سائنس کا وجود قرآن کریم کی تعلیمات کا نتیجہ ہے، اللہ رب العالمین کی صفت ربوبیت کا ماخذ ہے، اب یہ مستقل فن کے طور پر منظر عام پر آچکا ہے، تدمیر و فساد کے ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبہ میں سائنس کی ترقیات نے راحت و سکون کی راہیں بھی ہموار کردی ہیں، ہر چند کہ ہمارے اسکول و کالج میں سائنسی علوم کی کچھ رمک پڑھائی جاتی ہے مگر یہ نھیں بتایا جاتا کہ سائنس کا بابائے آدم کون ہے. الجبرا، فیزکس، بایولوجی بوٹونی(علم نباتیات)، زولوجی(علم حیوانات)، نیروس سسٹم (نظام عصبیات)، آسٹرونومی (علم فلکیات) جیسے سائنسی مسلمات میں دین اسلام کی کیا رہنمائیاں ہیں۔ در اصل ان سارے علوم کا بانی وموسس قرآن حکیم ہی ہے، قرآن کریم کوئی سائنسی کتاب نہیں، اور نہ ہی اس کا مقصد سائنسی تحقیقات سے اپنی سچائی منوانا ہے، تاہم قرآن کریم کے بے شمار مشمولات وعلوم میں سائنسی رہنمائیاں بھی ایک کلیدی رول ہے جس کے ذریعہ رب العالمین اپنی ربوبیت والوہیت کو تدبر و بصیرت کے ایک ایسے پیرائے میں پیش کرتا ہے جس سے قرآن کریم کے علاوہ ساری مذہبی و دینی کتابیں عاجز و بے بس ہیں۔، خواں ان علوم کی گہرائی تک موجودہ ماہرین خرد وعقل پہنچیں یا آئندہ اور پچاسوں سال بعد ان کی رسائی ممکن ہو، وید اور اپنیشد میں دیوی دیوتاووں کے تصورات پر پیش کی گئی بھونڈی دلیلیں انسان کو بے عقل پرزہ بنا دیتی ہے، بائبل کی تعلیمات نے آج تک تین خداوں کے چکر میں سینکڑوں پادریوں کو پاگل پن کی انتھاء تک پہنچا دیا ہے۔ یہی حال دیگر مذاہب وادیان کی مقدس کتابوں کا ہے، بات یہاں کسی مذہب کی تنقید کی نہیں، قرآن کریم کے کسی بھی مضمون وٹاپک کا دیگر ادیان کی مقدس کتابوں سے مقارنہ ممکن ہی نہیں ہے، یہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے جس میں پوشیدہ علوم وحکمت کی رعنائیاں اسی بقدر انسان کے سامنے ظاہر ہوتی ہیں جتنی اللہ رب العالمین اس کے مقدور میں رکھ دے۔ حق الہی کا کلام اس پر شاہد ہے: ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض، ولکن ینزل بقدر ما یشاء، انہ بعبادہ خبیر بصیر[ سورہ شوری: 27]۔ اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے روزی کے سارے دروازے کھول دے تو لوگ زمین میں بغاوت اور فساد پر اتر آئے گے، مگر اس رب کو پتہ ہیکہ کس مقدار میں انسانیت کو کتنے علم وحکمت کی ضرورت ہے وہ اسی حساب سے نازل فرماتا ہے، بے شک وہ اپنے بندوں سے اچھی طرح باخبر اور بصیر ہے۔ قرآن حکیم نے کئی علوم وفنون کے مبادیات کی بنیاد رکھی ہے، سینکڑوں آیتیں غور و تدبر کی دعوت دیتے ہیں، جبکہ دیگر مذاہب و ادیان کی مقدس کتابیں اس روحانیت سے خالی ہیں، آپ ان کا مطالعہ کیجئے، ہر مذہب کے پاس اپنے دین ودھرم کو سمجھنے کے لئے کوئی نہ کوئی سچی یا جھوٹی مذہبی کتاب یا گرنتھ نامہ ضرور موجود ہے، ان سیاہ بے مقصد اوراق کی گردانی کرتے چلے جائیں، سیکنڑوں صفحات کے مطالعہ کے بعد آپ کو ایسا لگے گا شاید میں پاگل پن کی دہلیز پر ہوں، اس کے برعکس آپ قرآن کریم کا ایک صفحہ سوچ بچار کے ساتھ مطالعہ کیجئے، آپ کے سامنے اسرار فطرت اور رموز کائنات کے بے شمار دروازے کھلتے چلے جائیں گے، سکون واطمئنان کی وہ عجیب کیفیت طاری ہوجائے گی جو یورپ وایشیا کی حسین وادیوں میں سیاحت سے بھی نہ مل سکے، اور آپ جیسے جیسے علوم قرآن کی گہرائی تک پہنچتے جاو گے کائنات کے سربستہ راز، خالق و مالک کی حقیقی پھچان، اور اس کی طاقت وحکمت کا اندازہ ہوتا جائے گا، قرآن حکیم کی سینکڑوں تعلیمات سائنسی تحقیقات ومشاہدات کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہیں۔ اسلام روز اول ہی سے تحقیق و جستجو کی تعلیم دیتا ہے، غور وفکر پر مبنی سینکڑوں مضامین قرآن وسنت میں بکھرے پڑے ہیں، اور اکثر مضامین میں بطور خاص کفار کو مخاطب کیا گیا ہے، انہیں تفکر کائنات اور تکوینی حکمت میں تدبر پر ابھارا گیا ہے، جبکہ دیگر مذاہب وادیان اپنے مخاطبین ومخالفین کے لئے اتنے تنگ نظر ہیں کہ ایک تو تخلیق وتکوین کا فلسفہ ان کے یہاں ندارد، اور دوسرے انکی مذہبی کتابیں اخلاق وتربیت کی روح سے بھی خالی ہیں۔ ماہرین ریاضیات کی عموما اسلام تک رسائی نہیں ہوپاتی، اپنی اوقات فراغت میں جو کچھ وہ ٹی وی یا میڈیا میں دیکھتے ہیں اسے مذہب کی لڑائی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، تاہم جن سائنسدانوں اور محققین تک قرآن وسیرت کے بعض مضامین پہونچے ہیں وہ اس بات کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ ان کی تحقیقات سارے ادیان ومذاہب میں اسلام کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ ذیل میں چند مسائل کا ذکر ہے جس سے اسلام و سائنس میں توافق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مزید تفصیل کے ڈاکٹر غلام مرتضی کی کتاب " وجود باری تعالی اور توحید " کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
1- فرمان الہی ہے: کیا کافروں نے غور نہیں کیا کہ آسمان اور زمین ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے، اور ہم نے ہی انہیں جدا جدا کیا [ سورہ انبیاء: 30]۔ بعض لوگ اس آیت کو بگ بینگ تھیوری (big bang theory) کا تقریبی تصور مانتے ہیں، قرآن کریم میں بگ بینگ تھیوری یا نیبولا یا کسی بھی نظریہ کے تصورات کو حتمی نہیں کہا جاسکتا، کائنات کی تخلیق وتکوین سے متعلق مسائل کو ذکر کرنے میں قرآن کریم کا اپنا ایک منفرد اسلوب و انداز ہے۔ اہل تحقیق نے مشاہدات ونظریات کی بنیاد پر اسے جو بھی نام دیا ہو۔ بندری نظریہ سے لیکر فرائڈ، آن انسٹائن، کے نظریات ہمیشہ سے ہی تشکیک وتردید کا شکار رہے، وجود کون سے متعلق جس قدر نظریات وجود میں آئے ان میں حقیقت سے کچھ حد تک قریب تر نظریہ بگ بینگ تھیوری کا ہے، سائنس داں صدیوں کی محنت کے بعد اسی نتیجہ پر پہونچے ہیں جس کی نظریاتی بنیاد اسلام نے رکھی تھی، کہ یہ کوئی بات دھواں دھواں تھی، پانی کا وجود تھا، پھر آسمان و زمین کو جو باہم ملے ہوئے تھے جدا کیا گیا، بابائے انسانیت آدم علیہ السلام کا وجود ہوا۔۔۔، قرآن کریم نے ان ساری تخلیقات کا رب کریم کی طرف انتساب کرکے وجود رب کی دلیلیں مہیا کردیں، ایک جرمن نژاد سائنسداں ڈاکٹر کرونر فرائڈ کہتے ہیں کہ اس سائنسی انکشاف کے بعد جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پڑھتا ہوں تو تعجب ہوتا ہیکہ جس نقطہ تک پہنچنے کے سائنس کو صدیاں بیتی، عرب کی بستی میں بسنے والا ایک شخص کائنات کی ابتدائی پیچیدگیوں کے بارے میں یہ سب کچھ جانتا ہو۔
2- فرمان الہی ہے: انسان پر ضروری ہیکہ وہ اپنے جسم سے نکلنے والے نطفہ پر غور کرے، اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے، وہ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا، جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے [ سورہ طارق۔ 5تا 7]۔ قرآن حکیم نے سینکڑوں سال قبل یہ نقطہ ذکر کیا انسان کی پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلنے اور اچھلنے والا پانی تولید نسل کا سبب ہے۔ علم جنین( Embryonic study) کے مطابق یہ بات صد فیصد درست ہیکہ یہ مادہ منویہ ریڑھ کی ہڈیوں کے ذریعہ فوطوں(testicles) میں اتر جاتے ہیں جس کی شریانیں دماغی اعصاب کے اشارے پر صلب اور ترائب کے درمیان سے نکلتی ہیں-
3- فرمان الہی ہے؛ رب تو وہ ہے جس نے دو ایسے سمندر جاری کئے جو باہم ایک دوسرے سے ملتے تو ہیں تاہم ان کے درمیان ایک برزخ حائل ہے، کیا مجال کہ وہ اپنے حدود سے تجاوز کرے[ سورہ رحمن؛ 20]۔ یہ بات قرآن کریم نے اس وقت ذکر کی تھی جس وقت pycnocline zone اور oceanography کا کوئی تصور بھی موجود نہ تھا، جدید سائنس نے یہ دریافت کیا ہے دنیا کے بعض مقامات پر ایسی کھاڑیوں کا وجود ہے جو قرآن کے بیان کردہ مضمون کے بالکل موافق ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کوئی بحری سفر نہیں کیا اس کے باوجود سمندروں کے اس سربستہ راز کو آپ نے بیان کیا یہ اس بات کی دلیل ہیکہ دین اسلام وہ واحد مذہب ہے جو اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔
4- فرمان الہی ہے کیا آپ نے غور نہیں کیا، کہ بے شک اللہ ہی بادلوں کو گردش میں لاتا ہے، پھر وہی انہیں باہم ملاتا ہے، پھر انہیں تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر تم گرج کا مشاہدہ کرتے ہو جس کے بیچ سے مینہ نکلتا ہے [ سورہ نور: 4]۔ بادلوں کی اس تشکیل وبناوٹ سے ملتی جلتی تعلیمات ہماری سائینس کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے، جس کا ماہرین موسمیات نے اس صدی میں پتہ لگایا ہے،جبکہ قرآن کریم نے اسے صدیوں پہلے بیان کیا ہے، قرآن کریم نے پانی کی اس رولنگ کو (سحاب ثقال) سے تعبیر کیا، سائسندانوں کا اندازہ ہیکہ سطح زمین پر ایک کروڈ 60 لاکھ ٹن پانی ایک سیکنڈ میں بخارات بنتا ہے، اور اسی مقدار وسکنڈ کی رفتار سے زمین پر برستا بھی ہے، لیکن اس حقیقت کا ادراک کرنے والے سائنسداں آج بی تعجب کا شکار ہیں کہ اب تک ایسی ٹکنالوجی ایجاد نہیں ہوئی جو اس قدرتی پانی کو اپنی مرضی سے جس جگہ چاہے برسانے پر قادر ہو۔ یقینا یہ اس صانع فطرت کا کمال ہے جس کی قدرت کے سامنے سبھی آلے عاجز ہیں۔ 5- فرمان الہی ہے وہ پانی جو تم پیتے ہو کبھی اس پر غور کیا؟ انھیں بادلوں سیبھی نازل کرتے ہو یا ہم؟، اگر ہم چاہے تو اسے کھارا(نمکین) بنادیں، پھر تم کیوں شکر بجا نہیں لاتے [سورہ واقعہ:69]۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پانی کا منبع 90 فیصد سے زائد نمکین بخارات سے بنتا ہے، ایک سمندر دن بھر میں 35 لاکھ ٹن نمک کو بخار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، آبی بخارات کی اس نمکینی کو میٹھے مینہ میں کون تبدیل کرتا ہے، کس مذہب کے دیوتا نے اس کا دعوی کیا ہے؟، کس دین کی مقدس کتاب نے اس قدر باریک مسائل ذکر کئے ہیں جن تک سائنس داں صدیوں کی تحقیق کے بات پہنچے ہیں، بے شک وہ دین اسلام ہی ہے۔ اگر اللہ رب العالمین کی طرف سے یہ تناسب طے شدہ نہ ہوتا تو نمکین بخارات سے نمکین پانی ہی بنتا، اگر میٹھا پانی نہ نازل ہوتا تو نباتات وحیوانات سے لیکر سارا ماحولیاتی توازن ہمیشہ بگڑی ہوئی شکل میں ہوتا- 6- فرمان الہی ہے پاک ہے وہ ذات جس نے ہر شئے میں جوڑا جوڑا پیدا کیا [یس۔36] اس حیرت انگیز انکشاف تک سائنس کی رسائی اب ہوئی ہے، ہر چیز میں جوڑے داری کا نظام ہے، جبکہ قرآن کریم نے یہ انکشاف صدیوں پہلے کیا ہے۔ 7- فرمان الہی ہے یقینا چوپائے (گائے، بھینس وغیرہ) میں تمھارے لیے بڑی عبرت کی باتیں ہیں، ہم تمھیں وہ خالص دودھ مہیا کرتے ہی جو ان کے گوبر اور خون کے درمیان سے نکلتا ہے، ایسا تازہ دودھ جو پینے والے کو سکون مہیا کرے۔ [النحل: 66] علم کیمیاء کے ماہرین اس قرآنی نتیجہ پر بڑی ان تھک محنت کے بعد پہنچے ہیں، حتی کہ مشہور فلسفی موریس بکاوے نے لکھا کہ دودھ کے اجزائے ترکیبی سے متعلق قرآن کی یہ وضاحت صد فیصد سائنسی تحقیقات سے مشابہت رکھتی ہے۔ 8- فرمان الہی ہے بے شک جسے اللہ ہدایت دینے کا ارادہ رکھتا ہے، اس کا سینہ اسلام کی خاطر کھول دیتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے تو اس کا سینہ انتہائی تنگ اور گٹھن جیسا کردیتا ہے گویا وہ آسمان کی بلندی پر پرواز کررہا ہو۔ [ سورہ انعام؛ 125]۔ آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تناسب کا اس زمانہ میں وجود بھی نہ تھا جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی، اور یہ بتایا گیا کہ جس قدر انسان آسمان کی طرف جائے گا آکسیجن کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے تنگی اورگٹھن کا احساس بڑھتا جائے گا۔ بے شک اسلام نے اس حقیقت کی جانب سائنسی ترقی سے قبل ہی اشارہ کردیا ہے۔ ان کے علاوہ اور سیکنڑوں مسائل ہیں جو اسلام کی حقانیت کی کھلی اور واضح دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ دعا ہیکہ اللہ رب العالمین اسلام کی نعمت کو ہم پر موت تک قائم رکھے۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں