سجدہ خالق سے تو ابلیس سے یارانہ کیوں؟

احساس نایاب

12 ربیع الاول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا مبارک دن، جب ساری کائنات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت العلمین بن کے تشریف لائے، اپنی سیرت اپنے کردار سے پورے عالم کو منور کیا، زندگی گذارنے کے بہترین آداب سیکھائے جس میں حسن سلوک، حسن اخلاق، ہمدردی اور قربانی کا بےلوث جذبہ شامل ہے یہاں تک کے دین اور دنیا سے جڑی ذرہ برابر بھی کوئی ایسی بات یا چیز نہیں بچی جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم نہ دیا ہو، مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلمانوں کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعل راہ بنے یہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی ایسے غیرمسلم بھائی بہن ہیں جو آپ کی حیات طیبہ کا گہرائی سے مطالعہ کر عملاً آپ کی پیروی کرتے ہوئے فیضیاب ہورہے ہیں، اور الحمدللہ تمام مسلم ممالک میں 12 ربیع الاول کے دن اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے جلسہ، تقاریب منعقد کئے جاتے ہیں، شہر بھر میں جلوس نکالا جاتا ہے، اور اس سال اتفاق سے جلوس دیکھنا نصیب ہوا، اس سے قبل جب بھی جلوس کا تصور کرتے تو ہمارے وہم و گماں میں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شیبہ کچھ الگ مختصر سی تھی، کہ جلوس میں شہر کے تمام مسلمان بھائی اور بچوں کا سیلاب اُمڈ پڑیگا جو سفید لباس میں زیب، سروں پہ تاج کی طرح امامہ سجائے، لبوں پہ تضبیحات اور درود و سلام کا ورد کرتے ہوئے بڑے ہی ادب و احترام، سادگی کے ساتھ اپنی عقیدت کا نذرانہ بارگاہ الہی اور بارگاہ رسالت میں پیش کرینگے اور دورانِ جلوس جب مساجد سے اذان کی آواز ہرسو گونجےگی تو اذان کے ساتھ ہی ہر ایک کی زبان پہ اللہ اکبر کی صدائیں بھی گونجنے لگیں گی اور سبھی اپنی اپنی جگہ پہ سفیں باندھے کھلے آسمان کے نیچے ایک ساتھ اُس رب کائنات کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونگے اور دیکھنے والوں کے لئے یہ منظر ایسا ہوگا جیسے عرش سے فرشتے اتر کر ارض کا مقدر سنوار رہے ہوں۔

اور اس منظر کو دیکھ کر غیر مسلمانوں کی گردنیں جھک جائیں گی انکی زبانوں پہ ہمیشہ کے لئے کُفل لگ جائیں گے، فرقہ پرستوں کے دل اس عظیم اتحاد کی قوت سے دھل جائینگے اور ان میں سے کئی ہمارے ایمانی جذبے سے متاثر ہوکر اللہ سبحان تعالی کے فضل وکرم سے ہدایت پائینگے۔

لیکن افسوس یہ صرف ہمارا تصور تھا ……. ہمارے نوجوان بھائیوں میں جذبہ ہونے کے باوجود انکے اعمال ایمان پہ کھڑے نہیں اُترپائے اور جانے انجانے میں یا نادانی میں وہ غیروں کے نقش وقدم پہ چلتے جارہے تھے، یہاں تک کے جہالت کے تمام پیمانے اُس وقت جھلک پڑے جب اس بابرکت دن ڈی جے کی دُھن پہ ہمارے چند نوجوان بھائی مدمست ہوکر ٹھمکے لگارہے تھے اُس جاہلانہ منظر کو دیکھنے کے بعد ہمارا سر شرم سے جُھک گیا، اللہ جانے اس مبارک دن ٹھمکے لگاکر، کیک کاٹ کر یہ کونسا عشق ثابت کرنا چاہ رہے تھے؟

کیا اس طرح کی حرکتیں ہم مسلمانوں کے لئے زیب دیتی ہیں ؟

جس طرح سے انہونے ماتھے پہ رنگ برنگی پٹیاں باندھی تھیں، غیر مذاہب کے رسم رواج، رنگ ڈھنگ میں ملوث ہوکر کفار کی پیروی کررہے تھے اُس لمحہ اُن میں مسلمانیت گُم ہوکر کفار کی مشابہت نظر آرہی تھی، اور وہ لمحات ہر اہل علم کے لئے لمحہ فکریہ تھے۔

بھلے وہ کسی بھی جماعت کسی بھی مسلک سے کیوں نہ جڑے ہوں۔

یہ سچ تلخ ضرور ہے لیکن حق ہے، جو اُس دن آنکھوں نے دیکھا اُسی کو قلم بند کیا ہے، ہوسکتا ہے اس مضمون کو پڑھ کر کئیوں کو برا لگے، تکلیف پہنچے مگر موجودہ حالات کی یہی ترجمانی ہے اور اس طرح کی جہالت کی اصلاح کرنا ہر صاحب علم کے لئے فرض عین ہے۔

کیونکہ کسی بھی قوم میں اس طرح کے حالات اُسی وقت پیش آتے ہیں جب قوم کے رہنماء، ذمہ داراں انا پرست بن جائیں اور ان کی اس انا پرستی تکبر کی وجہ سے آپسی اختلافات پیدا ہونے لگتے ہیں اُس وقت صحیح رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے عام مسلمان بھٹک جاتا ہے اورآج جن حالات سے اُمت مسلمہ جوج رہی ہے اُس کے ذمہ دار بھی ہمارے یہی علماء اور قائدین ہیں ………. یہاں پہ ایک اور غورطلب بات ہے، جب علماؤں کی ایک آواز پہ ہزاروں لوگ لبیک کہتے ہوئے انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ہر اچھے برے، صحیح غلط فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے حامی کی مہر لگاتے ہیں ……… مثلاً عید کے موقعہ پر ہی دیکھ لیں چاند نظر آئے نہ آئے یا بھلے کسی نے چاند کو دیکھ بھی لیا ہو پھر بھی اہمیت علماء کی طرف سے چاند نظر آنے کی تصدیقی کی جاتی ہے اور جب تک علماؤں کی طرف سے اعلان نہیں کیا جاتا اُس وقت تک مسلمان یقین نہیں کرتے یہاں تک کے ایسے کئی معملات ہیں جہاں علماء آور قائدین کا اہم کردار ہے اور انکی رائے بڑی ہی اہمیت رکھتی ہے چاہے وہ دینی معملات ہوں یا دنیاوی، سیاسی و سماجی، ان کی تصدیق ملنے تک ہر عام و خاص مسلمان صبر کرتا ہے اور تو اور انکی ایک آواز ایک اشارے پہ مرنے مارنے کے لئے بھی تیار ہوجاتے ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں علماء و قائدین کے لئے کتنی عزت و احترام ہے کہ آج کا ہر عام و خاص مسلمان شخصیت پرستی کرنے کو بھی اپنا اہم فریضہ مان رہا ہے۔

ایسی صورتحال میں ہمارے نوجوان ان چھوٹی موٹی نصیحتوں پہ کیوں عمل نہیں کررہے ادب واحترام تو دور کی بات ہے یہ تو عشق کے نام پہ بار بار بےحرمتی کررہے ہیں، آخر کیوں یہ اپنی جہالت بھری حرکتوں سے باز نہیں آرہے ؟ یا ہمارے بزرگوں کی نصیحتیں انکی اصلاحی اور دعوتی کاموں میں کوئی چوک، لاپرواہی ہورہی ہے؟ جس کی وجہ سے یہ سدھرنے کے بجائے اور زیادہ بگڑتے جارہے ہیں۔

خیر جس مقصد سے جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جن کی شان میں کیا جاتا ہے کم از کم اُن کے لئے ہی سہی ہر مسلمان کا خود میں بدلاؤ لانا ضروری ہے، صرف زبانی خود کو عاشقان رسول کہنے سے کوئی عاشق نہیں بنتا بلکہ عملاً اُن کے نقش وقدم پہ چل کر اپنی ذات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ عاشق وہ ہوتا ہے جو اپنے محبوب کے رنگ میں پوری طرح سے رنگ جائے اور اُس کے کردار اُس کے اخلاق سے بھی محبوب کی مہک آنے لگے۔

مگر افسوس صد افسوس یہاں پہ کہنے کے لئے تو عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر کوئی ہے، مگر جب عملاً ثابت کرنے کی بات آتی ہے تو کوئ اپنی لاعلمی کی وجہ سے تو کوئی صاحب علم ہونے کے باوجود اپنی انا تکبر اور گھمنڈ کی وجہ سے کھرے نہیں اُتر پاتے ……….. لاعلم نوجوانوں کی جہالت تو صاحب علم کی انا، تکبر امت مسلمہ کے لئے ایک بہت بڑا فتنہ بن چکی ہے، ہماری نوجوان نسلوں کو لے ڈوب رہی ہے ………. یاد رہے یہ علم کا تکبر ابلیس کی صفت میں شمار کیا جاتا ہے جو کہ لاعلمی کی جہالت سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے ……… اس تکبر گھمنڈ کی وجہ سے مسلمان مسلمان کا بھائی بھائ کا دشمن بنا ہوا ہے۔

جس عظیم دن عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا ہوکر اتحاد کے ساتھ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا وہیں ایک جسم کہلانے والی ہماری قوم فرقوں و مسلکوں، جماعتوں کو اہمیت دیتے ہوئے بٹی نظر آئی، جہاں سبھی کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہئیے تھا وہیں غیبت، ایک دوسرے کے خلاف بیان بازیاں چل رہی تھیں، جیسے ہندو مذہب میں ذات پات کو لیکر بھید بھاؤ تکرار ہوتا ہے اور جس طرح سے وہ اپنے عقائد کے چلتے ذات پات میں بٹکر اپنی علیحدہ بت پرستی کرتے ہیں، کچھ اُسی طرح ہمارے مسلمان بھی فرقوں میں بٹ کر ہر کوئی اپنی الگ جماعت الگ تنظیم بناکر شخصیت پرستی میں مصروف ہے، جس کی وجہ سے دورحاضر میں اسلام کو دشمناں اسلام سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا نام نہاد مسلمانوں سے ہے، ایک دوسرے کے خلاف زہر اُگلتے ہوئے خود کو اعلٰی ثابت کرنے کے چکر میں اپنے ہی بھائیوں کو نیچا دکھا کر یہ کونسی ایمانیت ثابت کی جارہی ہے، مانا جلوس کے نام پر چند جاہل نوجوان جو دین سے دور ہیں وہ شرک و بدعت کرتے ہوئے اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں، لیکن جو صاحب علم ہیں کیا ان کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ ان کے بیچ جاکر ان کی اصلاح کریں …….. یا ان بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو راہ راست پہ لانا پوری طرح سے ناممکن ہوچکا ہے ؟ جو ایک دوسرے کے جلوس و تقاریب کا حصہ بننا بھی اہل علم حضرات غیر ضروری سمجھتے ہیں، آخر ایسا کیوں؟

رہی میلادالنبی منانے کی بات تو یہ اللہ سبحان تعالی بہتر جانتے ہیں کہ صحیح ہے یا نہیں مگر موجودہ حالات کے مدنظر دشمنانِ اسلام کو اپنی طاقت، اتحاد دکھانے کی نیت سے ہی سہی ہم مسلمانوں کو لبیک کہتے ہوئے ایک جگہ ایک ساتھ جمع ہونا ضروری ہے، کچھ جگہوں پر اپنا دل بڑا کرتے ہوئے آپسی اختلافات، نااتفاقیوں کو درگذر کر ایک دوسرے کو برداشت کرنا ضروری ہے اور ہمارے بیچ ہر ایک کی قابلیت کو پہچانتے ہوئے ایسے حلقے تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ناگہانی آفت میں اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ایک دوسرے کی طاقت بن کر دشمنان اسلام کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے ہردم کمربستہ رہیں جن میں جوشیلے نوجوانوں کا جوش ان کی ہمت،طاقت اور اہل علم صاحبان کی حکمت عملی اور ساتھ ہی قائدین کی رہنمائی مل کر ایک مضبوط ہتھیار بن جائے، جو وقت کے ساتھ کبھی ڈھال تو کبھی تیزدھاری تلوار کا کام کرے، اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہوگا جب ہم ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں گے ………. مسلکوں، فرقوں و تنظیموں میں محدود ہوکر خود کو بےبس، مظلوم زمین کی طرح نہ بنائیں جسے کوئی بھی آکر پیروں تلے روندھ کر چلاجائے بلکہ اُس وسیع آسمان کی طرح بنیں جو وقت کے مطابق رحمت تو کبھی کہر بنکے برستا ہے، تاکہ آسمان کی اور دشمن کی کمان سے نکلا ہر تیر پلٹ کر اُسی کو گھائل کردے۔

جس کے لئے ہم سبھی کو اپنی انا کی قربانی دینی ہوگی، فرقوں کے نام پر اُمت مسلمہ کو توڑنے کے بجائے ایک ساتھ جوڑنا ہوگا، انکے دلوں میں ہر ایک کے لئے عزت احترام اور قربانی کا جذبہ جگانا ہوگا، ابھی آپسی رنجشوں اور اختلافات کا وقت نہیں رہا، دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کے حالات پیش آرہے ہیں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، دشمنان اسلام کبھی بھی ہم پہ حملہ آور ہوسکتے ہیں اسلئے وقت رہتے ہوئے سنبھل جائیں ایک ہوجائیں آپ سبھی کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ، ہماری قوم کے لئے ایک قابل قائد تیار کریں، جوشیلے، بےباک و جان باز سپاہیوں کو تیار کریں، ورنہ لحد میں سونے کے بعد فرشتے بھی ہم سے وہی سوال پوچھینگے، جو علامہ اقبال نے اپنے شعر کے ذریعہ پوچھا ہے؎

عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی

یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا ؟

سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی

حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا ؟

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:09ڈسمبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

تلنگانہ میں ٹی آر ایس کامیاب مہاکوٹمی ناکام ۔ کیوں۔؟

کیا وزیراعظم نے بھانپ لی ہے شکست؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے