قبل اس کے کہ وہ آگے کچھ ارشاد فرمائیں نمازیوں میں سے ایک بندہ کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ نہ سنیں گے اور نہ اطاعت کریں گے کیونکہ مالِ غنیمت میں سے ہم سب کو ایک ایک کپڑے کا ٹکڑا ملا ہے اور امیرالمومنین کے جسم پر دو ٹکڑے ہیں۔ (حضرت عمرؓ ڈیل ڈول والے تھے) خلیفۃ المسلمین نے یہ حکم نہیں دیا کہ یہ کون بدتمیز ہے اسے مسجد سے نکال دو۔ بلکہ اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے کھڑے ہوکر جواب دیا کہ اس میں ایک ٹکڑا میرا ہے جو میں نے اپنے والد کو ہدیہ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کی خلافت کے ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کی طرف گاندھی جی توجہ دلانا چاہتے ہوں گے۔
اُترپردیش میں صوبائی کانگریس کی صدارت کا الیکشن ہورہا تھا۔ مقابلہ سی بی گپتا اور منیشور دت اُپادھیائے کے درمیان تھا جنہیں وزیر اعلیٰ سمپورنانند اور پنڈت نہرو کی حمایت حاصل تھی۔ سمپورنانند نے مسلمان ووٹوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حافظ ابراہیم اور شاہ نواز (دونوں مرکزی وزیر) کو بلایا۔ کسی نے گپتا جی کو خبر کردی وہ مہمان خانے گئے اور دونوں وزیروں سے کہا کہ یہ صوبہ کا الیکشن ہے۔ آپ میرے مسلمان ووٹ توڑنے آئے ہیں بہتر ہوگا کہ اس وقت واپس چلے جائیں اور پنڈت نہرو سے کہہ دیں کہ وہ جو زبان سمجھتے ہیں میں اس میں بھی ان سے بات کروں گا۔ یہ واقعہ ہے کہ دونوں چلے گئے اور گپتا جی تین ووٹ سے جیت گئے۔ پنڈت نہرو نے یقیناًسیرت فاروق اعظم پڑھی تھی۔ اس لئے انہوں نے سمپورنانند سے کہا کہ ’’چونکہ تم نے اعلان کردیاتھا کہ اگر سی بی گپتا جیت گئے تو میں استعفیٰ دے دوں گا‘‘ اس لئے استعفیٰ دے دو اور سی بی گپتا پنڈت نہرو کی سخت مخالفت کے باوجود صدر بھی بنے اور وزیر اعلیٰ بھی۔
پنڈت نہرو جب شاہ سعود کے زمانہ میں ان سے ملنے کے لئے گئے تو اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو بھی ساتھ لے گئے۔ شاہ کے احترام میں اندراجی کے بلاؤز پوری آستین کے بنوائے اور تاکید کی کہ سر ڈھکے رہنا اور ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ نہ بڑھانا۔ سفر بہت کامیاب رہا شاہ نے اندراجی کو سونے چاندی اور ہیروں کے زیورات تحفہ میں دیئے۔ اندراجی نے اسے اپنی ملکیت سمجھا پنڈت نہرو نے کہا کہ یہ سب سرکاری خزانہ میں جمع ہوگا۔ اسی زمانہ میں شور ہوا تھا کہ زبردست اختلاف کے بعد اور اندراجی کی ناگواری کے بعد وہ سرکاری خزانہ میں جمع کردیا گیا۔ اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ اندرا گاندھی نے سیرت فاروق نہیں پڑھی ہوگی۔ پھر وہ جب شاستری جی کے اچانک انتقال کے بعد وزیر اعظم بن گئیں تو انہوں نے وہ سب کیا جس کا فاروق اعظم تو کیا، نہرو کی بھی بو باس سے کوسوں دور تھا۔
