شام میں روسی فضائی حملے اور ۰۰۰!

عراق،شام میں داعش، النصرہ فرنٹ، جیش الفتح ،طالبان وغیرہ کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر لاکھوں مسلمانوں کا قتل ہوچکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ شام میں گذشتہ چند سالوں کے دوران کم و بیش تین لاکھ مسلمان جن میں عام شہریوں بشمول معصوم بچوں اور خواتین کی کافی تعداد ہے۔ان ممالک میں ایک طرف مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہا ہے تو دوسری جانب اسلامی ممالک کی معیشت کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے صدر بشارالاسد کو اقتدار سے معزول کرنے کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر دباؤ بڑھتا جارہا تھا جبکہ بشار الاسد کو ایران و شیعہ ملیشیاء کا تعاون حاصل ہے۔ شام میں شدت پسند تنظیموں اور بشارالاسد کی فوج کے درمیان جو خانہ جنگی جاری ہے اور ایک دوسرے پر جو حملے کئے جارہے ہیں اس میں عام شہریوں کی ہلاکت زیادہ تعداد میں ہورہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ لاکھوں شامی پناہ گزین کیمپوں میں بے آسرا ہوکرزندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لاکھوں بچے تعلیم و تربیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کے لئے روز مرہ زندگی کی اشیاء ملنا دوبھر ہوگیا ہے۔ اب شام کے صدر بشارالاسد کی جانب سے روس سے امداد طلب کرنے پر روسی حکومت نے شام میں دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لووروف نے روس کی جانب سے شام میں فضائی کارروائیوں کے بارے میں کہا کہ ہدف وہی گروہ ہیں جن کو امریکی اتحادی نشانہ بنارہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس شامی حکومت کی درخواست پر خود کو دولت اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔ لیکن روس کی جانب کی جانے والی فضائی کارروائی کے خلاف امریکہ اور نیٹو ممالک کا ماننا ہے کہ روس بشارالاسد کو مضبوط و مستحکم کرنا چارہا ہے۔ نیٹو نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے مخالفین اور عام شہریوں پر فضائی حملے بند کردے۔روس کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کے خلاف نیٹو نے خبر دار کیا ہے کہ روس کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے شدید خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ترکی اور امریکی اتحاد کا کہنا ہے کہ روس کا ہدف شامی حکومت کے مخالفین ہیں ۔ صدر امریکہ بارک اوباما کا کہنا ہے کہ شام میں روسی بمباری سے صدر بشارالاسد کی حامی فوج کی مدد ہورہی ہے جبکہ حزبِ اختلاف کو پسپا کیا جارہا ہے جس سے دولتِ اسلامیہ مضبوط ہورہی ہے۔ وائٹ ہاؤز میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بارک اوباما نے کہا کہ ’’یہاں مسئلہ اسد ہیں اور شام کے لوگوں پر جو ظلم ڈھایا جارہا ہے اسے رکنا چاہیے۔ نیٹو کے 28 رکن ممالک کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں روس کو ’’اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے لاحق ہونے والے شدید خطرات‘‘ کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ فضائی مہم بند کردے۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ روس کے اقدامات مزید خطرناک موڑ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ روس ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کرچکا ہے۔ اس فضائی حملے کے سلسلہ میں روس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نیوی گیشن کی غلطی کے باعث پیش آیا ہے جبکہ امریکہ کا کہنا ہے کہ ترک فوج کے پاس ایسے کسی طیارے کو مارگرانے کا حق ہے، خبروں کے مطابق ترکی فضائیہ نے روسی جنگی طیارے کو واپسی پر مجبور کیا ہے۔ شام میں روس کی بمباری کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کہا کہ روس کی جانب سے بشارالاسد کو اس کی تائید کا تاریخ احتساب کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ روس جو اقدامات کرتے ہوئے شام میں بمباری کررہا ہے ترکی کیلئے وہ بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ ترکی اور روس کے درمیان دوستانہ تعلقات رہے ہیں لیکن شام میں فضائی حملو ں کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہیکہ روس کے خلاف صرف ترکی ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، عرب امارات ، بحرین، قطر، کویت، عمان اور دیگر اسلامی ممالک متحدہ طور پر احتجاج کرسکتے ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے شام میں روسی حملوں پر خاموشی اس وجہ سے کہی جاسکتی ہے کیونکہ گذشتہ ایک ماہ کے اندر حرم مکی اور منیٰ کا سانحہ پیش آچکا ہے ۔ سعودی عرب ابھی ان دو بڑے سانحات سے سنبھل نہیں پایا ہے یا پھر سعودی عرب اور دیگر ممالک کی خاموشی کوئی اہم نتیجہ پر ٹوٹ سکتی ہے۔ یمن میں باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں حملے جاری ہیں جبکہ ایران پر الزام ہیکہ وہ یمن میں باغی حوثیوں کو تعاون فراہم کررہا ہے یہ دعوے بہت حد تک صحیح ہوسکتے ہیں ۔ منیٰ سانحہ کے بعد ایران نے سعودی عرب کے خلاف جو موقف اختیار کیا تھا اس سے ان دونوں ممالک کے درمیان خطرناک حالات پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا ۔ لیکن ایرانی وزیر خارجہ جو سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں اور انہوں نے جس طرح منیٰ سانحہ کے بعد سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کا جائزہ لیا تو اسے سراہے بغیر نہ رہ سکے۔ اسلامی ممالک عراق، شام، یمن، افغانستان وغیرہ میں جس طرح امریکہ اور اس کے حلیف ممالک دہشت گردانہ کارروائیوں کو ختم کرنے کے نام پر کاررائیاں کررہے ہیں اور اب روس کی جانب سے شام میں شدت پسند تنظیموں کو نشانہ بنانے کے نام پر کارروائی کی جارہی ہے اس میں صرف اور صرف عام مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ عالمِ اسلام کو متحدہ طور پر ان ممالک میں امن و سلامتی کی بحالی کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ گذشتہ چند برسوں کے دوران شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مسالک کی بنیاد پر کارروائیوں میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس میں مزید اضافے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ دولت اسلامیہ (داعش) عراق اور شام سے نکل کر کئی دوسرے ممالک میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرچکی ہے جس کا رپورٹ آئے دن میڈیا کے ذریعہ پہنچ رہی ہے۔ اس کے باوجود عالمِ اسلام کے حکمراں صرف اور صرف امریکہ، روس ، برطانیہ وغیرہ پر بھروسہ کرکے بیٹھے رہے تو وہ دن دور نہیں پھر مسلمانوں کو غلامی کی زندگی گزارنی پڑے گی۔ آج اسلامی ممالک کے پاس بے انتہاء دولت ہونے کے باوجود ان غیر اسلامی سوپر پاور ممالک کے سامنے بے حس دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمِ اسلام کے حکمراں اپنی حفاظت اور اقتدار پر برقراری کے لئے انہیں اپنی فوج اور سیکیوریٹی پر بھروسہ کرنے کے بجائے دوسروں سے مدد لینی پڑ رہی ہے۔ انہیں ان ممالک سے کروڑوں روپیے کے ہتھیار اور دیگر فوجی سازو سامان حاصل کرنے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔ ابھی وقت ہے عالمِ اسلام اپنی قوت کو سنبھالا دینے کے لئے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ مسالک کی بنیاد پر جو حملے ایک دوسرے کے خلاف کئے جارہے ہیں اسے ختم کرنے کے لئے مصلحت پسندی سے کام لیں۔ عالمِ اسلام میں جو حالات ہیں اس کا فائدہ اسرائیل کو حاصل ہورہا ہے اسرائیل کی بقاء کے لئے امریکہ کروڑوں ڈالرس اس پر خرچ کرتا ہے ۔ فلسطینی عوام پر ہر روز اسرائیل کسی نہ کسی طرح ظلم و زیادتی کرتا ہے اس کے خلاف نہ اقوام متحدہ کوئی کارروائی کرتا ہے اور نہ امریکہ و دیگر سوپر پاورس کو ان ظالمانہ کارروائیاں جو مسلمانوں پر کی جاتی ہیں دکھائی دیتی ہیں۔ کبھی کبھار سوائے فلسطینیوں سے اظہار یگانگت کیا جاتا ہے اور وہ بھی عالم اسلام کو خوش کرنے کے لئے تاکہ کہیں ان کی کروڑوں کی آمدنی رک نہ جائے ۔ خیر مسلمانوں کو دشمنانِ اسلام پر شکوہ کرنے کے بجائے اپنے صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ مسلمان اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے لگیں گے تو وہ دن دور نہیں جب اسلامی پرچم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے دور اقتدار میں جس طرح لہرایا جاتا تھا آج بھی اسی طرح لہرایا جاسکتا ہے۔ کاش وہ دن ۰۰۰
روسی صدر کا فوج کو ابوبکر البغدادی کو زندہ گرفتار کرنے کا حکم
کیا روسی صدر کے حکم پر ابوبکر بغدادی کو روسی فوج زندہ پکڑنے میں کامیابی حاصل کرلے گی۔ روسی صدر ولادیمیرپیوٹن نے روسی فوج کو داعش کے سرغنہ ابوبکر البغدادی کو زندہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ماسکو سے روسی فوج کو خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ شام میں آپریشن کے دوران دہشتگردوں کو زندہ گرفتار نہیں کیا جاسکتا تو ان کی لاشوں کو روس منتقل کیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن کے دوران کوشش کی جائے کہ داعش کے سرغنہ ابوبکر البغددی کو زندہ گرفتار کیا جائے۔ دوسری جانب روس کی وزارت دفاع کے ترجمان ایوگوکوناشنکوف کا کہنا ہے کہ روسی فضائیہ نے شام میں داعش کے خلاف آپریشن میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ واضح رہے کہ روس کے اس اقدام کا مقصد امریکہ کی قیادت میں قائم داعش مخالف اتحاد کی کمزوری اور ناکامی کو ثابت کرنا ہے۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے