آسام کے ناگون ضلع میں ہفتے کے روز بڑی پیمانے پر انہدامی کارروائی کے دوران انتظامیہ نے 795 ہیکٹر ریزرو جنگل کی زمین سے مبینہ تجاوزات ہٹا دیں، جس کا بڑا نشانہ تقریباً 1500 بنگالی بولنے والے مسلمان خاندان بنے۔ یہ کارروائی لوٹی ماری علاقے میں ہوئی، جہاں یہ خاندان کئی دہائیوں سے مقیم تھے۔ انتظامیہ کے مطابق تین ماہ قبل ان خاندانوں کو نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ دو ماہ میں علاقہ خالی کر دیں، جس پر وہ ایک ماہ کی مزید مہلت مانگ رہے تھے، جو انتظامیہ نے قبول کر لی۔
حکام کے مطابق انہدامی کارروائی کے روز 1100 سے زائد خاندان پہلے ہی اپنے گھر توڑ کر علاقہ چھوڑ چکے تھے، جب کہ باقی گھروں کو انتظامیہ نے منہدم کر دیا۔ کئی بے دخل افراد نے بتایا کہ ان کے پاس اب کوئی جائے رہائش نہیں ہے اور حکومت کو چاہیے کہ ان کی بحالی کا بندوبست کرے۔ فارسٹ ڈپارٹمنٹ کے اسپیشل چیف سیکریٹری ایم کے یادو کا کہنا تھا کہ اس انخلا سے انسانی و ہاتھی تصادم کی روک تھام میں مدد ملے گی۔
متعدد بے گھر افراد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بغیر کسی متبادل کے بے یار و مددگار چھوڑ دیے گئے ہیں۔
ایک شہری کے الفاظ میں:
“ہمارے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ حکومت اگر کوئی رہائش دیتی تو بہتر ہوتا۔ ہم نے حکم کا احترام کرتے ہوئے خود ہی علاقہ خالی کیا، مگر اب ہمیں بازآبادکاری چاہیے۔”
متاثرین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے خاندان دہائیوں سے یہاں رہ رہے تھے اور ان کے آباؤ اجداد برہم پترہ دریا کے کٹاؤ کے باعث اپنی زمینیں کھونے کے بعد یہیں آباد ہو گئے تھے۔
حکومتی موقف
محکمہ جنگلات کے اسپیشل چیف سکریٹری ایم کے یادوا نے کہا کہ:
“یہ قدم انسان اور ہاتھی کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کو روکنے اور جنگلات کی بقا کے لئے ضروری تھا۔”
آسام میں 2016 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی بڑے انہدامی آپریشن کیے گئے ہیں، جن میں اکثر نشانہ بنگالی النسل مسلمان علاقوں کو بنایا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کا دعویٰ ہے کہ مئی 2021 سے اب تک 160 مربع کلومیٹر زمین قبضہ مافیا سے خالی کرائی گئی ہے۔
اس واقعے نے انسانی حقوق کے حلقوں میں متعدد سوال کھڑے کر دیے ہیں:کیا ایسی کارروائیاں معاشرتی طور پر کمزور طبقات کو ٹارگٹ کر رہی ہیں؟بے گھر افراد کی بازآبادکاری کب اور کیسے ہوگی؟ہزاروں بچوں، خواتین اور معمر افراد کے لیے عارضی رہائش کا انتظام کون کرے گا؟




