وہ سابق امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی وفات کے بعد ۱۹۹۸ء میں امیر شریعت ہوئے تھے اور اس سے پہلے وہ ۱۹۶۴ء سے ناظم امارت شریعہ تھے یعنی سکریٹری تھے اور کاموں کی دیکھ بھال کرنے والے تھے، اور اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ مولانا منت اللہ صاحب کی وفات کے بعد نہ صرف یہی کہ وہ امیر شریعت ہوئے بلکہ آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری بھی منتخب ہوئے اور وہ ان دونوں امیر شریعت اور جنرل سکریٹری کے عہدوں پر تاحیات رہے اور اب ایک طویل علالت کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور انھوں نے اگلی ذمہ داری آئندہ آنے والوں پر ڈال دی، اللہ تعالیٰ اس کام کو جوامارت شریعہ کے ذمہ داراور اس کے نظماء اور اس کے امراء انجام دیتے رہے، مولانا سجاد صاحب کے زمانے سے لے کر اور پھر مولانا منت اللہ صاحب نے امیر شریعت کی حیثیت سے ایک بڑا دور گزارا،ان کی نمائندگی اور قائم مقامی مولانا نظام الدین صاحب نے بڑی حسن وخوبی کے ساتھ انجام دی اور امارت شریعہ سارے شعبوں کے ساتھ بڑے سلیقے سے کام کرتا رہا، اور ان کی سرپرستی اور نگرانی سے کام میں بڑی خوبی پیدا ہوئی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے انھوں نے بہت مشکل حالات میں بورڈ کے کاموں کو انجام دیا، بورڈ کی جو ذمہ داریاں ہیں اس کو انھوں نے بہت خوبی کے ساتھ پورا کیا، بورڈ کا کام چونکہ اس میں مختلف فرقوں اور مختلف جماعتوں کی نمائندگی ہے جن میں آپس میں خیالات کا اختلاف بھی ہوسکتا ہے، ظاہر ہے کہ مختلف لوگوں کی مختلف رائیں ہوتی ہیں ان سب کو لے کر ساتھ چلنا یہ خاصہ مشکل کام ہوتا ہے انھوں نے انجام دیا اور ماشاء اللہ اس پوری مدت میں کوئی ایسی پیچیدگی پیدا ہونے نہیں دی کہ جس سے بورڈ کے مقام کو اور اس کی حیثیت کو نقصان پہنچے بلکہ بورڈ اچھی شہرت کے ساتھ ان کی جنرل سکریٹری میں کام کیا، امید ہے کہ وہ جو راستہ بتاگئے اس راستے پر بورڈ بھی چلتا رہے گا اور امارت شریعہ کا بھی نظام بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔
مولانا کا ہمارے دار العلوم ندوۃ العلماء سے بھی بڑا تعلق رہا اور انھیں کا نہیں بلکہ امارت شرعیہ کا بھی بڑا ربط رہا، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی ہمارے مجلس انتظامی کے رکن رہے اور مولانا نظام الدین صاحب بھی ہماری مجلس انتظامی کے رکن رہے اور مجلس نظامت کے بھی رکن رہے، اور برابر ہمارے شوریٰ کے جلسوں میں آتے رہے اور ان کے مشوروں سے ہم لوگوں نے فائدہ اٹھایا، اب ہم ان کے نہ رہنے سے مشوروں سے محروم ہوئے، ان کا تعلق دارالعلوم دیوبند سے بھی بہت گہرا تھا، تعلیم بھی انھوں نے وہاں حاصل کی تھی اور اس کے بعد وہاں کے شوریٰ میں وہ رہے، عرصہ سے شوریٰ میں تھے، وہاں بھی وہ برابر پابندی سے جاتے تھے اور اپنے مشوروں سے لوگوں کو مستفید کرتے تھے، اس طریقے سے مولانا مختلف جہتوں سے ، مختلف لائنوں سے شریعت کی اور دین کی اور علم کی خدمت انجام دے رہے تھے۔
جہاں تک علم وادب کا تعلق ہے تو مولانا کا تعلق صرف علم ہی سے نہیں تھا بلکہ ادب سے بھی تھا اور وہ شاعری بھی کرتے تھے اور ان کے اچھے اشعار بھی ان کی بیاض میں ہوں گے،اور انھوں نے اپنے اشعار بعض وقت سنائے تو معلوم ہوا کہ شعری ذوق بھی ان کا اعلیٰ تھا ۔
ان سے میں اس زمانے سے واقفیت رکھتا ہوں جب کہ وہ ناظم امارت شریعہ تھے اور پھر جب وہ بورڈ کے جنرل سکریٹری ہوئے بہت زیادہ قریبی تعلق قائم ہوگیااور مشوروں میں ایک دوسرے کی رائے سے فائدہ اٹھانے میں مجھے ان سے مدد ملتی رہی، اور وہ بھی مجھ سے ربط رکھتے رہے اور بورڈ کی جو ذمہ داری ہے اس کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے، اس کی مجھے بہت قدر رہی، اور اسی قدر کو دیکھتے ہوئے میں ان کی وفات کو ایک خسارہ سمجھتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس خسارے کا بدل عطا فرمائے اور کام بہتر سے جلد انجام پائے۔
۱۹۲۷ء میں وہ پیدا ہوئے، یہ ۲۰۱۵ء ہے اس طریقے سے انھوں نے ۸۸سال کی عمر پائی اور عربی اور چاند کے اعتبار سے ۹۰ سال سے زیادہ کی عمر ہوئی، اور یہ عمر انھوں نے پوری محنت اورتوجہ کے ساتھ صرف کی، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ان کے جانشینوں کو اس بار کو اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ ان کو ان کی کارگزاریوں کا بہترین صلہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور مغفرت ورحمت سے ان کو نوازے ۔آمین
جواب دیں