سلیقہ جن کو سکھایا تھا ہم نے چلنے کا

مودی نے دادری واقعہ پر صرف افسوس کا اظہار کیا جبکہ انہیں واقعہ کی مذمت اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ مودی نے ایک اخبار کو انٹرویو میں افسوس جتایا حالانکہ وہ بہار کی انتخابی مہم میں مختلف جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ لہذا انہیں عوام کے روبرو اس واقعہ پر ندامت اور مذمت کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ چونکہ نریندر مودی صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے افسوس کا اظہار کر رہے ہیں لہذا پارٹی میں موجود کٹر پسند قائدین اپنی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ نریندر مودی ایک پر بھی لگام کسنے میں ناکام ہوگئے۔ مودی کی نصیحت ابھی تازہ تھی کہ ہریانہ کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹر نے بیف کے حوالے سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا ہے تو بیف کھانا ترک کرنا ہوگا۔ اگرچہ چیف منسٹر ہریانہ نے فوری اپنے بیان کی وضاحت کردی لیکن یہ سنگھ پریوار قائدین کیلئے کوئی نئی بات نہیں۔ وہ پہلے تو زہر اگلتے ہیں اور پھر بعد میں اپنا موقف تبدیل کرلیتے ہیں ۔ اس وقت تک سماج میں نفرت کا زہر پھیل چکا ہوتا ہے۔ نریندر مودی نے دادری قتل اور ممبئی میں پاکستانی فنکار غلام علی کے پروگرام کو روکنے سے بی جے پی کی لاتعلقی کا اظہار کیا۔ کیا مہاراشٹرا میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے؟ کیا دادری قتل سانحہ میں بی جے پی کے کارکن ملوث نہیں؟ ظاہر ہے ان سوالات کا وزیراعظم کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔

اب جبکہ ہریانہ کے بی جے پی چیف منسٹر منوہر لال کھٹر نے مسلمانوں کے خلاف بکواس کی ۔ کیا وزیراعظم ان کا تعلق بی جے پی سے تسلیم نہیں کریں گے؟ اگر نریندر مودی اپنے دعوے میں سچے ہوں تو انہیں ہریانہ کے چیف منسٹر کو فوری برطرف کرنا چاہئے ۔ منوہر لال کھٹر گزشتہ 40 سال سے آر ایس ایس سے وابستہ رہ چکے ہیں اور ان کی کٹر پسند سیاست سے ہریانہ کا ہر شخص واقف ہے۔ انہوں نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر مسلمانوں کو ویجیٹرین غذاؤں کے ساتھ عید منانے کا مشورہ دیا تھا ۔ ان کے ایک وزیر نے میٹ پر پابندی اور بکروں کو ذبح کرنے کی مخالفت میں کھل کر بیان دیا تھا ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کے ہر گوشہ میں نفرت کے ایجنڈے کے ساتھ نفرت کے پرچارک آگے بڑھ ہیں ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جان لینا چاہئے کہ ہندوستان میں مسلمان کسی کی مہربانی یا عنایت کے سبب موجود نہیں ہے بلکہ وہ ملک میں برابر کے شہری ہیں ۔ اس ملک پر ایک ہزار برس تک مسلمانوں نے حکمرانی کی اور اس کے چپہ چپہ پر اسلاف کی نشانیاں آج بھی ہندوستان کی عظمت کو دنیا بھر میں بلند کئے ہوئے ہیں ۔ انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے مسلمان تھے اور جس وقت جدوجہد آزادی جاری تھی، مسلمان انگریزوں کے خلاف برسر پیکار تھے لیکن منوہر لال کھٹر کی آر ایس ایس ، انگریزوں کیلئے مجاہدین آزادی کی جاسوسی کر رہی تھی۔ ملک میں رواداری کا خاتمہ اور دوسرے کو برداشت کرنے کے جذبہ میں کمی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملک کے 26 سے زائد مصنفین نے آواز اٹھائی ہے اور انہوں نے اپنے ایوارڈس واپس کردیئے ۔ مصنفین ، شاعروں اور دانشوروں کا یہ اقدام تاریکی میں امید کی کرن ہے اور دستور کے تحفظ کیلئے ان کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے ۔

