سیاسی دنگل میں کیسے ہوگا مسلمانوں کا منگل؟

 

 

پرینکا گاندھی کا سیاست میں داخلہ موروثی سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے 

 

احساس نایاب

 

سننے میں آرہا ہے کہ سیاسی دنگل میں پرینکا گاندھی کی انٹری سے منگل ہی منگل ہونے کے امکانات ہیں، آخر اس سوچ میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن جہاں تک سیاسی داؤ پیچ کو لیکر جو تبصرے کئیے جارہے ہیں اُس کے مدنظر ایسا لگ رہا ہے کہ بنا انتخابات کے ہی کانگریس نے ہندوستان فتح کرلیا ہے، کیونکہ جب گاندھی خاندان کی پانچویں پیڑھی پرینکا گاندھی کو کانگریس کا جنرل سیکریٹری بنایا گیا اور اترپردیش کی کمان اُن کے ہاتھ میں سونپی گئی اُسی پل سے کانگریسیوں کے تمبو میں ڈھول نقارے بجنے شروع ہوگئے جس میں کانگریس کے وفادار، نمک حلال کارکنان مداری بنکر ڈمرو بجارہے ہیں اور ہم بھاجپا سے پریشان عام انسان بندروں کی طرح خوش ہوکر گلاٹیاں مار رہے ہیں جیسے کہ پرینکا گاندھی کا سیاست میں قدم رکھنا ہی بہت بڑا چمتکار اورانہونی ہے جس سے ہندوستان کی عوام کا کلیان ہوجائیگا اور سالوں سال یعنی آدھی صدی سے جتنے بھی مسائل التوا میں تھے وہ سارے پلک جھپکتے ہی حل ہوجائیں گے، بھکمری، بےروزگاری، کسانوں کی خودکشی، موب لینچنگ ان سبھی کا خاتمہ ہوجائیگا اور تمام بےگناہ مسلم نوجوانوں و جنسی استحصال سے دو چار خواتین کو انصاف مل جائیگا، شاید یہی وجہ ہے کہ جدھر دیکھو خوشیاں منائی جارہی ہیں، لیکن عجیب سوچ ہے ابھی انتخابات جیتے نہیں ابھی ملک کے حالات بدلے نہیں، عام شہری کو اُس کے حقوق ملے نہیں اور جشن کی شروعات کرنا بے شعوری کی علامت ہے اس پہ حد تو یہ ہے کہ ہر کوئی تعریف کے پل باندھ رہا ہے تو کوئی شیرنی کے خطاب سے نواز رہا ہے اور تو اور ان میاں مٹھو میں ہمارے چند مسلم بھائی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، آخر پیچھے رہینگے بھی تو کیسے جبکہ کانگریس تو انکی منہ بولی ماں جیسی ہے، تبھی کانگریس کو مسلمانوں کی ہمدرد کہتے ہوئے پورے 72 سالوں سے وفاداری نبھائی جارہی ہے بدلے میں بھلے بےعزتی، ذلت ہی کیوں نہ ملے بارہا ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کر پھینکا کیوں نہ جائے باوجود اس کے لگاتار پانچ پیڑھیوں سے ہندوستان کا ہر عام و خاص مسلمان کانگریس کی حمایت، تائید میں کھڑا نظر آئیگا، کانگریس کو جتانا اپنا عین فرض مانتے ہوئے جی توڑ کوشش کریگا اور خوش فہمی تو اتنی کہ کانگریس کی جیت کو اپنی جیت سمجھ کر جشن منائے گا.

 

