حالانکہ ان کے پاس اویسی کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کثیرووٹوں سے کیوں جیتی جب اویسی فیکٹر نہیں تھا؟ بہار میں مہاگٹھبندھن مسلمانوں کی ترقی کے لئے کئے گئے اپنے کام گنوانے کے بجائے اپنا پورا زور اویسی کو بی جے پی ایجنٹ قرار دینے اور مسلمانوں کے اندر بی جے پی کا خوف پیدا کرنے میں صرف کر رہا ہے۔مسلمان بھی ان باتوں سے متاثر ہورہے ہیں اور وہ بھولتے جارہے ہیں کہ ابھی چند مہینے قبل تک نتیش کمار بھی بی جے پی کے ساتھ تھے اور گزشتہ اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کے لئے اچھوت تھے۔ مسلمان اس سچائی کے باوجود لالو پرساد یادو کے ساتھ جانے میں کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے کہ انھوں نے بیس سال تک بہار اور مرکز میں اقتدار کے مزے لوٹے مگر مسلمانوں کی ترقی کے لئے ایک کام نہیں کیا۔بہار میں کانگریس مسلمانوں کی ہمدرد بن کر سامنے آرہی ہے جس کے اقتدار میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ مارا کاٹا گیا اور منظم سازش کے تحت انھیں دلتوں سے زیادہ پچھڑا بنادیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کب تک ان’ سیکولر‘پارٹیوں کے فریب میں جیتے رہیں گے اور اپنا نقصان کرتے رہیں گے؟ ہم نہیں جانتے کہ اسدالدین اویسی کیسے آدمی ہیں اور مسلمانوں کے ہمدرد ہیں یا بی جے پی کے ایجنٹ؟ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے اندر مسلمانوں کی قیادت کی صلاحیت ہے یا نہیں کیونکہ ہماری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی بات ہوئی،مگر حالیہ دنوں میں ا نھوں نے جس طرح سے مسلمانوں کی ترجمانی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے مسلمان نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت میں آیا ہے۔اب اگر ان کے کچھ امیدوار الیکشن میں جیت جاتے ہیں تو میرے خیال سے یہ مسلمانوں کے حق میں ہوگا۔ اس وقت مسلمانوں کے اندر یہ خوف پیدا کیا جارہاہے اگر اویسی کی پارٹی کو ایک بھی ووٹ گیا تو وہ بی جے پی کی حمایت میں ہوگا۔ حالانکہ میرا سوال ہے کہ مسلمانوں کے پاس کھونے کے لئے کیا ہے جو وہ اس قدر خوفزدہ ہیں؟ لالو اور نتیش نے تو اپنی اوقات ٹکٹ کی تقسیم میں ہی دکھا دی ہے۔ انھوں نے اپنی اپنی برادریوں کو جی کھول کر ٹکٹ دیا ہے اور مسلمانوں کو ان کی آبادی سے کم ٹکٹ دیا گیا ہے۔نتیش کمار بی جے پی کے ساتھ ہونے کے باوجود بہار کے لئے بہتر ثابت ہوئے ہیں مگر لالو نے تو مسلمان ہی نہیں پورے بہار کا بیڑا غرق کیا ہے۔ اچھی حکومت دینا تودرکنار انھوں نے اپنے اچھے دنوں میں غرور وتکبر کے سبب عوام سے ملنا جلنا تک بند کردیا تھا۔ اگر کوئی ان کے گھر کسی کام سے چلا جاتا تو وہ بات تک نہیں کرتے تھے اور انتہائی رعونت سے اسے بھگا دیتے تھے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اور میں سے خود انھیں لوگوں کے ساتھ برا برتاؤ کرتے دیکھا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر لالو،نتیش اقتدار میں آگئے تو لالو پرساد دوبارہ اسی بدتمیزی پر اتر آئیں گے اور نتیش کمار کو بھی کام نہیں کرنے دیں گے۔انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ ابھی ناانصافی کی ابتدا کی ہے کہ ۱۷فیصد آبادی والی قوم کو محض ۱۵ٹکٹ دیئے ہیں ،جب کہ ۱۴فیصد یادووں کو ۴۸ٹکٹ دیئے ہیں مگر اس کے باوجود بہار کے مسلمان بی جے پی کی اندھی دشمنی میں لالو کے ساتھ جاکراپنا نقصان ہی کریں گے۔
بی جے پی کی دشمنی میں اندھے نہ ہوں
شمالی ہند کے مسلمانوں نے آج تک اپنی سیاسی قوت نہیں بنائی محض اس خوف میں کہ بی جے پی جیت جائے گی جب کہ کیرل کے سمجھدار ، تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر بہتر مسلمانوں نے اپنی سیاسی قوت بنائی اور ریاستی حکومت میں وہ اپنی آبادی سے زیادہ نمائندگی رکھتے ہیں ۔اسی طرح آسام کے غریب اور پسماندہ مسلمان اپنی مجبوری کے سبب اس راستے پر بڑھے اور آج ان کی اپنی سیاسی قوت یوڈی ایف کی شکل میں موجود ہے۔ شمالی ہند کے مسلمانوں میں ناخواندگی زیادہ ہے ، وہ معاشی اور سماجی طور پر بھی پسماندہ ہیں یہی سبب ہے کہ پہلے کانگریس کی ٹھوکروں میں رہے اور اب لالو اور ملائم سنگھ کے اقتدار کی ڈولی ڈھونے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے کسی طبقے کی طرف سے اگر مسلمانوں کی سیاسی شیرازہ بندی کی کوشش ہوتی ہے تو سب سے پہلے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ایجنٹ سرگرم ہوتے ہیں اور سبو تاز کی کوشش کرتے ہیں۔شمالی ہند کے مسلمان متعددمسائل سے الجھ رہے ہیں اور جن پارٹیوں کو وہ ووٹ دیتے ہیں ،وہ ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید الجھا دیتی ہیں،لیکن انھوں نے خود کو مجبور بنا رکھا ہے۔ ان سے بہتر سیاسی شعور دلتوں میں ہے جو آج متحد ہوکر اپنی سیاسی قوت بنا چکے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان اویسی کو متبادل سمجھیں یا انھیں ووٹ دیں ۔ میں یہ بھی مشورہ نہیں دیتا کہ مسلمان انھیں ریجکٹ کردیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بی جے پی کی اندھی دشمنی میں مسلمانوں نے خود کو جس مقام پر لاکھڑا کیا ہے، اس سے باہر نکلنے کی کوشش کریں۔ سوچیں ،سمجھیں اور بہتر فیصلہ لیں۔ ہندوستان میں صرف مسلمان ایسا فرقہ ہے جو اپنے نفع نقصان کو سوچے بغیر محض بی جے پی کو روکنے کے نام پر استحصال کا شکار ہوتا ہے ،اور اسے سنگھ پریوار کا خوف دکھا کر سیاسی پارٹیاں بلیک میل کرتی ہیں۔اس بلیک میلنگ سے اسے باہر نکلنا چاہئے ۔اپنا نفع نقصان سوچنا چاہئے اور منفی سوچ کو چھوڑ مثبت حکمت عملی کے ساتھ ووٹ کرنا چاہئے۔
اویسی سے سیکولرازم کو خطرہ؟
فی الحال بہار کا انتخابی محاذ سامنے ہے۔ایک طویل مدت تک یو پی اے میں شامل رہنے والی سیاسی جماعت کل ہند مجلس اتحادالمسلمین اور اس کے سربراہ اسدالدین اویسی پر ان دنوں کانگریس اور دوسری مبینہ سیکولر پارٹیوں کی طرف سے سنگین قسم کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جن کی بنیادی وجہ یہ سمجھی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں پر راج کرنے والی ان جماعتوں کو اویسی اور ان کی پارٹی سے شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اویسی کی مسلمانوں کے اندر بڑھتی مقبولیت نے ان پارٹیوں کو خوفزدہ کردیا ہے اور وہ انھیں بی جے پی کا ایجنٹ قراردینے میں لگ گئی ہیں حالانکہ حیدرآباد سے ممبر پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اس الزام کو مسترد کردیا ہے کہ وہ سیکولرووٹوں کو تقسیم کرکے بی جے پی کے لئے جیت کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ مبینہ سیکولر پارٹیاں، مسلمانوں اور دلتوں کے مفاد کے تحفظ میں ناکام رہی ہیں۔وہ کمزور طبقات کے مفاد کی حفاظت بھی نہیں کرپائی ہیں۔یہ بات انھوں نے انگریزی روزنامہ ’’دی پانیئر‘‘ (The Pioneer)کے نمائندے کے اس سوال پر کہی جس میں پوچھا
گیاتھا کہ وہ حیدرآباد اور تلنگانہ سے باہر نکلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اویسی کا کہنا ہے کہ بھارت ایک کثیرثقافتی،لسانی و مذہبی معاشرہ کا حامل ملک ہے جہاں ۳۰۰ زبانیں بولی جاتی ہیں اور ۴۰۔۳۵ مذاہب ہیں۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں صرف دو سیاسی پارٹیاں ہی رہیں۔
بہار میں زمین کی تلاش
خبروں کے مطابق بہار انتخابی میدان میں AIMIM چیف اسد الدین اویسی اپنے امیدوار اتارنے کی تیاری میں ہیں اور اس انتخابی گھمسان میں سب کے پسینے چھڑانے کی تیاری میں ہیں۔ انھوں نے جب سے کشن گنج مین ریلی کی ہے سبھی ’’سیکولر‘‘پارٹیوں کے پسینے چھوٹنے لگے ہیں۔ اب اویسی کی نگاہیں کشن گنج، ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار پر ٹکی ہوئی ہیں۔ سیمانچل کے یہ 4 ضلعے مسلم ووٹ کے لحاظ سے اہم ہیں۔ سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ کشن گنج میں 78 فیصد، ارریہ میں 41 فیصد، کٹیہار میں 43 فیصد اور پورنیہ میں 37 فیصد مسلم آبادی آبادی ہے۔ حالانکہ یہاں کے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ یہاں اس سے کہیں زیادہ مسلم آبادی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے دوران مودی لہر کے بعد بھی بی جے پی سیمانچل کی ان سیٹوں پر اپنا اکاؤنٹ تک نہیں کھول سکی تھی۔ جبکہ NDA حکومت نے بہار میں 40 میں سے 31 نشستیں حاصل کی تھی۔
