عارف عزیز(بھوپال)
ہندوستان میں دستور کے نفاذ کو ۶۸سال کا طویل عرصہ ہورہا ہے پولٹیکل سائنس کی کتابوں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ہمارے آئین میں دنیا کے دستوروں کی تمام اچھی باتوں کو شامل کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے دستوروں کی اہم خصوصیات کو منتخب کرنے کے باوجود عملی طور پر ہمارا آئین انگلینڈ کے دستور کی نقل ہے اور اسی لئے ہمارے یہاں کے ماہرین آئین اکثر وبیشتر پارلیمانی جمہوریت کے ویسٹ منسٹر ماڈل کا حوالہ دیتے ہیں جو ہندوستان کی آب وہوا سے کس قدر مطابقت رکھتا ہے اس کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے۔ ۶۲برسوں کے دوران ہمارے دستور میں۹۰ کے قریب تبدیلیاں ہوچکی ہیں پھر بھی آئے دن ایسے مواقع آتے ہیں جب ہماری مقننہ (قانون ساز اداروں) کو عدلیہ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے کئی بار یہ مجبوری اس لئے بھی پیش آتی ہے کہ انتظامیہ فیصلہ کرنے کی اپنی صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے کوئی حل نکال نہیں پاتا اور معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پہونچ جاتا ہے جو اپنی دستوری بنچ تشکیل دیکر اس پر فیصلہ صادر کرتا ہے۔
پریس کونسل کے سابق چےئرمین جسٹس پی بی ساونت نے اسی نظام پر انگلی اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ سوال کیا تھا کہ کسی مستقل دستوری بیچ کے نہ ہونے سے ایک چیف جسٹس کی خواہش پر تشکیل پانے والی دستوری بینچ کا کیا جواز ہے؟ ان کا کہنا تھا دستور میں تبدیلی کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں اور ایسے معاملے مسلسل سامنے آرہے ہیں لہذا اس کام کو انجام دینے کے لئے ایک مستقل دستوری بینچ تشکیل دی جائے جو سپریم کورٹ کے ہی مساوی ہو لیکن اس سے آزاد رہے یعنی ایک آزاد بینچ دستور کو لے کر وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالوں کا جواب تلاش کرتی رہے اور نظام میں کسی طرح کی بنیادی تبدیلی بھی رونما نہ ہونے دے۔
اس معتدل انداز فکر کے برعکس بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت بالخصوص ویسٹ منسٹر ماڈل ناکام ہوچکا ہے اس لئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ صدارتی نظام اپنانے کی سمت قدم بڑھانا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے بھی ایک نیا دستور اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر ازسر نو غور کرنا پڑے گا۔ اور ان تمام تجربات کا لحاظ رکھنا ہوگا جو پارلیمانی جمہوریت کے ۶۸ برس میں ہمیں ہوتے رہے ہیں نیز اس میں تبدیلی اب ناگزیر ہوگئی ہے۔
اس تبدیلی کے لئے پہلی دلیل تو یہ دی جاتی ہے ملک کا موجودہ دستور اپنی جڑوں سے نہیں ابھرا بلکہ اوپر سے تھوپا گیا ہے۔ تقریباً ۳۰ برس کے دوران تو تجربہ میں یہ آیا کہ علاقائی جماعتیں طاقتور ہورہی ہیں اور پانچ سال قبل تک بار بار کے پارلیمانی الیکشن کے باوجود معلق پارلیمنٹ ہی وجودآتی رہی ہے ۔ ۱۹۹۶ء میں ایک جماعت کو حکومت بنانے کی دعوت دی گئی تو وہ تیرہ دن برسراقتدار رہنے کے باوجود اکثریت ثابت نہیں کرسکی۔ اور اس کے بعد تین سرکاریں بنی وہ بھی وقتی ثابت ہوئیں اس سے زیادہ خراب حالت ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی رہی ہے۔ جہاں درمیان کے پندرہ بیس برس میں سوائے موجودہ کے کوئی مستحکم سرکار قائم نہیں ہوسکی۔ آخری مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی کی حکومت اور سماجوادی پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے ہیں لیکن علاقائی جماعتیں ملک کو نہ پہلے سیاسی استحکام سے ہمکنار کرسکیں، نہ آگے ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اترپردیش اور دوسری ریاستوں میں بھی علاقائی پارٹیوں کا دخل بڑھنے اور ووٹوں کی ذات برادری کی بنیاد پر صف بندی کا عمل جب تک جاری رہے گا ، کرناٹک کی طرح حکومتوں کے عدم استحکام کے نظارے دکھائی دیتے رہیں گے اور اس کے علاج کے لئے گروہی ونسلی سیاست سے بلند ہوکر غور وفکر ہونا چاہئے تبھی کچھ مثبت نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
09؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل
09؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل
جواب دیں