اللہ کے بندوں! کچھ تو عقل سے کام لو، خوش فہمی کی دنیا سے باہر نکلو کیونکہ کانگریس ہو یا کوئی اور پارٹی مسلمان ان کے لئے محض ووٹ بینک ہیں اور پرینکا گاندھی کا سیاست میں آنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، جنکے خاندان نے ہمیشہ سے سیاست کو اپنی جاگیر سمجھا ہوا ہے وہ سیاست میں نہیں آئینگی تو اور کہاں جائینگی، دیر سویر اُن کی منزل تو اقتدار کی کرسی ہی ہے، جیسے پیڑھی در پیڑھی چلتے آرہا ہے، پہلے موتی لال نہرو، پھر جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، سنجئے گاندھی، سونیا گاندھی، راہل گاندھی پھر قسطوں میں انٹری دیتے ہوئے پرینکا گاندھی نے بھی مستقل طور پر خود کو سیٹ کرلیا،یاد رہے وہ وقت بھی دور نہیں جب پرینکا گاندھی کے بچے ریحان اور میرایہ بھی پارلیمنٹ میں نظر آئینگے اور اُس وقت ہماری جگہ ہماری آل اولاد ڈھول نقاروں پہ گلاٹیاں مارتے ہوئے ساری زندگی مظلومیت کا رونا رو کر گذارینگی کیونکہ ہماری قوم اتنی بےحس، بےغیرت ہوچکی ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اپنی ایک مظبوط جماعت تشکیل نہیں کرسکتی نہ ہی قوم کے لئے قابل قائد چُن سکتی ہے بلکہ خود تو ساری زندگی سوتیلا رویہ سہتے ہوئے، اپنے ہی ملک میں اوروں کے رحم و کرم پہ غلاموں کی طرح زندگی گذارنے کے بعد اپنے بچوں کو بھی وراثت میں وہی غلامی کی میراث دیکر جائینگے تاکہ وہ بھی اپنی خودداری کو مار کر عزت نفس کو لٹاکر سسک سسک کر جینا سیکھ لیں کیوں کہ اُن کے باپ دادا نے بھی یہی زندگی گذاری ہے تو اُن پہ بھی لازم ہے کہ وہ بھی ایسی ہی زندگی گذاریں،اور یہ کانگریسی، بھاچپائی ہمارے کندھوں پہ پاؤں رکھ کر باقاعدہ اپنے خاندانی نظام، تاناشاہی حکومت کو پروان چڑھاتے جائینگے، سیکولرازم کا چولا اوڑھے ہندوستان کی جمہوریت، گنگا جمنی تہذیب کو روندھ کے رکھ دینگے. جیسے ہندوستانی تاریخ کا وہ کالا دن جب 1975 میں اچانک ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے پل بھر میں پورے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کردیا گیا تھا جو آج بی جے پی کے دور اقتدار میں بنا اعلانیہ ایمرجنسی کے حالات ہیں، اُن دنوں بھی ہوبہو یہی حالات تھے جو ہندوستانی تاریخ میں ہر لحاظ سے بیحد شرمناک ہیں اُس دور میں بھی اندراگاندھی نے اپنے اقتدار کے نشے میں چور ہوکر عوام پہ ظلم و زیادتی کر اُن سے جینے کا حق چھین لیا، کتنے بے قصوروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا، میڈیا سے لکھنے بولنے کی آزادی چھین لی گئی، اُن کے تمام حقوق سلب کرلئیے گئے، یہاں تک کہ انسانوں کا سانس لینا بھی محال تھا اور جبرا مردوں کی نسبدی تک کروادی گئی.

 

آج جو کوئی بھی اندراگاندھی کی پرچھائی کہہ کر تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں وہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھینگے تو صاف پتہ چلے گا کہ کانگریس ہو یا بھاجپا کون کتنے پانی میں ہے اور کون ہم مسلمانوں کے حق میں ہے، اگر کانگریس حقیقت میں مسلمانوں کی ہمدرد، دوست ہوتی تو آج بی جے پی مخالف اتحاد میں مسلم قیادت والی جماعتوں سے اس طرح دوری اختیار نہ کرتی، جیسے حال ہی کی رپورٹ کے مطابق 2019 کے انتخابات کی تیاریوں میں یوپی، بہار، مہاراشٹرا کے ساتھ تمام ریاستوں کی چھوٹی، نئی پرانی جماعتوں کو بھاجپا کے خلاف تشکیل پانے والے اتحاد کا حصہ بنایا گیا، مگر اُن جماعتوں کو اس کا حصہ نہیں بنایا گیا جنکی قیادت مسلمان کررہے ہیں، اس سے سیکولرازم کی آڑ میں چھپی کانگریس کی تعصبی ذہنیت کا صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ سنگھی سوچ ہر ایک کے دل و دماغ پہ چھا چکی ہے اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت

مدھیہ پردیش میں راہل گاندھی کی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ کانگریس ہندؤں کی پارٹی ہے، اسی کے ساتھ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا سیاسی کیرئیر کی شروعات کمبھ میلے میں گنگا میں ڈبکی لگاکر کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس ڈبکی کا مقصد بیشک بھگوان کو خوش کرنا نہیں بلکہ اندھ بھگتوں کو خوش کرنا ہے، دراصل کانگریس کو اس بات کا پختہ یقین ہوچکا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس کانگریس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے جس کی وجہ سے مسلم ووٹس انہیں کی جھولی میں پڑنے والے ہیں اس لئے ابھی کانگریس کا اہم ایجنڈا ہندؤں کو خوش کر کے اُن کا ووٹ حاصل کرنا ہے، اس کے لئے بار بار مسلمانوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے، غلاموں سا برتاؤ کیا جارہا ہے اور ہم اس غلامی کو بھی غنیمت مان رہے ہیں، ان حالات پہ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے……

 

“کہ کچھ لوگ غلامی سے آزاد ہونے کی جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں”

 

یہاں پہ ہمارا شمار ان دوسرے نمبر کے لوگوں میں ہے جو غلامی سے آزادی نہیں چاہتے بلکہ غلامی کے بہتر شرائط کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے بدلے سیاسی جماعتیں ہمیں مہرے کی طرح استعمال کرتی ہیں اور ہم دل و جان سے انکی جی حضوری میں لگ جاتے ہیں لیکن یاد رہے…….

” غلامی کی بدترین شکل وہ ہے

جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہوجائے”

 

اور افسوس کہ ہمیں ان زنجیروں سے پیار ہوچکا ہے تبھی ہم اس سے آزاد ہونا ہی نہیں چاہتے، جسکی وجہ سے 72 سالوں میں آج تک ہم خود مختار نہیں بن سکے، جھوٹی انا کے چلتے اپنے میں سے کسی کو قائد کا درجہ نہیں دے پائے اور ہماری یہی کمیاں خامیاں آپسی اختلافات آج ہماری کمزوری بن کر ہم پہ حاوی ہوچکی ہیں کہ آج ہمارا حال دھوبی کے گدھے کی طرح ہوچکا ہے جو نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا، اس لئے ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں اپنے حالات دھوبی کے گدھے جیسے نا بنائیں، اپنی قوم، اپنے بچوں کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے متحد ہوکر کام کریں کیونکہ ہمارا وجود صرف اور صرف اپنی قوم اور اپنے ملک سے ہے، کسی جماعت سے کبھی نہیں …..

اور اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ دورحاضر میں جس طرح مسلمانوں کو بی جے پی مکت بھارت چاہئیے اُسی طرح کانگریس کو بھی بی جے پی کو ہرانے کے لئے مسلم ووٹس کی اشد ضرورت ہے بنا مسلم ووٹ کے کانگریس کا جیتنا ناممکن ہے، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی طاقت کو کم نہ سمجھیں ہندوستان کی دوسری اکثریت ہونے کے لحاظ سے ہم کنگ میکر ہیں، اپنی اس طاقت کو کسی اور کے ہاتھ کا مہرا نہ بننے دیں بلکہ اپنے اور اپنی قوم کی فلاح بہبودی کے خاطر استعمال کریں اور یہی سہی وقت ہے جب ہم اپنے لئے سیاسی حقداری کا مطالبہ کرسکتے ہیں، ریزرویشن مانگ سکتے ہیں، ٹکٹ حاصل کرسکتے ہیں تاکہ مستقبل میں اپنے حق کے لئے پارلیمنٹ میں ہماری آوازیں بلند ہوسکیں،

اگر آج ہم نے اپنی طاقت کو متحد نہیں کیا، اپنی حکمت عملی نہیں دکھائی تو سیاسی دنگل میں کبھی بھی ہم مسلمانوں کا منگل ہونا ناممکن ہے، اسلئے وقت رہتے خود کو غلامی سے آزاد کرنے کی جدوجہد کریں کیونکہ……

 

“غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوق یقین پیدا تو ہی کٹتی ہیں زنجیریں”

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:30؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)

«
»

جنگ احد کے بعدمسلمان تلواروں کے سایہ میں۔

آج نہیں تو کل سچائی سامنے آئے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے