ہرچند کہ سنہ 2014کے پارلیمانی انتخاب میں نریندرمودی نے ترقیاتی ایجنڈے کو ہی اپنی مہم کا مرکزی موضوع بنایا تھا، عوا م نے خوشحالی کی آس میں ان کوووٹ دیا تھا۔ نہ کہ مہنگائی اور غیر فطری تنازعات کی مار جھیلنے کے لئے۔ چنانچہ ان کا فرقہ ورانہ چہرہ چھپا رہا۔ لیکن بہار کے چناؤ میں ان کی پارٹی کے صدر اورخود وہ اپنے اصلی رنگ میں نظر آئے ۔ صدرجمہوریہ ، ممتاز دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں، بیرونی مشاہدوں، بشمول امریکی صدر کی تنبیہ اور نصیحت کے باوجودیہ دونوں لیڈر ایسی باتیں کہتے رہے، جو ان کی فکر میں ایک مخصوص طبقے کے لئے گہرے تعصب ، نفرت، ناانصافی اور عدم برداشت کو آشکار کرتی ہیں۔ جس ملک کا وزیراعظم ،نعرہ لگائے ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘ اورانتخابی مہم میں مذہب کی بنیاد پررائے دہندگان کوتقسیم کرے، اسی فیصدکی عظیم اکثریت کودیگر اقلیتوں کے خلاف محاذ آرا کرے ،اس ملک کے بہی خواہوں کو یقیناًتشویش میں مبتلا ہونا ہی چاہئے۔
آخر کی اپنی چند انتخابی ریلیوں میں انہوں نے ایک اورخطرناک کھیل کھیلا ہے اور وہ ہے پسماندہ ہندو طبقات کو غیرہندو اقلیتوں کے خلاف اکسانے کا۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے دبے کچلے ایس سی، ایس ٹی اوردلت طبقوں کو اس تاریخی حقیقت سے باخبرکریں کہ ان کی حالت زار کے لئے اسلام اورمسلمان یا عیسائیت ذمہ دار نہیں، وہ برہمن وادی ذہنیت ذمہ دار ہے ،جس کے امت شاہ اورمودی ترجمان ہیں۔ دلت بھائیوں کو بتادیجئے کہ وہ تمہارے ہونہیں سکتے اور ہم اپنے دینی اصولوں کی بنیاد پر تم کو کھو نہیں سکتے۔ ہمارادین ذات برادری کی بنیاد پر تفریق نہیں سکھاتا، یہ جو عیب ہمارے اندر کچھ آگیا ہے ،وہ بھی اسی نظام کی بدولت ہے جس کی پیروی سنگھ پریوارکررہا ہے ۔ کثیر تعداد میں مصنفوں، دانشوروں اوردیگرممتاز شخصیات جس طرح اس عفریت کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں اس سے یقیناًڈھارس بندھتی ہے۔ دانائی کا تقاضا ہے کہ ہمارے کسی قول یا فعل سے فرقہ ورانہ تقسیم کے محرکات کو تقویت نہ پہنچنے پائے۔
اپنی آخر کی ریلیوں میں مودی نے دیگر پسماندہ طبقات اورایس سی؛ ایس ٹی کو یہ کہہ کر ورغلانے کی کوشش کی ہے کہ سیکولر محاذ ان کے رزرویشن کے کوٹے کو کاٹ کر مذہبی اقلیت کودینے کی سازش کررہا ہے۔ انہوں نے نتیش کمار کی ایک تقریر کے حوالے سے کہا، میرے پاس دستاویز موجود ہے ، انہوں ٹھیک یہ کہا تھا: ’’دلتوں، مہادلتوں، آدی واسیوں، اوبی سی، ای بی سی کے کوٹے سے پانچ پانچ فیصد کاٹ کر اقلیتی فرقوں کو دیدیا جائے۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
مسٹرکمار نے یہ تقریر جس کا حوالہ دیا گیا ہے، 24اگست 2005 کو لوک سبھا میں کی تھی۔اس کا رکارڈ ظاہر کرتا ہے مودی جی نے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا ۔یہ پوری بحث انٹرنٹ پرموجود ہے۔ مسٹر نتیش کمار نے ، جواس وقت بی جے پی کے اتحادی تھے ، کیا کہا تھا: ’’اس ملک میں مذہب تبدیل کرلینے سے کسی شخص کی ذات نہیں بدل جاتی۔ یہی بات باپو جی نے بھی کہی تھی۔ یہ معاملہ ہمارے مسلمان اورعیسائی بھائیوں سے متعلق ہے۔ جس طرح ہندوؤں میں ایس سی؍ ایس ٹی ہیں، اسی طرح ایس سی ایس ٹی ان میں بھی ہیں۔ لیکن ان کو ایس سی ؍ایس ٹی کا کوئی فائدہ نہیں ملتا ، جو کہ غیرمنصفانہ ہے۔ ان پر ہر طرف سے ظلم ہوا ہے۔ وہ بھی وہی پیشے کرتے ہیں، مسلمانوں میں بھی اسی طرح کی ذاتیں ہیں۔اس لئے میں یہ گزارش کروں گا کہ دیگر مذاہب کے دلتوں کو بھی ایس سی؍ ایس ٹی میں شمارکیا جائے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، انصاف کا تقاضا ہے کہ اس پرتوجہ دی جائے۔‘‘
بحث کا آغاز کرتے ہوئے اس وقت بھاجپا پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی اسپیکرپروفیسروجے کمارملہوترہ نے بھی’’سماجی انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے قانو ن سازی کے حق ‘‘ کی پرزوروکالت کی تھی اور یہ بھی کہا تھا:’’ مذہب کی بنیاد پرریزرویشن آئین کے منافی ہے۔‘‘
دراصل یہی بات نتیش کمار نے کہی تھی اوربشمول کل ہند مسلم مجلس مشاورت،جمعیۃ علماء ہند، ملی کونسل ، جماعت اسلامی ، جمعیت اہل حدیث وغیرہ تما م اقلیتی نمائندے یہی کہتے ہیں کہ ایس سی، ایس ٹی ریزرویشن میں مذہب کی بنیاد پر غیرہندوؤں کی عدم شمولیت آئین کے منافی ہے۔ اس کو درست کیا جائے۔ مودی جی نے اس بات کو جس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اس سے ان کی نیت اورارادہ صاف ہوگیا۔ کہتے ہیں سب کا ساتھ، عدم رواداری اورتعصب سے بچو، مگر بیچ اسی کا بوتے پھرتے ہیں۔
الٹی گنتی شروع
بہار کے نتائج کا انتظارضرور ہے۔ لیکن نوشتہ دیوار صاف پڑھا جاسکتا ہے۔ مودی کا جو جادو 2014 میں عوام کے سر چڑھ کر بولاتھا، اس کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ دہلی اسمبلی کے چناؤ میں جو ہوا وہ دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی اترپردیش میں بلدیاتی چناؤ ہوئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ بھاجپا کی حالت بہت خراب ہے۔ اورتواور وزیراعظم کے حلقہ انتخاب بنارس کے تحت آنے والی 48سیٹوں میں سے بھاجپا کو صرف 8ملی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے مودی جی کا گودلیا ہواجیاپور جس بلاک (آراضی لائن) کے تحت آتا ہے، اس میں بھی پارٹی امیدوار کی کراری شکست ہوئی ہے۔بہار کی ایک ریلی میں مودی جی نے لداخ کے بلدیاتی چناؤ میں کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے دعوا کیا تھا کہ اس کا اثر بہار میں بھی ہوگا۔ لیکن کیا جائے کہ یوپی سے بہار قریب ہے جب کہ لداخ کا علاقہ دوردراز ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ پارٹی کا یہ حشراس لئے ہوا کہ ٹکٹ فروخت کئے گئے۔لیکن اصل بات تہ یہی ہے عوام کو ا جو سنہرے سپنے دکھائے گئے تھے وہ بکھرچکے ہیں اورمہنگائی کی مار نے عوام کی کمر توڑڈالی ہے۔ اس لئے مودی جی کی کشش ختم ہوگئی ہے۔کچھ یہی صورتحال مہاراشٹرا کی کلیان ڈوبیولی کے بلدیاتی چناؤ میں بھی ہوئی ہے جہاں بھاجپا کو شیوسینا نے پچھاڑ دیا ہے۔
نیپال سے تعلقات کشیدہ
