تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی رفیق فکرو خبر بھٹکل
وہ خدمت دین کے جذبہ سے گدگ سے بھٹکل آئے تھے ، یہاں کے دینی ماحول سے پہلے سے متاثر تھے، ان کے اس دینی جذبہ کے پیش نظر جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں بحیثیت استاد مقرر ہوئے۔ جامعہ کے موجودہ موقر استاد ان کے شاگردوں میں ہیں۔ اس دوران وہ اہل اللہ کی صحبت میں رہے، جامعہ کے اس وقت کے اساتذہ میں مولانا فضل الرحمن صاحب رحمانی، مولانا رمضان صاحب اور حافظ کبیر الدین صاحب تھے۔ کچھ سال جامعہ میں رہے اور اس کے بعد انجمن اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول میں سرکاری ٹیچر کی حیثیت سے سالوں تک خدمات انجام دی۔ اس دوران مولانا محمد صادق صاحب اکرمی سے بہت متاثر ہوئے۔ ریٹائر منٹ کے بعد بھی مولانا سے ملاقات رہی۔ مولانا ان کی رہائش گاہ ماسٹر کالونی تشریف لاتے اور گھنٹوں بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرتے۔ ان کا پورا نام سراج الدین سرور ہے اور یہ سراج ماسٹر کے نام سے معروف تھے۔ ان کا تعلق گدگ سے تھا۔صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند تھے۔ مسجد کی آبادی کی فکر ان پر سوار رہتی، کسی کو مسجد سے دور دیکھتے تو مجھ سے آکر کہتے ۔مولانا! فلاں کی ملاقات ہو تو اچھا ہے۔ اسی طرح مسجد کی تعمیری کام میں بھی بڑی دلچسپی لیتے، عمر کے آخری مراحل میں جب مسجد کی توسیع کا کام ہو رہا تھا تو دیکھ کر بڑے خوش ہوتے۔ چھت ٹپکنے لگی تو خود مزدور بلاکر اس کو ٹھیک کروایا اور رقم اپنی جیب سے ادا کی۔ بچوں سے بڑی محبت تھی، ان کے یہاں پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں لیکن ماتھے پر کبھی شکن نہیں آیا۔ کبھی مسکراکر اتنا کہہ دیتے کہ ہماری مستورات کی جماعت ہے۔ شبینہ مکتب میں بچوں کی بڑی فکر کرتے اور اس کے احوال بھی پوچھتے تھے۔ ان کو ٹافیاں اور لڈو کھلا کر بچوں سے محبت کا ثبوت دیتے۔کبھی رقم عنایت کرکے کہتے کہ میری طرف سے بچوں کو کچھ لاکر کھائیے۔ اپنے محلے والوں کا بڑا اکرام کرتے اور ہر ایک کا ہمیشہ ذکر خیر کرتے، ان کی وجہ سے نہ پڑوسیوں کو کوئی تکلیف تھی اور نہ محلہ والوں کو ، چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی، اپنے چاہنے والوں کا تذکرہ میں جامعہ کی زندگی کو خوب یاد کرتے۔ عمر کے آخری مرحلہ میں بہت کمزور ہوئے لیکن آخر تک بھی مسجد سے اپنا تعلق بنائے رکھا۔ لاک ڈاؤن کے زمانہ میں اکثر نمازیں مسجد ہی میں ادا کیں اور تراویح کا بھی اہتمام رہا ، جب بھٹکل میں مزید سختی برتی گئی تو فون کرکے پوچھتے مولانا! تراویح پڑھانے کے لیے آپ مسجد کب آرہے ہیں، مسجد آنے پر اطلاع دینے کا ضرور کہتے۔ انتیسویں تراویح کو جب ختم قرآن تھا تو میرے پہونچنے سے پہلے ہی مسجد پہنچ گئے تھے۔ تراویح کے بعد بڑی دیر تک گفتگو کی اور اپنی بڑی محبتوں کا ثبوت دیا۔ عصری تعلیم کے باوجود اہل اللہ کی صحبت کا اثر ان کی پوری زندگی پر رہا۔ کرتا پائجامہ میں ہمیشہ ملبوس رہے۔ دینی فکر غالب رہی۔ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور اور ان کے اہل خانہ سمیت جملہ متعلقین کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں