صدقہئ فطر رمضان کی کوتاہیوں کا کفارہ اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
زکاۃ کی دو قسمیں ہیں: زکاۃ المال یعنی مال کی زکاۃ جو مال کی ایک خاص مقدار پر فرض ہے۔ زکاۃ الفطر یعنی بدن کی زکاۃ، اس کو صدقہئ فطر کہا جاتا ہے۔ صدقہئ فطر کیا ہے: فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اس صدقہ کا نام صدقہئ فطر ہے جو ماہ رمضان کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے، نیز صدقہئ فطر رمضان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا کفارہ بھی بنتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صدقہئ فطر روزہ دار کی بے کار بات اور فحش گوئی سے روزے کو پاک کرنے کے لئے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابو داود، ابن ماجہ) صدقہئ فطر مقرر ہونے کی وجہ: عید الفطر میں صدقہ اس واسطے مقرر کیا گیا ہے کہ اس میں روزہ داروں کے لئے گناہوں سے پاکیزگی اور ان کے روزوں کی تکمیل ہے۔ نیز مالداروں کے گھروں میں تو اس روز عید ہوتی ہے، مختلف قسم کے پکوان پکتے ہیں، اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں، جبکہ غریبوں کے گھروں میں بوجہ غربت اسی طرح روزہ کی شکل موجود ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے مالدار اور اچھے کھاتے پیتے لوگوں پر لازم ٹھہرایا کہ غریبوں کو عید سے پہلے صدقہئ فطر دے دیں تاکہ وہ بھی خوشیوں میں شریک ہو سکیں، وہ بھی اچھا کھا پی سکیں اور اچھا پہن سکیں۔ صدقہئ فطر کا وجوب: متعدد احادیث سے صدقہئ فطر کا وجوب ثابت ہے، اختصار کے مد نظر تین احادیث پر اکتفاء کررہا ہوں:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہئ فطر مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (بخاری ومسلم) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے رمضان کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ (ابوداود) اسی طرح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ایک منادی کو اعلان کرنے کے لئے بھیجا کہ صدقہئ فطر ہر مسلمان پر واجب ہے خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا۔ (ترمذی) صدقہئ فطر کس پر واجب ہے: حضور اکرم ﷺکے اقوال کی روشنی میں ۰۸ ہجری میں پیدا ہوئے حضرت امام ابوحنیفہؒ اور علماء احناف کی رائے کے مطابق جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ ضروریات سے زائد اس کے پاس اتنی قیمت کا مال واسباب موجود ہو جتنی قیمت پر زکاۃ واجب ہوتی ہے تو اس پر عید الفطر کے دن صدقہئ فطر واجب ہوگا، چاہے وہ مال واسباب تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزرے یا نہیں۔ غرضیکہ صدقہئ فطر کے وجوب کے لئے زکاۃ کے فرض ہونے کی تمام شرائط کا پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ دیگر علماء کے نزدیک صدقہئ فطر کے وجوب کے لئے نصاب زکاۃ کا مالک ہونا بھی شرط نہیں ہے یعنی جس کے پاس ایک دن اور ایک رات سے زائد کی خوراک اپنے اور زیر کفالت لوگوں کے لئے ہو تو وہ اپنی طرف سے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے صدقہئ فطر ادا کرے۔ صدقہئ فطر کے واجب ہونے کا وقت:عید الفطر کے دن صبح ہوتے ہی یہ صدقہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہذا جو شخص صبح ہونے سے پہلے ہی انتقال کرگیا تو اس پر صدقہئ فطر واجب نہیں ہوا اور جو بچہ صبح سے پہلے پیدا ہوا تو اس کی طرف سے صدقہئ فطر ادا کیا جائے گا۔ صدقہئ فطر کی ادائیگی کا وقت: صدقہئ فطر کی ادائیگی کا اصل وقت عید الفطر کے دن نماز عید سے پہلے ہے البتہ رمضان کے آخر میں کسی بھی وقت ادا کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ صدقہئ فطر نماز کے لئے جانے سے قبل ادا کردیا جائے۔ (بخاری ومسلم) حضرت نافع ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھر کے چھوٹے بڑے تمام افراد کی طرف سے صدقہئ فطر دیتے تھے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دیتے تھے اور عیدالفطر سے ایک یا دو دن پہلے ہی ادا کردیتے تھے۔ (بخاری) نماز عید الفطر کی ادائیگی تک صدقہئ فطر ادا نہ کرنے کی صورت میں نماز عید کے بعد بھی قضا کے طور پر دے سکتے ہیں لیکن اتنی تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے صدقہئ فطر کا مقصود ومطلوب ہی فوت ہوجا تا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا کردیا تو یہ قابل قبول زکاۃ (صدقہئ فطر) ہوگی اور جس نے نماز کے بعد اسے ادا کیا تو وہ صرف صدقات میں سے ایک صدقہ ہی ہے۔ (ابوداود) لہذا نماز عید سے قبل ہی صدقہئ فطر ادا کریں۔ صدقہئ فطر کی مقدار: چاول، کھجور اور کشمش کو صدقہئ فطر میں دینے کی صورت میں علماء امت کا اتفاق ہے کہ اس میں ایک صاع (نبی اکرم ﷺکے زمانہ کا ایک پیمانہ، یعنی تقریباً ساڑھے تین کیلو) صدقہئ فطر ادا کرنا ہے البتہ گیہوں کو صدقہئ فطر میں دینے کی صورت میں اس کی مقدار کے متعلق علماء امت میں زمانہئ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ اکثر علماء کی رائے ہے کہ گیہوں میں آدھا صاع (یعنی تقریباً پونے دو کیلو) صدقہئ فطر میں ادا کیا جائے۔ حضرت عثمان، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر، حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہم سے صحیح سندوں کے ساتھ گیہوں میں آدھا صاع مروی ہے۔ ہندوستان وپاکستان کے علماء بھی مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ صدقہئ فطر میں گیہوں آدھا صاع (یعنی تقریباً پونے دو کیلو) ہے، یہی رائے مشہور ومعروف تابعی حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی بھی ہے۔ صدقہئ فطر میں آدھا صاع گیہوں کے دلائل:حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جَو یا کھجور یا کشمش سے ایک صاع صدقہئ فطر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگوں نے گیہوں سے صدقہئ فطر نکالنے کے سلسلہ میں ان سے گفتگو کی تو آپ نے فرمایا کہ گیہوں سے صدقہئ فطر میں آدھا صاع دیا جائے، چنانچہ لوگوں نے اسی کو معمول بنا لیا۔ (بخاری ومسلم) ریاض الصالحین کے مصنف اور صحیح مسلم کی سب سے زیادہ مشہور ومعروف شرح لکھنے والے امام نووی ؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ اسی حدیث کی بنیا د پر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور دیگر فقہاء نے گیہوں سے آدھے صاع کا فیصلہ کیا ہے۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: گیہوں کے ایک صاع سے دو آدمیوں کا صدقہئ فطر ادا کرو۔ کھجور اور جو کے ایک صاع سے ایک آدمی کا صدقہئ فطر ادا کرو۔ (دار قطنی، مسند احمد) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے صدقہئ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ضروری قرار دی۔ صحابہئ کرام نے گیہوں کے آدھے صاع کو اس کے برابر قرار دیا۔ (بخاری ومسلم) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صدقہئ فطر ہر چھوٹے بڑے اور آزاد و غلام پر گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور وجو کا ایک صاع ضروری ہے۔ (اخرجہ عبدالرزاق) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا صدقہئ فطر میں گیہوں کا آدھا صاع اور کھجور وجو کا ایک صاع ادا کرتی تھیں۔ (اخرجہ ابن ابی شیبہ) وضاحت: صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ صدقہئ فطر میں ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھانے کی اشیاء سے دیا جائے اور کھانے کی اشیاء سے مراد جو یا کھجور یا پنیر یا کشمش ہے جیساکہ اس حدیث کے خود راوی صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے۔ لیکن اس میں کسی بھی جگہ گیہوں کا تذکرہ نہیں ہے، غرضیکہ نبی اکرم ﷺکے اقوال میں کسی بھی جگہ مذکور نہیں ہے کہ گیہوں سے ایک صاع دیا جائے، ہاں حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب حتی کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں موجود ہے کہ صدقہئ فطر میں گیہوں دینے کی صورت میں صحابہئ کرام آدھا صاع(یعنی تقریباً پونے دو کیلوگرام) گیہوں دیا کرتے تھے جیساکہ مندرجہ بالا احادیث میں مذکور ہے۔اکثر علماء کے قول کے مطابق جو یا کھجور یا کشمش کا ایک صاع (تقریباً ساڑھے تین کیلو) یا گیہوں کا نصف صاع (تقریباً پونے دو کیلو) یا اس کی قیمت صدقہئ فطر میں ادا کرنی چاہئے لیکن اختلاف سے قطع نظر اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے اور وہ گیہوں سے بھی ایک صاع یا اس کی قیمت دینا چاہتا ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ کیا غلہ واناج کے بدلے قیمت دی جاسکتی ہے؟حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام بخاریؒ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، حضرت حسن بصریؒ،علماء احناف اور دیگر محدثین وفقہاء وعلماء نے تحریر کیا ہے کہ غلہ واناج کی قیمت بھی صدقہئ فطر میں دی جاسکتی ہے۔ زمانہ کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اب تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کا اتفاق ہے کہ عصر حاضر میں غلہ واناج کے بدلے قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔ صدقہئ فطر میں گیہوں کی قیمت دینے والے حضرات تقریباً پونے دو کیلو گیہوں کی قیمت بازار کے بھاؤ کے اعتبار سے ادا کریں اور جو مالدار حضرات کھجور یا کشمش سے صدقہئ فطر ادا کرنا چاہیں تو وہ ایک صاع یعنی تقریباً ساڑھے تین کیلو کی قیمت ادا کریں، اس میں غریبوں کا فائدہ ہے۔ صدقہئ فطر کے مستحق کون ہیں؟ صدقہئ فطر غریب وفقیر مساکین کو دیا جائے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں گزرا (مساکین کو کھانا کھلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے)۔ صدقہئ فطر دوسرے شہر یا دوسرے ملک بھیجا جاسکتا ہے:ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہئ فطر بھیجنا مکروہ ہے (یعنی جہاں آپ رہ رہے ہیں مثلاًریاض میں تو وہیں صدقہئ فطر ادا کریں)۔ ہاں اگر دوسرے شہر یا دوسرے ملک مثلاً پاکستان اور ہندوستان میں غریب رشتہ دار رہتے ہیں یا وہاں کے لوگ زیادہ مستحق ہیں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں ہے۔ صدقہئ فطر سے متعلق چند مسائل:ایک آدمی کا صدقہئ فطر کئی فقیروں کو اور کئی آدمیوں کا صدقہئ فطر ایک فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔ جس شخص نے کسی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے اسے بھی صدقہئ فطر ادا کرنا چاہئے۔ آجکل جو نوکر چاکر اجرت پر کام کرتے ہیں ان کی طرف سے صدقہئ فطر ادا کرنا مالک پر واجب نہیں ہے۔ ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں