ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی )کے رسالہ ’اسلامی موومنٹ ‘میں ۲۲؍ سال قبل مبینہ طور پر اشتعال انگیز مضامین لکھنے کے الزام میں ضلع جلگاوں کے بھساول شہر سے تعلق رکھنے والے محمد حنیف اسحاق (۴۷؍سال) کو دہلی پولیس نے فروری ۲۰۲۴ء میں گرفتار کیا تھا۔ ایک روز قبل دہلی ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت دیدی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ حنیف کے خلاف زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ رسالے سے وابستہ تھا۔ سیمی سے اس کا کوئی تعلق واضح نہیں ہوتا۔
عدالت نے ۵۰؍ہزار روپے کے ذاتی مچلکے پر چند شرائط کے ساتھ محمد حنیف کو ضمانت دی جس کے بعد وہ جمعرات کو دہلی کی روہنی جیل سے رہا ہو کر بھساول پہنچے۔ یاد رہے کہ ۲۰۰۲ء میں جب سیمی کو ممنوعہ قرار دیا گیا تھا تب سیمی اور رسالہ ’اسلامی موومنٹ‘ کے ادارتی عملے کے خلاف یو اے پی اے اور دفعہ ۱۵۳ اے، ۱۳۵ بی، اور ۱۲۰ بی کے تحت معاملہ درج کیا گیاتھا۔ اسی وقت دہلی کے فرینڈز سرکل پولیس اسٹیشن میں ۲۸؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو محمد حنیف کے خلاف بھی ماملہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے حنیف کو متعدد سمن اور وارنٹ بھیجے تھے لیکن وہ عدالت میں حاضر نہیں ہوئے۔ اس دوران وہ بھساول کے میونسپل بلدیہ اسکول درس وتدریس کی خدمت انجام دے رہے تھے۔ ان کے عدالت میں حاضر نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بھیجے گئے وارنٹ میں ان کا نام محمد حنیف حبیب الرحمٰن لکھا تھا جبکہ ان کا نام محمد حنیف اسحٰق ہے۔ بالآخر ۷؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو پولیس نے انہیں مفرور قرار دیدیا۔ اسکے بعد رواں سال یعنی ۲۲؍ فروری۲۰۲۴ء کو دہلی اسپیشل سیل پولیس نے بھساول آکر انہیں گرفتار کیا۔ تب سے اب تک محمد حنیف کم و بیش ۷؍مہینوں تک دہلی میں قید و بند میں تھے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہا اگر محمد حنیف پر زیادہ سے زیادہ کوئی الزام لگایا جا سکتا ہے تو وہ یہ کہ وہ ممنوعہ تنظیم سیمی کے رسالہ ’اسلامک موومنٹ ‘کی اشاعت میں مدد کرتے تھے وہ بھی بطور پروف ریڈر نہ کہ قلمکار۔
لہٰذا عدالت نے چند شرائط کے ساتھ انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا۔ محمد حنیف کے وکیل ایڈوکیٹ رافع یزدانی نے بتایا کہ ’’مقدمہ درج ہونے کے ۲۲؍ دنوں بعد ایف آئی آر میں محمد حنیف کا نام شامل کیا گیا تھا وہ بھی غلط۔ پولیس نے یو اے پی اے کے تحت جو الزامات لگائے وہ کہیں ثابت نہیں ہوئے، اسلئے ہم آئندہ سماعت میں ڈسچارج کیلئے اپیل کریں گے۔ اطلاع کے مطابق دہلی پولیس محمد حنیف کی تلاش میں مالیگائوں کے مدرسہ جامعہ الہدیٰ گولڈن نگر بھی پہنچی تھی۔ چونکہ محمد حنیف کو حنیف ہدائی کے نام سے بھی جانا جاتا ہےلیکن نام غلط ہونے کی وجہ سے تفصیلات نہیں ملی تھی۔ اس کیس کی جرح میں ایڈوکیٹ رافع یزدانی (جلگاوں ) کے علاوہ ایڈوکیٹ خالد اختر سینئر ایڈوکیٹ دہلی کورٹ اور سپریم کورٹ، ایڈوکیٹ عبداللہ اختر، ایڈوکیٹ محمدشادان اور ایڈوکیٹ معاذ اختر نے بھی حصہ لیا۔