کہاں کہاں امیدوار؟
میڈیا میں خبریں آرہی ہیں کہ بہار کے بعداب پورے ملک میں مسلم اکثریتی سیٹوں پر ایم آئی ایم اپنے امیدوار اتارنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ اس نے اترپردیش میں باقاعدہ کوشش بھی شروع کردی ہے۔حالانکہ ملائم سنگھ یادو اس قدر خوفزدہ ہیں کہ اویسی کو یہاں جلسہ کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اور یوپی کے وزیر برائے شہری ترقیات اعظم خاں نے انھیں بی جے پی کا ایجنٹ تک کہہ دیا ہے۔ حالانکہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ملائم سنگھ یادو جو بہار میں بی جے پی کی مدد کر رہے ہیں وہ کس کے ایجنٹ ہیں۔اسدالدین اویسی نے اپنے انٹرویو میں اترپردیش کی موجودہ صورت حال پر کئی سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کیرل اور آسام چھوڑ وہ کسی بھی ریاست میں امیدوار اتارنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیرل میں مسلم لیگ اچھا کام کر رہی ہے اور آسام میں مولانابدرالدین اجمل کی پارٹی اے آئی یوڈی ایف مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر رہی ہے۔
مسلمانوں میں اویسی کی مخالفت
ایک طرف مسلم نوجوانوں کا ایک طبقہ اسدالدین اویسی سے متاثر ہورہا ہے اور انھیں مسلمانوں کا سچا ہمدرد مان رہا ہے تو دوسری طرف سیاسی اور غیرسیاسی مسلمانوں کا ایک گروہ ان کے خلاف لام بند ہوتا جارہاہے۔حا لیہ دنوں میں مولانا ارشد مدنی نے بھی اویسی کی مخالفت کی اور اندیشہ ظاہر کیا کہ مسلم ووٹ تقسیم ہوسکتا ہے جس سے بی جے پی کو فائدہ ملے گا۔ دوسری طرف دلی کے ایک انگریزی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سیداحمد بخاری نے کہا کہ’’ اویسی جو کچھ کر رہے ہیں وہ
مسلمانوں کے حق میں مثبت نہیں ہے۔ مہاراشٹر میں سیکولر ووٹ تقسیم ہوگیا۔ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اویسی کا فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ سمجھوتہ ہے۔صرف کچھ جذباتی قسم کے مسلم نوجوان ہی ان کے ساتھ ہیں اور بی جے پی کے ووٹ پولرائزہورہے ہیں۔فطری طور پر اس کا فائدہ بی جے پی کو مل رہا ہے۔‘‘یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ یہ وہی احمد بخاری ہیں جو مختلف سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں اپیلیں جاری کرتے رہے ہیں اور ان کی اس اپیل کے سبب بی جے پی کو فائدہ پہنچتا رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ان سیاسی پارٹیوں کی حمایت کے نام پر وہ کیا قیمت وصول کرتے ہیں۔یادش بخیر احمد بخاری اپنی سیاسی پارٹی بناکر اترپردیش میں امیدوار بھی اتار چکے ہیں مگر بری طرح ناکامی کے بعد اب اویسی کو سیکولرزم کا سبق سکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
بہرحال اس وقت اویسی کی حمایت اور مخالفت میں دوگروپ سامنے آرہے ہیں ، لیکن معاملہ صرف بہار کے رواں الیکشن اور یوپی کے آئندہ انتخابات کا نہیں ہے بلکہ ایک مستقل حکمت عملی کا ہے۔ اویسی بھی کوئی ایشو نہیں ہیں بلکہ اصل معاملہ مسلمانوں کی قانون ساز اداروں میں نمائندگی اور ان کے مسائل کا ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں پر اعتماد کا بھی معاملہ ہے جو گزشتہ ۷۰برسوں سے مسلمانوں کو دھوکہ دیتی رہی ہیں۔آج مسلمانوں کے سامنے اہم سوال ہے کہ وہ انھیں دھوکہ باز پارٹیوں کے ساتھ رہیں گے یا اپنی الگ سیاسی قوت بنائیں گے؟ وہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے خوف سے باہر ہونگے یا منفی سوچ کی بنیاد پر ووٹنگ کرتے رہیں گے؟ مسلمان اگر اپنی سیاسی قوت بنانے کا سوچتے ہیں تب بھی انھیں اویسی سے آگے کی سوچنی چاہئے۔
جواب دیں