مودی جی نے وزیراعظم کی حلف برداری کے موقع پر پڑوسی ممالک کے سربرہان حکومت کو مدعو کرکے ایک اچھا تاثردیا تھا۔ مگر ہروہ اچھا تاثر جو انہوں اس منصب پر فروکش ہونے سے پہلے دیا تھا، اب کافور ہوتا جاتا ہے۔ پاکستان سے رشتے دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ مذاکرات کا عمل بلاوجہ معطل کردئے جانے کا منفی اثریہ ہوا ہے کہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردانہ وارداتیں پیش آرہی ہیں۔ ادھر نیپال سے بھی، جو ہند کا قریبی حلیف اور دوست رہا ہے، تعلقات میں ناچاقی پیدا ہوگئی ہے اور چین اس کا فائدہ اٹھارہا ہے۔ پاکستان کا معاملہ تو مختلف کہا جاسکتا ہے، نیپال سے رشتے کیوں خراب ہوئے، حالانکہ اس کے ساتھ نہ کوئی علاقائی تنازعہ ہے اورمذہبی اجنبیت ؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اورکیا ہے کہ حکومت ہند پڑوسی ممالک کے داخلی معاملات میں غیرمحتاط انداز سے مداخلت کرتی ہے ، جیسا کہ نیپال کے آئین پراختلاف سے ظاہر ہوا۔وزیراعظم کے پی شرما اولا نے جس پر برسر عام احتجاج کیا ہے اورہندکو خبردارکیا ہے جس آئین پراس کواعتراض ہے اس کو ملک کے منتخب نمائندوں نے 96فیصد سے زیادہ اکثریت سے پاس کیا ہے۔ بیشک ہند کو پڑوسی ممالک کے اقتداراعلا کا احترا م کرنا چاہئے۔ اگرکوئی مشورہ دینا بھی تھا سفارتی ذرائع موجود ہیں۔ میڈیا میں کیوں اچھالا گیا اورسیاست کیوں کی گئی؟ یہ بات سمجھ لینی چاہئے بین اقوامی معاملات میں 56انچ کی چھاتی اورتنگ نظری سے راہ نہیں نکلتی ۔ دوراندیشی ، کشادہ دلی ، نظریہ وسیع ہو تو کام بنتا ہے۔ پاکستان کے معاملہ میں مودی جی نے اگرواجپئی حکومت کی پالیسی اختیارکی ہوتی تو معاملات بگڑنے کے بجائے بہتر ہوسکتے تھے۔ گیتا کی واپسی سے خیرسگالی کا جوماحول بنایا جاسکتا تھا اس سے بھی گریز کیا گیا ۔ اوپر سے یہ حماقت کی گئی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا عندیہ معلوم کئے بغیر ایک کروڑ روپیہ عطیہ کا اعلان کردیا تھا جس کی عدم قبولیت سے بلاوجہ شکررنجی پیدا ہوئی۔ ان پہلوؤں پر توجہ مطلوب ہے۔
گورنر گجرات کا مشورہ
گجرات کے گورنر او پی کوہلی صاحب نے 2؍نومبر کو احمدآباد میں ان مسلم بچوں کوانعامات تقسیم کئے جنہوں نے بورڈ کے امتحان میں 75فیصد یا اس سے زیادہ نمبرات حاصل کئے ۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشگوارمسرت ہوئی کہ اکیلے احمدآباد میں ان مسلم بچوں اوربچیوں کی تعداد450 سے اوپر ہے ۔ان میں حسب معمول بچیوں نے بازی مارلی ہے۔اس میرٹ کو حاصل کرنے والے لڑکوں کی تعداد تو 150ہے جبکہ لڑکیوں کی ان سے دوگنی یعنی 300 ہے ۔ہم ان طلباء وطالبا ت کو، ان کے ورثاء اور اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس انتباہ کے ساتھ کہ امتحان میں نمبر لے آنا بہت اچھی بات ضرور ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ان میں لیاقت اورخوداعتمادی بھی اسی درجہ کی پیدا ہو۔ وہ مذہب کے نام پر تنگ نظری سے تو بچیں ، جس کی نصیحت گورنر صاحب نے بھی کی ہے، لیکن دینی اقدار پاکاربند نہ ہونگے تو ان کا تعلیم یافتہ ہونا نہ ہونا برابر ہے۔
اس موقع پر پروفیسر کوہلی نے کچھ قابل قدر باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا مذہبی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی اہم ہے اورکوئی وجہ نہیں کہ مسلم قوم میں مولاناآزاد اور ڈاکٹرذاکرحسین جیسے لائق افراد اب پید ا نہ ہوسکیں۔ وہ بنیادی طور سے سنگھی ہیں ۔دہلی بھاجپا کے صدراورراجیہ سبھا میں اس کے رکن رہ چکے ہیں۔ مگراحمدآباد میں بیٹھ کرانہوں نے یہ کہنے کا حوصلہ بھی کیا :
147No matter what is one146s religion
جواب دیں