باغ بھی تعمیر کیا گیا جو "گل خانہ باغ" کہلاتا ہے۔ اس محل میں داخلے کے کئی دروازے ہیں جن میں سے مرکزی دروازہ "بابِ ہمایوں " یا "بابِ سلطنت" کہلاتا ہے۔ یہ عظیم دروازہ پہلی بار 1478ء میں تعمیر کیا گیا تاہم 19 ویں صدی میں اس کو دوبارہ سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا۔ اس دروازے پر قرآن مجید کی آیات کی خطاطی اور مختلف سلاطین کے طغرے بھی نصب ہیں۔ یہ دروازہ فجر سے لے کر عشا کی نماز تک کھلا رہتا تھا۔ وزراء یا غیر ملکی اعلٰی شخصیات کے علاوہ کسی کو اس دروازے سے گذرنے کی اجازت نہ تھی۔ دوسرا دروازہ باب السلام ہے جس کے دونوں جانب دو برج ہیں جو سلطان سلیمان قانونی نے 16 ویں صدی میں تعمیر کرائے تھے۔ اس دروازے سے صرف سلطان کو گذرنے کی اجازت تھی۔تیسرا دروازہ باب السعادہ کہلاتا تھا جو 15 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔ جو محل کے رہائشی افراد کی آمدورفت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس دروازے سے گذرنے کے لیے سلطان کی خاص اجازت درکار ہوتی تھی حتٰی کہ صدر اعظم کو بھی خاص دنوں اور مخصوص صورتحال میں اس دروازے سے گذرنے کی اجازت تھی۔ سلطان اہم تہواروں پر اس دروازے اور دیوان میدان کو استعمال کرتا تھا جبکہ سلطان کی آخری رسومات اور نماز جنازہ بھی اس دروازے کے سامنے ادا کی جاتی تھی۔ محل میں واقع کئی صحن یا احاطے واقع ہیں جن میں اعلٰی میدان، دیوان میدان، اندرون میدان اور صوف? ہمایوں شامل ہیں۔ محل کی عمارتیں بیسیوں ایکڑوں پر پھیلی ہوئی ہیں،اور قرون اولیٰ کے محلات کی طرح یہاں بھی مختلف امور کے لئے الگ الگ عمارتیں ہیں ان میں سلطان کا ذاتی محلسرا ہے جسکے آرام دہ کمروں میں سلطان کا خاندان رہتا تھا،ساتھ ہی حرم سرا کی عمارت ہے جس میں لونڈیاں،باندیاں رہتی تھیں۔محلسرا کی حفاظت کے لئے خواجہ سراؤں کے کمرے تھے جن کے سامنے سے گذر کر ہی محلسرا میں داخل ہوسکتے ہیں جگہ جگہ بارہ دریاں بنی ہوئی ہیں اور خاص خاص مکانوں کی تعمیر کچھ اس طریقے سے کی گئی ہے کہ ان میں سے اکثر سے سمندر کا نظارہ ہو سکتا ہے،ایک بڑے صحن میں نہانے کا تالاب ہے جسکا سائز ایک اولمپک سوئمنگ پول سے کم نہیں بلکہ زیادہ ہی ہوگا،یہاں سلطان اپنی کنیزوں،باندیوں کے ساتھ وقت گذارتے تھے۔ باب السعادہ "دیوان ہمایوں " 15 ویں صدی میں سلطان سلیمان قانونی کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ دیوان ہمایوں میں ریاست کے سیاسی، انتظامی و مذہبی کے علاوہ شہریوں کے اہم معاملات پر گفتگو ہوتی تھی اور اس کا اجلاس ہفتے میں چار بار ہوتا تھا جس میں صدر اعظم، اناطولیہ اور رومیلیا کے منصفین اعلٰی شریک ہوتے تھے اور وہ مسائل کے حل سلطان کو پیش کرتے تھے۔ یہاں مقدمات کے فیصلے بھی ہوا کرتے تھے اور کبھی کبھار مفتی اعظم (شیخ الاسلام) بھی ان اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے۔ اجلاس کے دیگر شرکاء میں نشانچی (شاہی خطوط پر سلطان کی مہر ثبت کرنے کے ذمہ دار)، وزیر مالیات (دفتر دار)، وزیر امور خارجہ (رئیس الکتب) اور اجلاس کی کاروائی تحریر کرنے والے افراد شامل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سلطان کی صاحبزادیوں کی شادی کی تقاریب بھی یہی ہوتی تھیں۔ 18 ویں صدی میں اہم ریاستی معاملات کی "باب عالی" میں منتقلی کے باعث دیوان ہمایوں اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔ دیوان ہمایوں اور حرم کے درمیان بْرجِ عدالت واقع ہے جو محل کا سب سے بلند تعمیر ہے جو باسفورس سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اندرون کتاب خانہ اور احمد ثالث کتب خانہ نامی دو کتب خانے بھی محل میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ عثمانی دور کی تمام یادگاریں بشمول عثمانی سلاطین کی تصاویر، ان کے ہتھیار، استعمال شدہ اشیاء، خزانے، زیورات، نوادرات، تاج و تخت اور اس طرح کی دیگر نادر و نایاب اشیاء یہاں موجود ہیں۔ عثمانی سلطانوں کی پرائیویٹ زندگی کو ایک طرف رکھ دیں، تو ان کی حکمت عملی، دانشمندی اور امور حکومت میں قابلیت کی داد دینی پڑتی ہے اپنے عروج پر سلطنت عثمانیہ،ایشیا،یورپ اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر پھیلی ہوئی تھی یورپ کے کچھ ملک یا تو اس سلطنت کا حصہ تھے اور یا باجگزار ترکی سلطانوں نے دنیا کے کونے کونے سے نوادرات اکٹھی کرکے انہیں اپنے محلات کی زینت بنایا، آج وہی نوادرات اس عجائب گھر میں موجود ہیں۔ زیادہ تر نوادرات مصر سے آئیں جب سلطان سلیم نے سن 1516-17 عیسوی میں تمام مشرق وسطیٰ فتح کیا۔ محل کا باورچی خانہ، چمنیاں نمایاں ہیں محل کی ایک اور خاص بات یہاں موجود باورچی خانے ہیں جو ادرنہ کے شاہی محل کی طرز پر تعمیر کیے گئے تھے۔ ان میں سلطان سلیمان قانونی نے توسیع کروائی لیکن 1574ء کی آگ سے یہ تباہ ہو گئے جس پر شاہی معمار سنان پاشا نے ان کو جدید طرز پر تعمیر کیا۔ اور 20 چوڑی چمنیوں کی دو قطاروں کا اضافہ بھی کیا۔ یہاں سلطان، اس کے حرم اور محل اور اس کے باہر کے دیگر باسیوں کے لیے اشیائے خورد و نوش تیار کی جاتی تھیں جن کی تعداد کا اندازہ تقریباً چار ہزار ہے۔ باورچی خانے کا عملہ 800 سے زائد افراد پر مشتمل تھا جو مذہبی تہواروں کے موقع پر ایک ہزار سے بھی تجاوز کرجاتا تھا۔ یہاں دنیا کا سب سے تیسرا بڑا برتنوں کا ذخیرہ بھی موجود تھا۔ 17 ویں صدی کے اواخر تک توپ قاپی اپنی اہمیت کافی حد تک کھو بیٹھا تھا کیونکہ سلطان اپنا بیشتر وقت باسفورس کے کنارے واقع محلات میں گذارنے لگے تھے۔ 1853ء میں سلطان عبد المجید اول نے باقاعدہ طور پر اپنی رہائش گاہ باسفورس کے کنارے واقعے نو تعمیر شدہ دولما باغچی محل میں منتقل کر دی جو یورپی طرز کا تعمیر کردہ شہر کا پہلا محل تھا۔1921ء میں عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد 3 اپریل 1924ء کو ایک حکومتی فیصلے کے مطابق توپ قاپی محل کو ایک شاہی عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ محل اب وزارت ثقافت و سیاحت کے زیر انتظام ہے۔(یو این این)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں