تحریر: محمد طلحہ سیدی باپا بھٹکلی
اصل تاریخی بیانیہ کی ضرورت — شانتی پرکاشنا کا مؤقف
محمد کنہی نے اس موقع پر ’سوشل ڈیولپمنٹ آف انڈیا اینڈ مسلمز‘ کے کنڑا ترجمے کی رسمِ اجرا کا اعلان کیا۔ یہ کتاب اصل میں ملیالی زبان میں کے۔ ٹی حسین نے تحریر کی تھی جبکہ کنڑا ترجمہ عرفہ منچی (ایسوسی ایٹ ایڈیٹر، سنمارگ) نے کیا ہے۔
انہوں نے کہا:
“یہ کتاب محض ایک تصنیف نہیں، یہ تاریخی ضرورت ہے۔ اس کے دلائل 1858 سے 1947 تک شائع ہونے والی سو سے زائد مستند تاریخی کتب پر مبنی ہیں۔”
ساحلی کرناٹک جیسے حساس ماحول میں اس کتاب کا کنڑا ترجمہ سامنے آنا خود ایک جرات مندانہ اقدام سمجھا جا رہا ہے ۔ اس جرآت مندانہ قدم کے لئے شانتی پرکاشنا مبارکباد کی مستحق ہے ۔
“تاریخ روشنی ہے، گرد نہیں” — ڈاکٹر پُرشوتّم بلیمالے
کلیدی خطبہ ڈاکٹر پُرشوتّم بلیمالے (چیئرمین، کنڑا ڈیولپمنٹ اتھارٹی) نے دیا۔ ان کا افتتاحی جملہ پوری فضا پر حاوی رہا:
“تاریخ ہمارے لیے گردِ راہ نہیں بلکہ زندگی کا چراغ ہے۔”
انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان کی سماجی تشکیل — ذات پات کے نظام میں تبدیلیاں، طب، تعمیرات، فنون، زبان — سب کچھ مسلمانوں کے اثرات کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا:
“اسلام مذہبی قوت بن کر نہیں، سماجی قوت بن کر ہندوستان آیا۔ ذات پات کے ظلم سے نجات چاہنے والوں نے اسلام کو سینے سے لگایا۔ اسے صرف تبدیلی مذہب کہنا تاریخ سے زیادتی ہے۔”
انہوں نے این سی ای آر ٹی سے مسلم عہد کے اخراج پر سخت تشویش ظاہر کی:
“تاریخ مٹانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں، کمزور ہوتی ہیں۔”
ڈاکٹر رام پنیانی — نفرت کی دیواروں کو توڑنے کی اپیل
معروف مؤرخ ڈاکٹر رام پنیانی نے کہا کہ نظریاتی گروہ تاریخ کے چند واقعات کو توڑ مروڑ کر ایسی “نفرت کی دیواریں” کھڑی کرتے ہیں جن کے پیچھے سچائی چھپ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا:
’’ااورنگزیب نے اگر دس مندروں کو نقصان پہنچایا تو سینکڑوں کی سرپرستی بھی کی۔ کشمیر کے ہرس دیو Harshadeva نے سب سے زیادہ مندر توڑے۔ تاریخ کو ایک رخ سے پیش کرنا نفرت کی سیاست ہے۔‘‘
انہوں نے وضاحت کی کہ قرونِ وسطیٰ میں مندروں کے انہدام کی وجہ مذہب نہیں بلکہ دولت تھی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ:
’’محمود غزنوی نے سومناتھ کا خزانہ لوٹا مگر ملتان کی جامع مسجد بھی توڑی۔ اس کے بارہ جرنیلوں میں پانچ ہندو تھے۔‘‘
ڈاکٹر پنیانی نے یہ بھی کہا کہ آج نفرت پھیلانے والے وہی گروہ ہیں جن کا آزادی کی جدوجہد میں کوئی حصہ ہی نہ تھا۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ نئی کتاب کے مواد کو مختصر ویڈیوز اور عوامی سطح کے مواد کی شکل میں عام کیا جائے تاکہ نوجوانوں تک اصل حقائق پہنچ سکیں۔
مشترکہ عسکری تاریخ — ایک نظر انداز شدہ حقیقت
ڈاکٹر پنیانی نے بتایا کہ تاریخ کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ:
’’مسلمان سپاہی ہندو راجاؤں کی فوجوں میں بھی تھے اور ہندو سپاہی مسلم سلاطین کی افواج میں بھی—اور بڑی تعداد میں تھے۔‘‘
یعنی ہندوستان کی عسکری تاریخ بھی مشترکہ ہے، تقسیم شدہ نہیں۔
پروفیسر سید عقیل احمد — علم و تحقیق کی دعوت
تقریب کے رسمی افتتاح میں پروفیسر سید عقیل احمد (بانی وائس چانسلر، ینے پویا یونیورسٹی) نے کہا:
’’اگرچہ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کا اثر کم دکھائی دیتا ہے، مگر علم، ٹیکنالوجی، طب، فنون اور تہذیب میں ان کی تاریخی خدمات بے مثال ہیں۔‘‘
انہوں نے نوجوانوں کو تحقیق، تاریخ نویسی اور علمی میدانوں میں آگے آنے کی دعوت دی۔
عبدالسلام پپتیگے — موجودہ کردار سب سے اہم
جلسے کی صدارت کرتے ہوئے عبدالسلام پتیگے(ایڈیٹر اِن چیف، واردتا بھارتی) نے کہا کہ کسی قوم کی حیثیت اس کے موجودہ کاموں سے طے ہوتی ہے، نہ کہ صرف اس کے ماضی سے۔انہوں نے کہا’’اگر ایک خاندان کا فرد صرف اپنی طرف کے احسانات گنوائے تو خاندان بٹ جاتا ہے۔ قوموں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔‘‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تبدیلی مذہب کی بحث بھی سیاسی ہے:
’’ہندوستان کے بادشاہ ہمارے آبا نہیں—اس دھرتی کے قدیم باشندے ہمارے آبا ہیں۔ ڈی این اے اس کی گواہی دیتا ہے۔ اگر تبدیلی مذہب زبردستی ہوتی تو نسلیں واپس کیوں نہ پلٹتیں؟ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا:
’’اسلام میں بادشاہت، اجارہ داری اور ہر قسم کا ’مونوپولی‘ ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ عوام کے درمیان رہتے تھے، حاکم نہیں تھے۔‘‘
وقت کی ضرورت — ایک اہم کتاب اور ایک اہم سیمینار
کتاب Social Development of India and Muslims، 1858 سے 1947 تک کے سماجی ارتقاء کا محققانہ جائزہ پیش کرتی ہے—ایک ایسا دور جس کی سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسے یا تو چھپایا جاتا ہے یا یک رخا بنا دیا جاتا ہے۔
نصاب سے مسلم تاریخ کے اخراج کے اس ماحول میں یہ کتاب اور یہ سیمینار دونوں وقت کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔
اس کتاب کا ترجمہ فوراً انگریزی اور ہندی میں بھی ہونا چاہیےتاکہ نو عمر نسل مسلم نوجوان اور وسیع تر سیکولر سماج اصل تاریخ تک رسائی حاصل کر سکے۔
جب تاریخ کو بدلنے کی کوششیں زور پکڑ رہی ہوں، ایسے وقت میں مستند علمی ترجمے ایک اخلاقی فرض بن جاتے ہیں۔
تاریخ سب کی مشترکہ میراث ہے
سیمینار اس پیغام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ہندوستان کی تاریخ کسی ایک قوم کی جاگیر نہیں، یہ سب کی سانجھی وراثت ہے۔
جیسے ڈاکٹر بلیمالے نے کہا:
’’تاریخ کو گرد نہ بننے دیں—اسے روشنی بننے دیں۔‘‘
اب ذمہ داری اہلِ علم، اساتذہ، محققین، مترجمین اور انصاف پسند شہریوں پر ہے کہ وہ اس روشنی کو سنبھالیں… اور اسے آنے والی نسلوں تک پہنچائیں، اس سے پہلے کہ یہ دھندلا جائے۔