یہ اندراجی کی ہی حکمرانی تھی جس میں کسی صوبہ کے وزیر اعلیٰ کو تین برس سے زیادہ اس کے عہدہ پر نہیں رہنے دیا۔ کسی بھی سبب کے بغیر اسے بدل دیا اور پھر جسے بنایا اسے بھی تین سال کے بعد باہر کا راستہ دکھادیا تاکہ اس کی جڑیں زمین نہ پکڑنے پائیں اور یہ تو آخری درجہ کی بات تھی کہ جب ہیم وتی نندن بہوگنا وزیر اعلیٰ تھے تو چودھری چرن سنگھ نے سوشلسٹ لیڈر راج نرائن کو راجیہ سبھا لڑانے کا فیصلہ کیا اور 34 ممبران اسمبلی ان کے کوٹہ میں رکھے۔ نیتاجی نے کہا کہ اندرا گاندھی نیے ایک سرمایہ دار کو نوٹوں کا سوٹ کیس لے کر بھیج دیا ہے جو صرف میرے ووٹ خریدکر مجھے ہرائے گا اور نوٹوں میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ ہم ذاتی تعلق کے بل پر کہہ سکتے ہیں کہ چودھری چرن سنگھ اس طرح کی بے ایمانی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ صرف ایک آدمی کو ہرانے کے لئے کروڑوں روپئے پھونک دیا جائے۔ چودھری صاحب نے بہوگنا جی سے کہا کہ راج نرائن کے لئے کھلی ووٹنگ کی اجازت دے دی جائے۔ بہوگنا جی کے مقابلہ میں چودھری صاحب اور راج نرائن دونوں سیاسی طور پر قابل احترام تھے۔ انہوں نے مجبور ہوکر یہ مطالبہ تسلیم کرلیا اور راج نرائن ایم پی ہوگئے۔
بہوگنا جی بھول گئے تھے کہ انہیں کس نے وزیر اعظم بنایا ہے؟ اور وہی ہوا کہ دو ہفتے کے بعد دہلی سے بلاوا آیا۔ بہوگنا جی اندراجی سے ملے، صوبہ کے مسائل پر بات ہوئی، چائے پی گئی اور ایک گھنٹہ کے بعد جب بہوگنا جی رخصت لے کر اُٹھے تو اندراجی نے کہا کہ ’دھون سے ملتے جائیے گا۔‘ وہ جی اچھا کہتے ہوئے باہر آئے۔ دھون صاحب نے بھی رسمی باتیں کرنے کے بعد کہا کہ میڈم نے کہا ہے کہ استعفیٰ دیتے جایئے گا! بہوگناجی اُچھل پڑے اور کہا کہ ذرا بات کراؤ۔ دھون نے کہا کہ اب وقت نہیں ہے۔ بہوگنا جی تین دن دہلی میں پڑے رہے۔ لکھنؤ سے بابو ترلوکی سنگھ کو سفارش کے لئے بلوایا لیکن یہ قصور معاف نہیں ہوا کہ راج نرائن کو ممبر راجیہ سبھا کیوں بننے دیا؟
سنجے گاندھی نے جب ماروتی سزوکی کارخانہ لگانے کی خواہش کی تو ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بنسی لال کسریٰ کھتونی کے بنڈل لے کر دربار میں آگئے کہ جو زمین شاہ زادے کو پسند ہو جتنی پسند ہو وہ حاضر ہے اور کوڑیوں کے مول انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ملی ہوئی سیکڑوں ایکڑ زمین دے دی گئی۔ اور فیکٹر کے لئے جتنی لوہے کی چادروں کی ضرورت تھی یا دوسرے سامان کی اس کے وزیر پرمٹ کی کاپی لئے سنجے کے آگے پیچھے گھوم رہے تھے۔ پارلیمنٹ میں جب ہنگامہ ہوا تو اندراجی نے جواب دیا تھا کہ اگر وزیر اعظم کا بیٹا ملک کے ایک بے روزگار نوجوان کی طرح کوئی سستی کاروں کا کارخانہ لگانا چاہے تو کیا اسے زمین یا لوہے کا پرمٹ نہ دیا جائے؟ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب بنسی لال سے اس وقت اتنی حساس اور جتنی زمین سنجے کو دینے پر ان کے ساتھی کانگریسیوں نے اعتراض کیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ گائے کو قابو میں کرنا ہو تو بچھڑے کو کھونٹے سے باندھ لو اور میں نے یہی کیا ہے۔ پھر بنسی لال نے جو وزیر اعظم سے لیا اسے پورا ہریانہ جانتا ہے۔
اتنی لمبی تمہید اس لئے باندھنا پڑی کہ آج ہریانہ اور راجستھان میں اپنے آراضی سودوں کی انکوائری کا سامنا کررہے رابرٹ واڈرا نے کہا ہے کہ وہ سیاسی انتقام کا موضوع بن گئے ہیں۔ اور ان کا سیاسی اوزار کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ جبکہ انہیں کسی دوسرے کاروبار کرنے والوں کی طرح لیا جانا چاہئے تھا اور اسی بات کو ان کی بیوی پرینکا کے خاندان سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ واڈرا نے کہا کہ جب بھی بی جے پی لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے ایک سیاسی اوزار کے طور پر ان پر حملے کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت وہی کررہی ہے جو ہر حکمراں سابق حکمراں کے ساتھ اس لئے ڈر ڈر کر کرتا ہے کہ اگر اگلی بار اس کی حکومت ہوگئی تو وہ ہماری کھال اتارے گا۔ ہر ہندوستانی کو شکایت ہے کہ انہوں نے کانگریس کو 44 سیٹوں تک محدود کرنے میں جن باتوں کی وجہ سے کانگریس کو سزا دی تھی ان میں ایک اہم بات یہ بھی تھی کہ شاہی داماد کے آگے پیچھے ہر کانگریسی وزیر اعلیٰ ذاتی ملازموں کی طرح گھومتا تھا۔ ہر اس سیاسی ذہن رکھنے والے کو جو ٹی وی خبروں کے لئے دیکھتا ہے یاد ہوگا کہ ہریانہ کی جس زمین کی طرف اشارہ کردیا وہ وزیر اعلیٰ نے پلیٹ میں رکھ کر انہیں پیش کردی اور راجستھان کی جس زمین پر واڈرا نے پاؤں رکھ دیا وہ ان کے کھاتے میں لکھ دی گئی۔
ہم حیران ہیں کہ وہ جو ایک رات میں 50 لاکھ کے تین سو کروڑ ہوجانے کی واڈرا کی جادوئی کہانیاں مودی صاحب انتخابی تقریروں میں سنایا کرتے تھے اور ہم سب سوچ رہے تھے کہ مودی سرکار آتے ہی واڈرا جیل میں ہوں گے انہیں تو ابھی تحقیقاتی کمیشن نے طلبی کا نوٹس بھی نہیں بھیجا؟ اور ان کے ساتھ بھی مودی اسی پیار اور محبت کا سلوک کررہے ہیں جو سیکڑوںٰ داغی ممبرانِ پارلیمنٹ کے ساتھ کررہے ہیں کہ وہ بس حمایت کرتے رہیں اور اپنی زندگی میں جو چاہیں کریں۔
رابرٹ واڈرا کے متعلق سونیا کی حکومت ہونے کے باوجود ٹی وی چینلوں نے دکھایا اور اخبارات نے چھاپا اگر وہ غلط ہوتا تو سب کے ہتھکڑی لگ گئی ہوتی۔ لیکن اس کم عقل داماد کو یقین تھا کہ شور چاہے جتنا مچے، ہوگا کچھ نہیں اس لئے کہ ایسے سودے قانون کی اتنی باریک چھلنیوں میں چھان کر کئے جاتے ہیں کہ اسے کسی بھی عدالت میں لے جائے اپنا ہی منھ کالا ہوگا۔ اندرا گاندھی نے وہ نہیں کیا جو اُن کے باپ نے کیا تو پھر نہرو کے نواسے وہ کیوں کرتے جو نانا نے کیا تھا؟ انہوں نے وہ کیا جو ماں نے کرکے دکھایا۔ پرینکا نے اپنے شوہر سے وہ کرایا جو اُن کی دادی نے کیا تھا۔ رابرٹ واڈرا نے وہ کیا جو سنجے نے کیا تھا۔ یہ سنجے کی قسمت تھی کہ وہ ماں کے اقتدار کے دَور میں ہی دنیا چھوڑ گئے اور یہ رابرٹ کی بدقسمتی ہے کہ وہ ذلیل ہورہے ہیں لیکن اطمینان رکھیں کہ ان کا بگڑے گا کچھ نہیں اس لئے کہ اس ملک میں 30 اور 40 برس بھی مقدمے چلتے رہتے ہیں تحقیقاتی کمیشن بابری مسجد کا ہو یا ممبئی میں مسلمانوں کے قتل عام کا 25 برس پھنسنا تو عام بات ہے جس مسئلہ کو ٹھنڈے بستہ میں ڈالنا ہو اس کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنا دیا جاتا ہے۔ اور یہی مودی نے کیا کیونکہ انہیں 2019 ء نظر آرہی تھی۔ اس کے بعد ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ اور بعد میں صدر جمہوریہ۔ اور اس وقت تو کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ زمین کتنی تھی کتنے کی تھی اور کتنے میں ملی تھی؟؟؟ بس ساڑھے تین سال واڈرا سیاسی اوزار ضرور بنے رہیں گے یہ وہ بدنامی ہے جو سیاسی فائدے اُٹھانے والوں کے لئے عام بات ہے اور اس پر ماتم کرنا بچپن ہے۔
جواب دیں