ملک میں نہ صرف مذہبی عدم رواداری عروج پر ہے بلکہ دستور میں دیئے گئے اظہار خیال حتیٰ کہ سوچ اور غذا پر بھی سنگھ پریوار کنٹرول کرنا چاہتا ہے ۔ ادیب ، شاعر اور فنکاروں نے جس طرح حمیت اور غیرت کا مظاہرہ کیا کاش سیاستداں بھی اسی شدت کے ساتھ مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوتے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ مسلم شعراء و ادیب بھی اس طرح کی حمیت کامظاہرہ کرتے۔ ابھی تک ایک بھی مسلم شاعر و ادیب نے اعزاز واپس نہیں کیا ۔ کئی ایسے لسانی شعراء و ادیب اور مصنفین ہیں جو عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں۔ نفرت کے ایجنڈے کے تحت ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ شدت اختیار کرچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس بارے میں مرکز سے جواب طلبی کے فوری بعد جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں متحرک ہوگئیں۔ سپریم کورٹ نے مختلف مذاہب کیلئے علحدہ پرسنل لا کے بجائے دستور کی دفعہ 44 کے تحت کامن سیول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں حکومت کو جواب داخل کرنے 3 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا نفاذ، کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی تنسیخ اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر جیسے متنازعہ مسائل آر ایس ایس کا ایجنڈہ ہیں اور 2014 ء کے عام انتخابات میں انہیں بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل کیا گیا۔ نریندر مودی حکومت میں نفرت کے سوداگر اور ملک کے اتحاد و یکجہتی کے دشمن چونکہ آزاد ہیں لہذا بی جے پی حکومت سے بھلائی کی امید کرنا عبث ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے مسئلہ پر سیاست کی گنجائش اس لئے کم ہے کیونکہ بابری مسجد انہدام کا معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے۔ رام مندر کی تعمیر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ بابری مسجد شہادت کے خاطیوں کو سزا دے۔ جہاں تک دفعہ 370 کی تنسیخ کا معاملہ ہے، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے واضح کردیا کہ یہ دستور کا مستقل حصہ ہے اور اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ کشمیر کے خصوصی موقف کی مخالفت کرنے والے شائد اس بات سے واقف نہیں کہ 1947ء میں اصولی طور پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان کا حصہ ہوں گے لیکن اکثریت کے باوجود کشمیر کے مسلمانوں نے ہندوستان سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی۔ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر ہندوستان کی ناک ہے اور ہندوستان کا اٹوٹ حصہ برقرار رکھنا مسلمانوں کے لئے باعث فخر ہے۔

سنگھ پریوار نے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ مختلف مذاہب کے پرسنل لا کو ختم کرنے کی سازش تیار کی ہے ۔ یہ رجحان ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا ۔ سپریم کورٹ سے جواب طلبی کی آڑ میں یہ طاقتیں دوبارہ سرگرم ہوچکی ہیں اور ان کا واحد نشانہ شریعت اسلامی ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں عیسائی اور دوسری مذہبی اقلیتیں بھی یکساں سیول کوڈ کے خلاف ہیں کیونکہ ہر مذہب کے علحدہ عائیلی قوانین ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ دستور نے ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے اور اس کے پرچار کا حق دیا ہے ۔

یہ دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ ایسے میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوئی گنجائش نہیں۔ دستور سازوں نے دفعہ 44 کی گنجائش برقرار رکھی جس کی تنسیخ کا طویل عرصہ سے مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں ۔ یکساں سیول کوڈ دراصل شریعت اسلامی پر لٹکتی تلوار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکساں سیول کوڈ کے ذریعہ کیا مسلمانوں کو نکاح کیلئے پھیرے لینے پر مجبور کیا جائے گا ؟ اگر ملک میں سب کیلئے ایک قانون نافذ کرنا ہو تو پھر اسلامی قانون سے بہتر کوئی اور قانون نہیں ہوسکتا کیونکہ یہی واحد قانون الٰہی اور قانون فطرت ہے۔ اسلام کا راستہ انسانیت میں مساوات اور کامیابی کی رہنمائی کرتا ہے ۔ مرکزی وزیر قانون سدانند گوڑا نے اس مسئلہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے مسلم پرسنل لا بورڈ سے مشاورت کی بات کہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان شریعت میں معمولی ترمیم کی اجازت نہیں دے سکتا اور مرکز کی نریندر مودی حکومت آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے دباؤ میں کوئی قدم اٹھائے گی تو یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ اگر مودی حکومت یہ غلطی کرتی ہے تو اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجائے گا۔ دستور میں دیئے گئے حقوق کی بنیاد پر پرسنل لا کے تحفظ کی بات کرنا توہین عدالت نہیں ہے ۔ ایسے وقت جبکہ اسلام، شریعت اور مسلمانوں کے دینی اور ملی تشخص کو مٹانے کیلئے جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں حرکت میں ہیں، مسلم نمائندوں اور قیادتوں کا حال افسوسناک ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈے کے تحت اپنے خول میں بند ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ جو نمائندہ ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے، اسے فوری سرگرم ہونا پڑے گا۔ ابھی تک پرسنل لا بورڈ کے کئی ہنگامی اجلاس ہوجانے چاہئے تھے ۔ بورڈ نے دین اور دستور بچاؤ مہم کا آغاز کیا تھا لیکن یہ چند اجلاسوں تک محدود رہا۔ یکساں سیول کوڈ جیسے حساس مسئلہ پر شعور بیداری کے علاوہ سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کی ضرورت ہے۔ بورڈ کو چاہئے کہ وہ ملک کی مختلف عدالتوں کے مخالف شریعت فیصلوں کو چیلنج کرے۔ اس کیلئے ماہرین قانون و دستور پر مشتمل پیانل تشکیل دیا جائے۔ ملک میں آج مسلمانوں کی ایسی قیادت کی کمی ہے جو حکومت کی آنکھ میں آنکھ ملاکر بات کرسکے۔ مصلحتوں نے قیادتوں کو کمزور کردیا ہے ۔ آج وہ قیادت نہیں جس نے شاہ بانو کیس میں حکومت کو دستور میں ترمیم کیلئے مجبور کیا تھا۔

ان حالات سے نمٹنے کیلئے سیاسی طاقت کی بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن افسوس کہ قومی سیاسی جماعتوں میں مسلم نمائندگی صفر کے برابر ہے اور جن افراد کو مسلم چہروں کی طرح پیش کیا جارہا ہے، وہ دین اور شریعت سے کوسوں دور ہیں ۔ آئندہ دو برسوں میں بی جے پی کو راجیہ سبھا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔ ایسے میں کسی بھی قانون کو منظور کرنا ، اس کیلئے آسان ہوجائے گا۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ میں حلفنامہ داخل کریں اور تمام مذاہب کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو ناقابل قبول قرار دے۔ حکومت حلفنامہ کے ذریعہ سپریم کورٹ کو مذہبی آزادی سے متعلق دستوری حق سے بھی آگاہ کرے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے تنازعات کی گنجائش نہ رہے۔ دستور کی دفعہ 44 کو مستقل طور پر حذف کرتے ہوئے ہمیشہ کیلئے پرسنل لا کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے ۔ دستور کی پاسداری کا حلف لینے والی نریندر مودی سرکار کیلئے یہ ایک آزمائش ہے جو عوام کے مذہبی جذبات کے احترام کا دعویٰ کرتی ہے۔ یکساں سیول کوڈ کا تنازعہ اگر شدت اختیار کرے گا تو ملک میں عدم استحکام کا سبب بن سکتا ہے۔ ڈاکٹر راحت اندوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
سلیقہ جن کو سکھایا تھا ہم نے چلنے کا
وہ لوگ آج ہمیں دائیں بائیں کرنے لگے

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے