شام میں صبحِ امن یا ‘ہنوز دلی دور است’؟

مسعود ابدالی

شام کے سرحدی علاقے پر اسرائیل کا ناجائز کنٹرول ۔ پرامن اقتدار کی منتقلی!
آٹھ دسمبر کو روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بشار الاسد پرامن منتقلی اقتدار کی ہدایت دے کر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ بعد میں روس کی انٹر فیکس نیوز ایجنسی نے بتایا کہ بشارالاسد کو روس نے انسانی بنیادوں پر پناہ دے دی ہے۔ دوسری جانب انقلابی تحریک، هيئة تحرير الشام (HTS) کے امیر اور عبوری انقلابی کونسل کے سربرہ ابو محمد الجولانی نے اعلان کیا ہے کہ بشارالاسد کے مقرر کردہ وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کے تمام اختیارات برقرار ہیں۔ فوج سمیت تمام ریاستی ادارے تا حکم ثانی وزیر اعظم کے احکامات کے تحت کام جاری رکھیں گے اور صوبائی و شہری نظم و نسق بھی معمول کے مطابق رہے گا۔ اس تبدیلی کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ انقلابی دستوں نے شہروں میں فاتحانہ داخلے کے ساتھ ہی عام معافی کا اعلان کر دیا جس کی وجہ سے اتنی بڑی تبدیلی بغیر خون بہائے آگئی۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ تبدیلی اقتدار کا آخری مرحلہ تو پر امن رہا لیکن اس تبدیلی کی بنیادوں میں 1982 کے حماہ قتل عام سے اب تک لاکھوں شامیوں کے لہو کے علاوہ مریم صفت پاک باز بچیوں کی عصمتیں بھی شامل ہیں۔ شام میں طلوع ہونے والی اس صبح کے لیے اخوانیوں کی کئی نسلوں نے جان، مال اور عزت و آبرو کی بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل شام، عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہلاتا تھا۔ جاسوسی کا نظام اس قدر مضبوط و مربوط کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید ’دیواروں کے کان‘ کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے۔تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلط "فوجی بادشاہت” کے بانی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔ مصر کے حسنی مبارک کی طرح حافظ الاسد نے بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز فضائیہ سے کیا اور برق رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے صرف دس سال میں فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مصر اور شامی فضائیہ کی بدترین کارکردگی نے 1967 میں عربوں کو اپنی تاریخ کی سب سے شرم ناک شکست سے دوچار کیا اور صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے بیت المقدس سمیت جولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا کے بڑے حصے پرقبضہ کر لیا۔ تاہم انتہائی مہارت کے ساتھ حافظ الاسد نے اس شرم ناک شکست کی ذمہ داری اس وقت کے شامی صدر نور الدین العطاشی کے سر تھوپ دی۔ فروری 1971میں انہوں نے ایک "اصلاحی انقلاب” کے ذریعےحکومت سنبھالی اور اپنے بھائی رفعت الاسد کو خفیہ پولیس کا سربراہ مقرر کیا۔ دونوں بھائیوں کا خیال تھا کہ شام کی ترقی کے لیے مذہبی عناصر کی مکمل بیخ کنی ضروری ہے۔ دوسرے عرب ممالک کی طرح شام میں بھی اخوان المسلمون نوجوانوں میں خاصی مقبول تھی۔ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع حماہ، حلب اور حمص کے شہر اخوان کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
جون 1980 میں صدر حافظ الاسد پر دمشق میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچے۔ رفعت الاسد نے اس کا الزام اخوان پر لگا دیا اور خواتین سمیت پانچ ہزار سے زیادہ اخوانی کارکن گرفتار کر لیے گئے ان لوگوں کو برہنہ کر کے بڑے بڑے شہروں سے گھما کر صحرا میں واقع تدمر جیل میں بند کر دیا گیا۔تمام مردوں کو پھانسی دیدی گئی جبکہ خواتین کی بےحرمتی کرنے کے بعد ان کی آنکھیں پھوڑ کر گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔ رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر کے قصاب ہیں اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔ دو فروری 1982 کو رفعت الاسد کی قیادت میں تیس ہزار شامی افواج نے حماہ کا محاصرہ کرلیا۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی جبکہ شہر کو پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ اس دوران شہریوں کے خلاف زہریلی گیس بھی استعمال کی گئی۔ تین ہفتوں کی مسلسل بمباری کے بعد ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کی مدد سے شامی فوج شہر میں داخل ہوئی اور حماہ کے ایک ایک گھر کو مکینوں سمیت منہدم کر دیا گیا۔ تین مہینے سے زیادہ جاری رہنے والے اس آپریشن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جان بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔اس آپریشن سے سارا شام دہشت زدہ ہوگیا اور اس کے بعد حافظ الاسد کو عوام کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
حافظ الاسد اپنے بڑے بیٹے باصل الاسد کو اپنے بعد صدارت کے لیے تیار کر رہے تھے لیکن باصل ایک حادثے میں مر گیا چنانچہ ماہر امراض چشم بشار الاسد شام طلب کر لیے گئے جو اس وقت لندن میں اپنا مطب چلا رہے تھے۔ ملک واپس آتے ہی وہ فوج میں بھرتی ہوئے اور تربیت مکمل ہوتے ہی جنرل بنا دیے گئے۔ حافظ الاسد کی موت کے وقت بشار چونتیس سال کے تھے جبکہ دستور کی روسے شامی صدر کی کم سے کم عمر چالیس برس تھی، چنانچہ قومی اسمبلی نے آئین میں فوری طور پر ترمیم کرکے صدر کے لیے کم سے کم عمر چونتیس سال کر دی اور ڈاکٹر بشار الاسد شام کے صدر منتخب ہوگئے۔
تیونس میں انقلاب کے بعد مصر، الجزائر، کویت، لیبیا، یمن اور بحرین کی طرح شام میں بھی مظاہروں کی باز گشت سنائی دی مگر خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بنا پر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011 کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ (شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا ہوا پایا گیا۔ جلد ہی یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ اس ناقابل معافی جسارت پر خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انہوں نے نعرے لکھے تھے۔ اس تشدد کے خلاف سارے ملک میں احتجاج ہوا اور اب اللہ، شام اور آزادی کے نعروں کے ساتھ ‘ارحل یا بشار’ بھی عام ہوگیا۔
بشار الاسد کا کہنا تھا کہ شامی عوام کے خلاف اخوان المسلمون اور کرد انتہا پسندوں نے اتحاد کرلیا ہے جسے صہیونی سامراج اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک سرحد پر واقع القامشلی سے کرد بنیاد پرست، دیرالزور کی عراقی سرحد سے القاعدہ کے مسلح دہشت گرد اور مصر و اردن سے اخوان کے جنونی، حماہ میں جمع ہو رہے ہیں۔ حافظ الاسد نے اخوانیوں کے قتل عام کی ذمہ داری اپنے بھائی رفعت الاسد کو سونپی تھی۔ بشار الاسد نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کام کے لیے اپنے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ ماہر الاسد کو چن لیا۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی یعنی تشدد کے ساتھ مظاہروں میں شدت آگئی۔
جب تشدد سے کام نہ بنا تو صدر اسد نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ اور ‘نظریاتی رنگ دیدیا۔ ایران کو دہائی دی کہ یہ علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر ہے اور ماسکو کو باور کرایا کہ امریکہ نواز خلیجی ریاستیں شام سے روسی اڈے ختم کرانا چاہتی ہیں۔ ایرانی حکومت سازش کو نہ سمجھ سکی اور پورے عزم کے ساتھ بشار الاسد کی پشت پر آکھڑی ہوئی۔ شامیوں کا کہنا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کے سپاہی شامی فوجوں کے شانہ بشانہ مظاہرین کے قتل عام میں شریک تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حماہ کے البدر ہسپتال پر حملہ کرنے والے سپاہی فارسی بول رہے تھے۔ شامی حزب اختلاف نے IRGC اور حزب اللہ پر حزب الاسد ملیشیا کو تربیت دینےکا الزام لگایا۔ لیکن تہران اور حزب اللہ دونوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے صہیونی و امریکی پرپیگنڈہ قرار دیا۔ اسی دوران القاعدہ اور ISIS کا ‘مصنوعی’ ظہور ہوا جسے کچلنے کے لیے امریکی فوج نے دیرالزور میں تیل کے میدانوں کے قریب ڈیرے ڈال دیے۔ ترکیہ کی کرد علیحدگی پسند جماعت PKK کے عسکری جتھے YPG نے ترک فوجوں پر حملے شروع کردیے۔ جواب میں ترک فوجی کارروائی نے تشدد کی لہر کو مزید بڑھا دیا۔ خونریزی تیرہ سال جاری رہی جس میں لاکھوں بے گناہ لقمہ اجل بنے۔ لا تعداد بے گھر ہوئے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔
بدھ 27 نومبر کو HTS نے مشرقی ادلب اور مغربی حلب کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بشار اقتدار کے پشت پناہ لبنانی جنگجو اسرائیل کی جانب سے دباو میں تھے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے HTS نے چشم کشا حملہ کرکے سرکاری فوج کو سراسیمہ کر دیا اور بشار کے سپاہی مقابلہ کیے بغیر فرار ہوگئے۔ انقلابیوں نے فرار ہوتی فوج کا تعاقب کیا اور دو دن میں پورے حلب پر HTS کا قبضہ ہوگیا۔ انقلابیوں کے سربراہ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھی۔ دوسرے دن رستن اور تلبسیہ سرنگوں ہوتے ہی سرکاری فوجوں نے حمص خالی کر دیا۔ سات دسمبر کی دوپہر HTS کا ہراول دستہ دمشق پر دستک دے رہا تھا۔ اسی دوران جنوب میں درعا اور السویدہ میں سرکاری فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ تمام بڑے شہروں پر قبضے کے بعد بشارالاسد کے لیے دمشق سے نکل کر کہیں اور ٹھکانہ بنانے کی گنجائش باقی نہ بچی تھی چنانچہ وہ اہل خانہ کے ہمراہ روس فرار ہوگئے اور خون آشام الاسد اقتدار کا سورج ترپن سال بعد غروب ہوگیا۔
بلا شبہ شام میں آنے والی پرامن تبدیلی عوامی امنگوں کی ترجمان ہے جس کے لیے اخوانی 1982 سے قربانی دے رہے تھے۔ اس جدوجہد میں جانی ومالی نقصانات کے ساتھ بعثی درندوں نے ہزاروں مریم صفت خواتین اور بچیوں کو بے آبرو کیا۔ اوباشوں کے مجمع میں پاک باز بچیوں کو بے لباس کرنے اور ان کی اجتماعی عصمت دری کو بشارالاسد کی سرپرستی حاصل تھی۔ ستم ظریفی یہ کے جیلوں کے خفیہ تہہ خانوں میں تادمِ تحریر سیکڑوں مظلوم ایڑیاں رگڑ رہے ہیں کہ ان کوٹھریوں تک رسائی کا علم رکھنے والے سرکاری محافظ فرار ہوگئے ہیں اور ان تک پہنچنے کا راستہ کسی اور کو معلوم نہیں۔
بہیمانہ تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت کا بیج بو کر بھی صدر اسد اپنا اقتدار نہ بچا سکے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی خلیج اہل غزہ کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ راکٹ حملوں کی صورت میں لبنان سے ملنے والی بلا واسطہ کمک اب معطل ہوگئی ہے۔ دوسری جانب ڈونالڈ ٹرمپ ہر قیمت پر قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ فوجی انخلا کے بغیر قیدیوں کی رہائی غزہ کو غرب اردن سے بدتر قبضہ بستی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم HTS کو مبارکباد دینے مقبوضہ جولان میں جبل الغرام تک گئے اور کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے کہا کہ’ الاسد کا زوال ایران اور حزب اللہ کے خلاف ہمارے حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے’۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار امریکی قائدین نے بھی کیا ہے۔
لیکن ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘۔دمشق پر HTS کے قبضے سے ایک رات قبل اسرائیلی وزیر دفاع کی زیر صدارت عسکری حکمت پردازوں کا ہنگامی اجلاس ہوا جس کے بعد تل ابیب نے اپنے تحفظات سے واشنگٹن کے علاوہ مصر اور اپنے خلیجی ‘دوستوں’ کو آگاہ کردیا تھا۔اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیٹھک میں جو تفصیلات بیان کیں اس کے مطابق اسرائیل کے لیے ’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ والی کیفیت ہے کہ شام میں ایران کا زوال ایک نئی اسلامی قوت کے کمال و اقبال کا راستہ ہموار کر رہا ہے یعنی
out of the frying pan into the fire
خوشی و مسرت کے مصنوعی اظہار کے ساتھ اسرائیلیوں نے جارحانہ پیش بندی بھی کرنی شروع کر دی ہے۔ اتوار کی رات بمباری کرکے گولہ بارود کے ذخائر، اسلحہ فیکٹریوں، فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا، جن میں درعا کا مرکزی اسلحہ ڈپو، المزۃ فضائی مرکز اور السویدہ میں الخلخلہ عسکری فوجی اڈہ شامل ہے۔ دوسرے روز صبح سویرے اسرائیلی فوج نے شام میں جبل حرمون (جبل الشیخ) پر قبضہ کرلیا۔ یہ پہاڑی سلسلہ شام و لبنان کی سرحد ہے۔ شام کے دس کلومیٹر علاقے پر قبضےکا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا کہ کارروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کے لیے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)

بشکریہ : ہفت روزہ دعوت

«
»

عصر حاضر کی سیاست پر من گھڑت تاریخ کے تباہ کن اثرات

پولیس تحویل میں نوجوان کی موت کے بعد پربھنی میں دوبارہ حالات کشیدہ، ناندیڑ میں بھی کشیدگی