داعش کا بڑھتا خطرہ اور علماء اسلام کا اتحاد

حال ہی میں ایک مسلم سماجی کارکن نے دعوی کیا ہے کہ اس فتوےٰ کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھیج دیا گیاہے اور ان سے درخواست کی گئی ہے کہ دوسرے ممالک کے علماءسے ایسا ہی فتویٰ جاری کرنے کو کہا جائے۔ جن علماء اور مذہبی پیشواؤں نے فتویٰ جاری کیا ہے یا اس کی تصدیق کی ہے، ان میں دہلی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری،درگاہ اجمیر شریف کے دیوان ا ور درگا حضرت نظام الدین اولیاء کے سجادہ نشین، درگاہ کچھوچھہ شریف سے تعلق رکھنے والے کچھ علماء، رضااکیڈمی ممبئی اور جمعیۃ علما ء ہند مہاراشٹر کے ذمہ داروں کے نام شامل ہیں۔سید ظہیر عباس رضوی زینبیہ ،عامل صاحب داؤدی بوہری کمیونٹی کی طرف سے اس فتویٰ کی تصدیق کی گئی ہے۔ دنیا میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں علماء کرام اور مذہبی رہنماؤں نے ایک ساتھ داعش کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔ابھی تک آئی ایس آئی ایس جہاد کے نام پر دنیا بھر کے مسلم نوجوانوں کو بھرتی کرتا رہا ہے اورکچھ جذباتی لڑکے اس کے جال میں پھنس بھی رہے ہیں۔مانا جا رہا ہے کہ اس مشترکہ فتوے سے کم سے کم بھارتی نوجوانوں میں رسائی بنانے کی داعش کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ مذہبی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ آئی ایس کی کرتوت اسلام کے خلاف ہے۔ ان کے مطابق اسلام میں خواتین، بچوں اور بوڑھے مردوں کے قتل کی سخت ممانعت ہے، لیکن داعش کے دہشت گرد ہر دن ایسے واقعات انجام دے رہے ہیں جو دہشت گردی اور تخریب کاری سے تعلق رکھتے ہیں۔

داعش کے خلاف علماء
مذہبی رہنماؤں کو دہشت گردی کے خلاف متحد کرنے کا سہرا جاتا ہے ممبئی کے ڈیفنس سائبر کے سربراہ عبد الرحمن انجاریہ کو جنھوں نے ہندوستان بھر کے سیکڑوں مسلم مذہبی رہنماؤں سے اس بارے میں ان کی رائے جاننی چاہی تھی اور سبھوں نے متفقہ طور پر داعش کی سرگرمیوں کو خلاف اسلام قرار دیا۔ انجاریہ نے 1050 علماء کرام اور مذہبی پیشواؤں کی طرف سے جاری فتویٰ کو جمع کیا ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو بھیج دیا ہے، تاکہ پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کو ISIS کے پروپیگنڈے سے بچایا جا سکے۔یہ فتویٰ دہشت گرد تنظیم آئی ایس کے رہنماؤں، جنگجوؤں اور حامیوں کے خلاف جاری کی گئی ہے۔ انہوں نے دہشت گرد تنظیم آئی ایس کی سرگرمیوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف بتایا ہے۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ اسلام تشدد سے گریز کرنے کو کہتا ہے،اور امن کی بات کرتا ہے جبکہ آئی ایس آئی ایس تشدد کو فروغ دیتا ہے۔اس فتوے میں بین الاقوامی برادری سے درخواست کی گئی ہے کہ اس دہشت گرد گروپ کو ختم کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں جس نے علاقے میں بدامنی پیدا کر دی ہے اور اس کی رسائی جنوبی ایشیائی خطے میں بڑھ رہی ہے۔یہ فتویٰ 15 جلدوں میں مرتب کیا گیا ہے اور اس کی کاپیاں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور دیگر رہنماؤں کو بھیجی گئی ہیں تاکہ آئی ایس آئی ایس کی سرگرمیوں پر بھارتی مسلمانوں کے خیالات سے انہیں آگاہ کیا جا سکے۔
فتویٰ اور اس پر کچھ سوال؟
داعش کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے مفتی منظر حسن خاں اشرفی مصباحی نے جو کہ دارالافتاء دارالعلوم علی حسن اہلسنت ،ممبئی کے مفتی ہیں۔ فتویٰ کا سوال پوچھا ہے عبدالرحمٰن انجاریہ نے۔ سوال یوں تھا:

’’کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلے کے تعلق سے کہ داعش نامی تنظیم جس نے دورحاضر میں خلافت کا دعویٰ پیش کیا ہے اور وہ ناحق اوربے قصور لوگوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرکے اور ویڈیوکے ذریعہ تشہیر کر رہی ہے کہ ہمارا یہ عمل اسلامی ہے۔ اگر یہ باتیں سچ ہیں تو تو ایسی جماعت کے بانی اور اس کے اراکین کا یہ عمل شریعت محمدی کی روشنی میں کیسا ہے؟‘‘
اس سوال پر مفتی منظر حسن خاں مصباحی نے جواب لکھا:
’’صورت مسؤلہ میں داعش کی جانب سے انٹرنیٹ اور ویڈیو کے ذریعہ ناحق اور بے قصور لوگوں کے قتل کی خبر اور اسے اسلامی عمل کہنا اگر سچ ہے تو داعش نام کی تنظیم کے مذکورہ افعال وحرکات قطعاًویقیناًغیراسلامی اور غیر انسانی ہیں۔ اسلام ہرگز ہرگز ایسے فعل وحرکت کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن کریم میں ایک قتل ناحق کو تمام انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کا قتل کیا۔حدیث پاک کی روشنی میں ناحق لوگوں کو عذاب دینے والے مستحق عذاب ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ ان لوگوں کوعذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔مخلوق کے ساتھ بھلائی اور رحم وکرم کا برتاؤ کرنا اسلام کی اہم تعلیمات میں سے ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رحم کرنے والوں پر رحمٰن بھی رحم فرماتا ہے۔ لہٰذا تم زمین والوں پر رحم کرو تاکہ آسمان والا تم پر رحم فرمائے۔‘‘
فتویٰ میں مزید کہا گیا ہے کہ داعش نامی تنظیم کا دعویٰ خلافت باطل اور مردود ہے۔ یہ ہرگز اسلامی خلیفہ نہیں ہوسکتے بلکہ اس تنظیم کے افراد کے غیر اسلامی نظریے اور اسلام مخالف فعل وحرکت سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جہاں اس فتوے کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اہم حصہ مانا جارہاہے وہیں اس پرکچھ تکنیکی سوال بھی اٹھ رہے ہیں۔ فتویٰ میں سائل نے جو سوال پوچھا ہے اس کے مضمون سے ظاہر ہے کہ وہ داعش کے تعلق سے الزامات کی تصدیق نہیں کرتا،اس لئے سوال میں ’اگر‘ مگر‘ جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں دوسری طرف جواب میں بھی ایسا لب ولہجہ اختیار کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتی صاحب بھی داعش کے متعلق تحقیق نہیں رکھتے اور جس طرح میڈیا میں آئی جھوٹی سچی خبروں کی بنیاد پر سوال کیا گیا ہے، اسی طرح جواب بھی بغیر تحقیق کے دیا گیا ہے۔ سوال کا یہ پہلو قابل توجہ ہے ’’اگریہ باتیں سچ ہیں‘‘ گویا سائل جن باتوں پر فتویٰ مانگ رہاہے ان کی صداقت کا اسے یقین نہیں۔ اسی طرح مفتی صاحب کوبھی سوال میں پوچھی گئی باتوں کی سچائی پر یقین نہیں ہے، اسی لئے وہ لکھتے ہیں ’’اگرسچ ہے‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ صرف میڈیا میں آئی غیر تصدیق شدہ خبروں کی بنیاد پر اتنا اہم فتویٰ صادر کرنا شرعی نقطہ نگاہ سے درست ہے؟ جب ٹی ی اور اخبارات میں آئی چاند کی خبروں کی بنیاد پر علماء عید نہیں ہونے دیتے تو میڈیا کی غیرمصدقہ خبروں پر اتنا اہم فتویٰ کیسے دیا جاسکتا ہے؟ فتویٰ کی دینی اہمیت ہے ،یہ کوئی سیاسی بیان یا اخباری بیان نہیں ہے۔ اس کی حرمت کو قائم رکھنا علماء کا کام ہے۔ اب تک ایسے فتوے آتے رہے ہیں جن سے فتووں کا مذاق بنا ہے۔ 

سعودی علماء نے بھی جاری کیا حکم
جہاں ایک طرف بھارت میں علماء نے آئی ایس کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے اور اسے ختم کئے جانے کی کوششوں کا ساتھ دے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف سعودی عرب کے سرکاری علماء کے ایک گروہ نے دہشت گردی کو جرم بتاتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں سمیت تمام تشدد پسندوں کو اسلامی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہئے اور ان کا خاتمہ ہونا چاہئے۔حالیہ دنوں میں سینئر سرکاری علماء کی کونسل نے اپنے اجلاس کے بعد کہا کہ وہ سعودی بادشاہت کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ نہ صرف داعش کے حامیوں کا پتہ لگایا جانا چاہئے بلکہ القاعدہ اور یمن میں شیعہ حوثی باغی گروپ سے منسلک لوگوں کا بھی پتہ لگایا جائے اور انھیں سخت سزا دی جانی چاہئے۔علماء کونسل نے کہا کہ حکام کو جنگ پر اکسانے والے بڑا گناہ کر رہے ہیں جو حکمرانوں کے حکم کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔غور طلب ہے کہ میڈیا کی خبروں میں کہا گیا ہے کہ اس کونسل کے علماء کی تقرری حکومت کرتی ہے اور اس میں شریک تما م علماء انتہاپسند وہابی نظریہ فکر کے حامل ہیں۔ یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ آئی ایس کو پہلے سعودی عرب کے حکمرانوں کا ہم خیال تصورکیا جاتا تھااور مانا جاتا تھا کہ اس کی پشت پر سعودی عرب کا ہاتھ ہے مگر جب سے اس نے اعلان کیا کہ وہ سعودی عرب پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے اور مدینہ منورہ کو راجدھانی بنانے کا خواہاں ہے تب سے سعودی عرب نے اس کی کھل کر مخالفت شروع کردی ہے۔
فتویٰ کا کچھ اثر ہوگا؟
مذہبی رہنماؤں کی طرف سے داعش کے خلاف اپیل کو اہم ہتھیار کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ علماء کی اپیلوں سے عام مسلمانوں میں بیداری آئے گی اور دنیا بھر میں جو مسلم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے اس کے خلاف ماحول تیار ہوگا۔ حالانکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ داعش سے متعلق میڈیا کی خبروں کو حقائق کے خلاف مانتا ہے اور اسے اسلام کو بدنام کرنے کی مغربی سازش کے طور پر دیکھتا ہے ۔جب کہ عام مسلمان داعش کو ایک خطرہ تصور کرتے ہیں اور اس کے اثر سے نئی نسل کو بچانا ایک چیلنج مانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ علماء کی اپیل کے سبب داعش کے خلاف ماحول تیار ہوگا اور دنیا بھر میں ایک پیغام جائے گا مگر اس تعلق سے آزاد ذرائع سے تحقیق ضروری ہے۔ اب تک اس سلسلے میں جو بھی خبریں آئی ہیں وہ یہودی اور عیسائی قبضے والے میڈیا کے حوالے سے آئی ہیں جس کی اسلام او ر مسلمانوں کے خلاف سازش کوئی نئی نہیں ہے۔

«
»

کیا مسلمان بن کر رہنا جرم ہے ؟

دہشت گردی: اقوامِ ہند کے لئے لمحۂ فکریہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے