سیکولرزم کا راگ اور مسلمان

معیاری تعلیم قیمتی ہونے کی وجہ سے دور ہو گئی یا کردی گئی ۔ نوکری کے امکانات خود بخود محدود ہو گئے ۔ووٹ کی سیاست نے ایسے حالات پیدا کئے کہ مسلمان حاشیہ کے کھلاڑی بن کر رہ گئے ۔ تعصب و محرومی دامن گیر ہو گئی ۔گاؤں چھوٹ رہا ہے یا چھڑایا جا رہا ہے اچھی بستیوں یا کالونیوں سے سلم و گندی جگہوں کی طرف ڈھکیلنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ جو اپنے دم پر جمے رہنے کی غلطی کرتے ہیں انہیں فسادات میں قیمت چکانی پڑتی ہے پھر بھی ہم سیکولر قدروں کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔آزادی کے بعد سے مسلمانوں نے الگ پہچان والی سیاست نہیں کی ۔ انہوں نے ہندو ، پچھڑے اور دلتوں کی اکثریت والی پارٹیوں کے ساتھ خود کو جوڑے رکھا ۔ ہمیشہ ساجھے کی سیاست کی اور اپنے قیمتی ووٹ نام کے ہی سہی سیکولر کہلانے والوں کو دےئے کیونکہ اسلام ساتھ مل کر رہنے و نفرت پھیلانے والے عمل سے بچنے کی سیکھ دیتا ہے لیکن یہ سیکولر مسلمانوں کو ووٹ بنک کہہ کر بے عزت کرتے ہیں ۔
بہار چناؤ میں ووٹنگ ہونے والی ہے سیکولر کہلانے والی تمام پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہیں اور فرقہ پرست ان کے ووٹوں کو بے اثر ۔فسطائی یا فرقہ پرستوں کے مقصد، کار کردگی اور عزائم کسی حد تک سامنے ہیں اس لئے آگے بڑھنے سے پہلے سیکولرزم کے دعویٰداروں پر ایک نظر ڈال لینا بہتر ہوگا ۔جے پی آندولن سے سیاست میں داخل ہوئے لالو پرساد یادو بہار میں عظیم اتحاد کا حصہ ہیں ۔ وہ 1977میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ پارلیمنٹ پہنچے تھے یہ وہی جنتا پارٹی ہے جس میں جن سنگھ شامل تھی ۔جانکارو ں کا کہنا ہے کہ جے پی آندولن نے سنگھ میں جان پھونکنے کا کام کیا اور عوام میں اس کی مقبولیت کو بڑھایا ۔ گاندھی جی کے قتل کے الزام کی وجہ سے سنگھ ملک میں معتوب تھا خیر جنتا پارٹی نے ملک میں پہلی غیر کانگریسی حکومت قائم کی اس حکومت میں اٹل بہاری واجپئی وزیر خارجہ تھے ۔ اس سے آر ایس ایس کے جنتا پارٹی پر اثر کا اندازہ ہوتا ہے ۔ 
1989میں بھاگلپور فساد کے وقت لالو پرسا د بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے انہوں نے اپنی پہچان کمزور پسماندہ ذاتوں کے لیڈر کے طور پر بنائی تھی وی پی سنگھ کی لیڈر شپ میں جب جنتا دل بنا تو لالو پرساد اس میں شامل ہو گئے ۔ 1990میں جنتا دل نے بہار میں کامیابی حاصل کی قائم مقام وزیر اعظم دیوی لال کے کہنے پر لالو پرساد بہار کے وزیر اعلیٰ بنے لالو جانتے تھے کہ بہار کے فسادات میں خاص رول کس کا رہتا ہے بقوم اختر الاسلام انہوں نے 1989کے فسادات کے الزام میں چھ لوگوں کو جیل بھجوایا لیکن کئی بڑے گناہ گار یادو کو انہوں نے ایم ایل سی بنا کر اپنی وزرات میں شامل کر لیا ۔ انہوں نے فسادات پر تو قابو پا لیا لیکن مسلمانوں کی تعلیم ، ترقی و روزگار کے لئے کچھ نہ کیا ۔ بس وہ فرقہ واریت کا حوالہ دیکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتے رہے واضح رہے کہ جنتا دل نے بی جے پی کے ساتھ مل کر ہی مرکز میں حکومت بنائی تھی ۔وی پی سنگھ نے جان بوجھ کر اڈوانی کا رتھ بہار تک جانے دیا لالو پرساد سے رتھ رکواکر سیکولرزم اور مسلمانوں کے ہیرو بن گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ لالو نے اپنے زمانے میں بہار میں سنگھ کی شاکھائیں قائم نہیں ہونے دیں ۔ در اصل اس میں بھی ان کا اپنا مفاد پوشیدہ تھا انہیں ڈر تھا کہ یادو سنگھ سے جڑیں گے تو ان کی ووٹ کی طاقت کم ہو جائے گی ۔
