حفیظ نعمانی
یہ اتفاق نہیں سوچے سمجھے منصوبہ کا نتیجہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا بنائے گئے ہیں جو پنجابی ہونے کی وجہ سے اسی لہجہ میں بات کررہے ہیں جو پانچ دریاؤں کا پانی پینے والوں کا مخصوص ہے۔ جس منصب پر وہ فائز ہیں اسے بھی خود مختار کہا جاتا ہے۔ لیکن سی بی آئی یا آر بی آئی کی طرح اس کے سربراہ بھی وہ ہوتے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی تعلق وزیراعظم اور حکومت سے ہوتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم تو 17 سال سے کہیں نہ کہیں سربراہ ہیں ہر شعبہ میں نہ جانے کتنے افسر ایسے ہیں جن کو مودی جی نے استعمال کیا ہوگا اور نہ جانے کتنے ایسے ہوں گے جن کو شرمندۂ احسان کیا ہوگا۔ اب جب بھی کوئی بڑی کرسی خالی ہوتی ہے تو اس کے لئے وزیر اعظم کا استعمال کیا ہوا مہرہ بلا لیا جاتا ہے۔ اب تک جتنے چیف الیکشن افسر آئے وہ وہی تھے اور وہ جو کئی گھنٹے لاحاصل میٹنگ سی بی آئی کے سربراہ کے انتخاب کے لئے چلی اور بے نتیجہ رہی وہ صرف اس لئے کہ وزیراعظم اپنا مہرہ بٹھانا چاہتے ہیں اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس غیرجانبدار لانے کے لئے اَڑے ہوئے ہیں۔
موجودہ الیکشن کمشنر صاحب نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ جمہوری ملک کا نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم بیلٹ کے دَور میں واپس نہیں جارہے ہیں اور دلیل کوئی نہ دینا جمہوریت نہیں ہے۔ جن ملکوں نے مشین کو استعمال کیا اور بعد میں انہیں پھینک دیا یا سوئزر لینڈ جیسے ملک جس نے کروڑوں روپئے کی مشینیں خریدیں اور استعمال کے بغیر کوڑے میں پھینک دیں وہ کیا ہندوستان کے مقابلہ میں جاہل ملک تھے؟ یا ہندوستان ان سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے؟
2014ء میں جب کانگریس صرف 44 پر سمٹ گئی اور بی جے پی جس نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے 280 کا منتر سب کو بتا دیا ہے اور 280 سیٹیں لے آئیں تو اکثریت ان کی تھی جو یہ سوچنے لگے کہ یہ مشین کا کمال ہے لیکن کانگریس کو حکومت کے افسروں کو خریدکر جھوٹے اتنے الزام لگائے کہ یہ بھی خیال کرنے والوں کی کمی نہیں تھی کہ یہ کانگریس کی بدکرداری ہے۔ 2017 ء کے بارے میں مس مایاوتی نے پہلے ہی دن گلا پھاڑکر کہا کہ مشین کے ذریعے بے ایمانی کرائی گئی ہے اکھلیش یادو کو بھی یقین ہے کہ ای وی ایم کا کھیل تھا جو 325 سیٹیں بی جے پی کو ملیں لیکن الیکشن کے وقت جو ماحول تھا کہ ہر سیاسی مسلمان لیڈر مایاوتی کی حمایت میں بیان دے رہا تھا اور مایاوتی کے جو خاص دلت ووٹ ہیں جو کسی موریہ کے جانے سے نہیں بدل سکتے وہ اور مسلمانوں کے ووٹوں کے بعد صرف 19 رہ جائیں یہ نہیں ہوسکتا۔ سید شجاع نے 2014 ء کے بعد گجرات کا اور اترپردیش کا نام لیا ہے جس پر چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
سید شجاع نے جو حملہ کیا ہے اس کا کوئی تعلق اروڑا صاحب سے نہیں ہے ان کو چراغ پا ہونے کے بجائے اور ایف آئی آر لکھاکر شجاع کا راستہ بند کرنے کے بجائے اسے بلانا چاہئے تھا اور وہ جو اروڑا صاحب سے پہلے چیف کمشنر دعویٰ کرچکے ہیں کہ کوئی آکر مشین کو ایسا کرکے دکھائے کہ چاہے ہاتھی دباؤ یا لالٹین کمل کے پھول کو ہی ووٹ جائے گا۔ اسی طرح اروڑا صاحب شجاع کو بلاتے حفاظت کا یقین دلاتے اور کہتے کہ کرکے دکھاؤ وہ اگر نہ دکھا پاتے تو گرفتار کرادیتے۔ پہلے ہی افواہیں پھیلانے کا الزام لگاکر راستہ بند کرکے توانہوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ وہ ڈر گئے۔ شجاع نے بی جے پی لیڈر گوپی ناتھ منڈے اور تنزیل احمد کے قتل کا ذکر کیا ہے تنزیل احمد کے بارے میں تو ہم نہیں جانتے لیکن منڈے کے بارے میں ٹی وی کے ذریعے وہ منظر بار بار دیکھنے کے بعد یقین ہے کہ ان کو جان بوجھ کر قتل کیا گیا ہے۔ صبح کا وقت تھا سڑک سنسان تھی گوپی ناتھ منڈے کی گاڑی شمال سے جنوب کو جارہی تھی اور جس گاڑی نے ٹکر ماری وہ مشرق سے مغرب کی طرف جارہی تھی اور اتنی جگہ تھی کہ اگر ڈرائیور چاہتا تو گاڑی کاٹ کر یا رفتار کم کرکے نکال لیتا لیکن جس نے مارا وہ بہت ماہر ڈرائیور تھا یعنی شجاع کی بات غلط نہیں ہے۔ رہی یہ بات کہ مشین کے راز سے وہ واقف تھے یا نہیں یہ ہم نہیں جانتے۔
اب یا تو یہ اعلان کیا جائے کہ الیکشن کمیشن بھی سی بی آئی اور آر بی آئی کی طرح ایسا خود مختار ہے جس کی گردن پر وزیراعظم کی ٹانگ رکھی رہتی ہے۔ یا وہ دنیا کے ان ملکوں سے بات کریں جنہوں نے مشین سے الیکشن کرایا اور یقین ہوگیا کہ نتیجہ میں بے ایمانی ہوسکتی ہے اس لئے اسے چھوڑ دیا۔ یہ بات درست ہے کہ نتیجہ دیر میں آئے گا یہ بھی ہوگا کہ دادا گیری کرنے والے غنڈہ گردی کریں گے لیکن یہ وہ بدعنوانی ہوگی جس کو دوبارہ اور سہ بارہ ووٹنگ کراکے درست کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشین کے بارے میں ہم جیسے کیا کرسکتے ہیں جو کمپیوٹر کی باریکیوں کو نہیں جانتے اور جو جاننے کا دعویٰ کرتا ہے اسے ہتھکڑی دکھا رہے ہیں۔
یہ بات سنیل اروڑا کے کرنے کی ہے کہ آفس کے ان لوگوں سے جو برسوں سے کام کررہے ہیں سنجیدگی سے یہ معلوم کریں کہ ایسی کتنی شکایتیں آئیں کہ ووٹ کسی کو دیا اور کمل کے پھول کو مل گیا یہ شکایت پارلیمنٹ اور اسمبلی کے علاوہ کارپوریشن میں بھی سنی گئی۔ لیکن اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں آیا کہ دیا کمل کو اور مل گیا ہاتھی کو آخر یہ جب بھی ہوا کمل کے لئے ہی کیوں ہوا؟ اور اروڑا صاحب سے ایک بات یہ کہنا ہے کہ مودی جی جس شخصیت کا نام ہے وہ حکومت آسانی سے کسی کو دے دیں یہ نہیں ہوسکتا اور وہ صرف مشین سے کرائیں گے جو کرانا ہے اب یہ ذمہ داری ان کی ہے کہ بے ایمانی کے لئے بدنام مشین سے ایماندار الیکشن کرادیں۔
اروڑا صاحب کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جو مشین کی مخالفت کررہے ہیں وہ کوئی جاہل عوام نہیں ہیں انہوں نے ملک پر اور صوبوں میں برسوں حکومت کی ہے اور موقع ملا تو پھر کریں گے انہیں تیور اور حکومت کا خوف دکھاکر چپ تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا ذہن نہیں بدلا جاسکتا۔ اور کئی سابق چیف زندہ ہیں اور اگر آنکھوں میں مرچیں ڈال کر اپنی چلائی گئی تو کسی نہ کسی کا ضمیر جاگے گا اور وہ کھل کر بتائے گا کہ اس کے دَور میں کس نے مشین سے کیا کیا کام کرائے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:28؍جنوری2019(ادارہ فکروخبر)
جواب دیں