جنتا دل سے الگ ہو کر نتیش کمار ، جارج فرنانڈیز نے سمتا پارٹی بنائی ۔ جارج فرنانڈیز کی پہچان شوسلسٹ لیڈر کی تھی لیکن وہ اپنی پارٹی کے ساتھ این ڈی اے کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ این ڈی اے کے صدر اور اٹل جی کی سرکار میں وزیر دفاع رہے ۔ اسی حکومت میں وزارت ریل کا قلمدان نتیش کمار کے پاس تھا 2002کے گودھرا سانحہ کی انہوں نے اپنی وزارت سے آزادانہ انکوائری نہیں کرائی کیوں ؟ یہ راز آج بھی راز ہی بنا ہوا ہے ۔ تقریبا 14سال وہ بی جے پی کے ساتھ رہے ایک مرتبہ نتیش کمار نے کہا تھا دیش چلانے کے لئے آپ کو سب کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے ۔ کبھی ٹوپی پہننی پڑتی ہے تو کبھی تلک لگانا پڑتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا محض ٹوپی پہننے ، رمال اوڑھنے یا مذہبی تقریبات میں شامل ہونے سے کوئی سیکولر بن جائے گا یا پھر تمام مذاہب کی عزت کرنے ، سب کو تعلیم و ترقی کے بلا تفریق یکساں مواقع فراہم کرنے والا سیکولر کہلائے گا ۔ 
نتیش کمار نے بھاگلپور فساد کے متاثرین کو معاوضہ دیا ۔ پسماندہ ذاتوں کو معاشی بنیاد پر تقسیم کرکے نئی زمرہ بندی کی اور کمزوروں کو اوپر اٹھانے کے لئے کوٹے میں کوٹا مقرر کرنے کا کام کیا ۔یہ ایسے اقدامات تھے جن سے بہار کے پسماندو ں اور دلتوں کو فائدہ ہوا ۔انہوں نے لڑکیوں کو سائکلیں دے کر انہیں پڑھائی کی طرف متوجہ کیا ۔ کئی لوگ اس قدم کو نتیش کمار کے بہار میں مضبوط سیاسی پکڑ بنانے سے جوڑکر دیکھتے ہیں تو کئی کمزوروں کے ہمدرد کے طور پر ۔ پہلی پاری میں نتیش کمار نے گاؤں کو سڑک سے جوڑنے ،خستہ حال اسکولوں کی تعمیر کرانے ، بجلی کی حالت سدھارنے کسانوں کو ان کی فصلوں کی مناسب قیمت دینے ، مدرسہ بورڈ کو سر گرم کرنے اور مدارس کی جدید کاری کرنے کے جو کام کئے وہ یقیناًایک اچھی شروعات کہے جانے کے مستحق ہیں جبکہ وہ اس وقت بی جے پی کے ساتھ ساجھا سرکار چلا رہے تھے ۔
بہار انتخاب میں سیکولرزم کے نام پر ایک اور گروپ سرگرم ہے یہ اپنے آپ کو تیسرے مورچے کے طور پر متعارف کرارہا ہے ۔اس میں سماجوادی پارٹی ، این سی پی اور پپو یادو کی پارٹی شامل ہیں ۔ سماجوادی کے سپریمو ملائم سنگھ وہ شخص ہیں جنہوں نے ایودھیا میں کار سیوکوں پر گولی چلواکر بابری مسجد رام جنم بھومی تحریک کو ہوا دی ۔ بی جے پی اسی کی بدولت مرکز میں سرکار بنانے میں کامیاب ہوئی لیکن مسلمان اس واقعہ کے بعد ملائم سنگھ کو اپنا ہمدرد ماننے لگے جبکہ انہوں نے مسلمانوں کی تعلیم ، روزگار اور ترقی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا یہاں تک کہ بیس نکاتی پروگرام کے تحت مرکز نے مسلم اکثریتی بلاکوں کے لئے جو رقم فراہم کی وہ بھی خرچ نہ کر سکے بلکہ اس رقم کو دوسرے کاموں میں لگا دیا گیا ۔انہوں نے میرٹھ کے ہاشم پورہ ملیانہ میں پی اے سی کے مظالم کے شکار مسلمانوں کو انصاف دلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لی اس کیس میں کسی بھی مجرم کو سزا نہیں ہوئی سماج وادی کی موجودہ سرکار میں چھوٹے بڑے کئی سو فرقہ وارانہ فساد ہو چکے ہیں ان میں مظفر نگر کا فساد سب سے بڑا تھا ۔ اسے انتظامیہ کے ڈھلمل رویہ کی وجہ سے طول پکڑا ۔مظفر نگر فساد پر آئی رپورٹ میں بھاجپا کے ساتھ سماج وادی پارٹی کے لوگوں کے شامل ہونے کی بات بھی سامنے آئی ہے ۔پولس حراست میں مجاہد کی موت ، کانپور میں مسلم نو جوان کو پاکستانی بتا کر مار دینا اور دادری کے بیساڑا گاؤں میں بھیڑ کا گھر میں گھس کر اخلاق کو قتل کر دینا ریاست میں سماج وادی کی نہ کامی کی مثالیں ہیں ۔ڈی ایس پی ضیاء الحق کو مروانے والے کو سرکار میں وزیر بنائے رکھنا اور کلیان سنگھ کو سماج وادی پارٹی میں شامل کرنا ملائم سنگھ کی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔اس سب کے با وجود بھی وہ سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں ویسے انہیں دکھاوا کرنا خوب آتا ہے جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
1992کے ممبئی فسادات این سی پی کے شرد پوار کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے ہوئے تھے ۔تھانہ ، بھونڈی جیسے مسلم کش فسادات کے لئے بھی کسی گناہگار کو سزا نہیں ملی ۔شیو سینا کے مضبوط ہونے میں بھی انہیں کی پالسیوں کا دخل ہے مہاراشٹر کے حالیہ انتخابات کے بعد شرد پوار وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بلا شرط بی جے پی کو حمایت دینے کا اعلان کیا تھا۔کیا سے سیکولرزم کہیں گے ؟ در اصل بیس سال پہلے کا پچھڑا ، دلت اورمسلم گٹھ جوڑ جو سیکولرزم کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اب وہ بے معنی ہو چکا ہے ۔ پچھڑی اور دلت سیاست اپنا ایک دور پورا کر چکی ہے اس نے سیاسی اعتبار سے ان ذاتوں کو اتنا طاقتور بنا دیا ہے کہ بھاجپا تک اسے نظر انداز نہیں کرسکتی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹری سیاست کے مقابلہ میں یہ ذاتیں کسی ایک دل کے ساتھ خود کو باندھنے میں فائدہ نہیں دیکھتیں ۔جو پارٹی انہیں مناسب تعداد میں حصہ داری دے تو انہیں بھاجپا سے بھی کوئی گریز نہیں ۔ کیونکہ اس سے ان کی مول تول کی طاقت بڑھتی ہے دلت پچھڑی سیاست اب وسیع ہندو سیاست سے تال میل بٹھانا بہتر مانتی ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہاں ووٹوں کی تعدا د زیادہ ہے ۔رام ولاس پاسوان ، رام داس اٹھاولے ، ادت راج اور اوپندر کشواہا اس کی مثال ہیں ۔بہوجن سماج پارٹی نے بھی اپنے شدت پسند رخ کو نرم کر لیا ہے جو سیاسی دل سماجی انصاف کے قائم ہیں وہ بھی مسلمانوں کے حق میں کھل کر کچھ کہنے سے بچتے ہیں ۔ کیجریوال جیسے لوگ اس کا ثبوت ہیں ۔ وہ مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتے ہیں لیکن اپنے آس پاس ان کی سرگرمی نہیں چاہتے ۔

کانگریس کے پالیسی ساز پارٹی کی ناکامی کے لئے اس کی مسلم نوازی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ بیشتر مسلم کش فسادات اسی کے دور اقتدار میں ہوئے ۔کانگریس کی مسائل سے مسائل سلجھانے کی قواعد اور سیکولر سیاست جو مولویوں کی پچھ لگو بنی رہی نے شمال کے مسلمانوں کو ووٹ بنک بنا کر رکھ دیا ۔بابری مسجد میں تالا لگوانے ، تالا کھلوانے اور شہید کئے جانے کے سارے کام کانگریس کی سرکاروں میں ہی ہوئے انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل جان بوجھ کر پاس نہیں کروایا گیا ۔سچر کمیٹی ، رنگ ناتھ مشرا کمیشن بنواکر کانگریس نے اہل وطن کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اگر ہم نے مسلمانوں کے لئے کچھ کیا ہوتا تو آج ان کی حالت دلتو ں سے بدتر نہ ہوتی ۔ کانگریس نے ان تجاویز کو لاگو کرنے میں بھی کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی ۔دستو ر کی دفعہ 341کے دائرے سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو کانگریس نے ہی باہر رکھا ۔دہشت گردی کے الزامات میں گرفتاریاں اور فرضی انکاؤنٹر بھی کانگریس کے زمانے میں ہی زیادہ ہوئے ۔ فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والوں کی اس نے کبھی ہمت شکنی نہیں کی بلکہ کئی مواقع پر تو کانگریس نے فرقہ پرستوں سے بڑھ کر مسلمانوں کو نقصان پہنچایا ۔اس کے با وجود بھی وہ سیکولر ہونے کی دعویدار ہے ۔ 
کمیونسٹ ملک میں سیکولرزم کے سب سے بڑے دعویٰ دار مانے جاتے ہیں سچر کمیٹی کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتی فرقہ کو بدترین حالت میں پہنچانے کے لئے بائیں بازو کی پارٹیاں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں ۔مغربی بنگال میں بے شک ان کے زمانے میں فسادات نہیں ہوئے لیکن ان 36سالوں میں معاشی اور سماجی ترقی کی راہیں مسلمانوں کے کئے مسدود ہوگئیں ۔دینی ادارے اور تعلیم گاہیں چوپٹ ہو گئیں اس کی وجہ سے یہاں کے مسلمان دوسری ریاستوں سے بھی پچھڑ گئے ۔ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولرزم کو اقتدار تک پہنچنے کے لئے زینے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اس کا نا کوئی اصول ہے نہ بندش ورنہ سیکولر کہے جانے والے اپنی وفاداریاں کپڑوں کی طرح نہ بدلتے ۔ سیاسی حضرات کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانا بہت عام بات ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کا اپنا اپنا سیکولرزم الگ الگ ہے ۔ لالو ، نتیش ، کانگریس ، کمیونسٹ اور ملائم کا اپنا اور نریندر مودی کا اپنا ۔ انہیں مسلم ٹوپی پہننے اور افطار پارٹی میں شریک ہوکر دکھاوا کرنا پسند نہیں۔لیکن وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے اور خاص طبقہ سے نزدیکی ظاہر کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے جس سے اقلیتوں کے شک کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ بھید بھاؤ کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔سب اپنے اپنے ووٹ بنک کی سیاست کررہے ہیں ۔
ایسی صورت میں مسلمان کیا کریں یہ سوال اہم ہے ملک کی ہر ریاست میں مسلمانوں کے مسائل اور صورتحال الگ ہے اس لحاظ سے ریاست وار مسلمانوں کو اپنی موجودگی اور ضرورت کے مطابق فیصلہ لینا ہوگا ۔فیصلہ ایسا ہونا چاہئے جو مسلمانوں کو سیاسی ، سماجی اور معاشی اعتبار سے با اختیار بنانے میں معاون ہو ۔سماجی و معاشی بہتری کے لئے ہم وطنوں کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانا ضروری ہے ۔ سیاسی حصہ داری کے لئے ووٹر لسٹ میں ناموں کا اندراج کرانے کے ساتھ ملک میں ہوئے دو کامیاب تجربوں سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے ایک ہے سیاسی پارٹی بنا کر ایوان اقتدار میں نمائندگی یہ تجربہ کیرلا اور آسام میں کامیاب رہا ہے ۔دوسرا کرناٹک کا تجربہ ہے وہاں کے مسلمانوں نے تمام مذہبی جماعتوں ، علاقہ وار ذمہ داروں اور شخصیات پر مشتمل ایک متحدہ کمیٹی تشکیل دی ۔اس کمیٹی نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپنے مسائل کے حل و نمائندگی کے بارے میں گفتگو کرکے ان کی رائے جانی ۔ تمام پارٹیوں کی آراء کو نمائندہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کرکے صلاح و مشورے کے بعد مشترکہ طور پر فیصلہ لیا گیا کہ مسلمان اپنا ووٹ کسے کریں گے ۔ اس کمیٹی نے جس کے حق میں فیصلہ لیا اسے ریاست میں کامیابی ملی ۔ جمہوریت کا متفقہ اصول ہے جو گروپ یا طبقہ اپنے ووٹوں کو اکٹھا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہی اقتدار میں حصہ اور عزت پانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اس تجربہ کو صوبائی سطح پر اپنائیں گے یا مقامی سطح پر ۔ برابری و بھاگیداری حاصل کرنے کے لئے اتنا تو کرنا ہی پڑے گا ۔

«
»

مسلمانوں کے مسائل ۔ بابری سے دادری تک

داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے