سچ بولنے کی قیمت!

 

عالم نقوی

 

گجرات کے سابق آئی پی ایس افسر  سنجیو بھٹ سچ بولنے اور  پامردی کے ساتھ اُس پر قائم رہنے کی سزا بھگت رہے ہیں اور منافق کانگریس سمیت سبھی نام نہاد اپوزیشن پارٹیاں خاموش ہیں۔’’گودی میڈیا ‘‘ تو ہے ہی سنگھ پریوار کا ’’لے پالک ‘‘ سو اُس کا شکوہ ہی بیکار ہے لیکن انہیں کیا ہوا ہے جو خود کو سچ اور سچائی کا ٹھیکے دار سمجھتے ہیں ؟مودی، یاہو اور ٹرمپ  کے جھوٹ،ظلم، فریب اور منافقت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کرنے  والے سنجیو بھٹ کی حمایت میں کیوں  آگے نظر نہیں آرہے ہیں؟ یہ بذات خود ناقابل فہم ہے۔

۵ ستمبر ۲۰۱۸  کوپولیس انہیں اٹھا کر لے گئی تھی اس کے بعد سے تا حال اُن کی بیوی اور دیگر مٹھی بھر بہی خواہوں کو کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں ؟ ان لوگوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی  کہ سنجیو بھٹ کو عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہونے کی اجازت دی جائے۔ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۸ کی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے حکومت گجرات کو بس اتنی ہدایت کی  کہ ’’اگر یہ سچ ہے تو بہت سنگین معاملہ ہے اس لیے ریاستی حکومت  عدالت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرے‘‘ سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے حکومت گجرات کی نمائندگی کرتے ہوئے جمعہ ۵ اکتوبر ۲۰۱۸ تک کی مہلت مانگی تھی لیکن عدالت نے اگلی سماعت کے لیے جمعرات ۴ اکتوبر ۲۰۱۸ کی تاریخ مقرر  کی۔ ۔اور۔ ۔ اُس روز سنجیو بھٹ کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے، انہیں  انصاف دلانے کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

 

جس برسوں پرانے کیس میں انہیں  پولیس  نے اپنی حراست میں لے کر ’مفقود الخبر ‘ کر رکھا  ہے  اس  میں سنجیو بھٹ نے عدالت سے اپنی  کسٹڈی میں رکھے جانے کی درخواست کی تھی جسے  عدالت نے۴ اکتوبر ۲۰۱۸ کو، گجرات حکومت، وزیر اعظم مودی اور بی جے پی سربراہ  امت شاہ  کی مرضی کے عین مطابق بیک بینی و دو گوش مسترد کردیا۔

سنجیو بھٹ نے ۲۰۱۱ میں عدالت  عظمیٰ میں ایک حلف نامہ داخل کر کے بتایا تھا کہ وہ ۲۷فروری ۲۰۰۲ کی رات کو گجرات کے (اُس وقت کے )وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی بلائی ہوئی  اعلی پولیس  افسروں کی اُس میٹنگ میں شریک تھے جس میں شرکا ء کو ہدایت کی گئی تھی کہ’’ گودھرا ٹرین آتش زنی کے ’انتقام کی کارروائی ‘ کو روکنے کی کوشش نہ کریں اور جو بھی ہو رہا ہے اُسے ہونے دیں ‘‘۔ اسی کے بعد سے انہیں  پریشان کیے جانے کا ایک  کبھی نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا، یہاں تک کہ ۲۰۱۵ میں انہیں سروس سے بر طرف کر  دیا گیا۔ فی الحال  ایک  وکیل کی مبینہ طور پر ’ناجائز ‘گرفتاری کے بیس سال پرانے کیس  میں وہ پولیس کی کسٹڈی میں ہیں جس میں اُس  وقت  حکومت نے ان کی حمایت کی تھی کہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ اُن کی معمول کی پولیس ڈیوٹی کا حصہ تھا۔ لیکن اب چونکہ وہ گجرات ہولوکاسٹ ۲۰۰۲ (مسلمانوں کے نسلی صفائے )کے مقدمے میں حکومت گجرات کے خلاف ایک اہم گواہ ہیں لہٰذا  انہیں سبق سکھانے کے لیے جب کچھ اور نہ بن پڑا تو بیس برس پرانے اس مجہول مقدمے کا سہارا لے کر انہیں ’لا پتہ ‘ کر دیا گیا ہے ! جہاں تک فروری ۲۰۰۲ کی اس میٹنگ کا تعلق ہے ہم نومبر ۲۰۰۲ میں شایع اپنی کتاب ’لہو چراغ ‘ سے کچھ اقتباسات ذیل میں  نقل کر رہے ہیں :

 

جرمنی، ہالینڈ برطانیہ اور یورپی یونین (کے سفرائے ہند ) اس بات پر متفق ہیں کہ ’’گجرات میں مسلمانوں کو خصوصی طور پر تشدد کا نشانہ بنا یا گیا۔ ’پولیس  کو سیاسی آقاؤں نے ہدایت دی کہ  وہ یا تو اپنا منھ پھیر  لے یا پھر جانبداری سے کام لے ( یعنی مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں کی مدد کرے ) اور ریلیف کے کاموں میں غیر معمولی تاخیر کی گئی اور جو مدد دی گئی وہ ناکافی تھی۔ برطانیہ اور یورپی یونین (کے سفارتی نمائندے)اس بات پر بھی متفق ہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند تشدد کے لیے صرف بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ۔جرمنی کی رپورٹ ایک جرمن سفارتکار نے احمدآباد اور بڑودہ کا دورہ کرنے کے بعد ترتیب دی ہے اور لکھا ہے کہ ’سنگھ پریوار نے گجرات فساد کی قیادت کی اور مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانوں کو اُن کی فہرست بنا کر منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا اور ’’پولیس سے یہ کہہ دیا گیا کہ وہ مداخلت نہ کرے ‘‘۔ ہالینڈ نے کہا ہے کہ’ پولیس نے جانبداری سے کام کیا ہے ‘۔۔ جرمن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری حکام نے ان سے بات ہی نہیں کی اوران کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا۔ ۔‘‘(لہو چراغ  ۲۰۰۲ص ۱۱۹)

 

’’ایک سابق آئی اے ایس افسر  ایس شنکر مینن نے اپنے مضمون ’’ہمارے جیسے لوگ۔ ۔‘‘ میں (مطبوعہ ایشین ایج ۱۹ اپریل ۲۰۰۲ ص ۱۳ )ایک ایسا واقعہ لکھا ہے جسے پڑھ کے ہمیں جنوری ۱۹۹۳ کے اس واقعے کی یاد گئی جو زمانہء فساد کے(ممبئی کے )  دلت مئیرچندر کانت ہنڈورے اور ( شام کے ہندی اخبار ) مہانگر کے ایک صحافی کے ساتھ سینا پرمکھ (بال ٹھاکرے )کے بنگلے ’ماتو شری ‘میں  پیش آیا تھا(جس میں دونوں نے بال ٹھاکرے کو اپنے سینکوں کو وضاحت کے ساتھ یہ تفصیلی احکامات دیتے ہوئے  دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا تھا کہ شیو سینکوں کو کب، کہاں اور کس طرح دنگا بھڑکانا اور لوٹ مار کرنا ہے)جو اب شری کرشنا کمیشن کی رپورٹ میں درج ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

شنکر مینن نے لکھا ہے کہ سابر متی ایکسپریس واردات کے دوسرے دن گودھرا سرکٹ ہاؤس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے سرگرم کارکنوں کی ایک اعلی سطحی میٹنگ ہوئی جس میں اتفاق سے ایک ایسا آئی اے ایس افسر بھی شریک تھا جسے لوگ پہچانتے نہیں تھے۔ وہ نیا نیا ڈپٹی کلکٹر اپائنٹ ہوا تھا۔ میٹنگ کی صدارت کرنے والے ’’افسر اعلیٰ‘‘نے سوال کیا :

 ’’کتنے لوگ مرے ؟‘‘۔

اس وقت سابر متی ایکسپریس ٹرین سے ملنے والی اٹھاون (۵۸) لاشوں کے جواب میں باسٹھ(۶۲)بے گناہ افراد (زندہ)جلائے جا چکے تھے۔

اُس ’’سربراہ‘‘ نےیہ سن کر کہا کہ :’’اپنا کام جاری رکھو۔ تم اس گنتی کے آخر میں دو صفر کا اضافہ کر سکتے ہو (یعنی ۶۲۰۰)۔‘‘

 

یہ نقل کرنے کے بعد شنکر مینن نے لکھا ہے کہ جو کمیشن بھی گجرات قتل عام کی تحقیقات کررہا ہو ’’اُسے پتہ لگانا ہوگا کہ کیا نریندر مودی نے واقعی یہ حکم دیا تھا ؟‘‘۔

اتفاق سے ۶ اکتوبر ۲۰۱۸ کو  گلف ٹائمس، دوحہ نے خبر رساں ایجنسی IANSکے حوالے سے  مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر لفٹننٹ  جنرل ضمیر الدین شاہ کا ایک بیان شایع کیا ہے کہ وہ’’۲۸ فروری اور یکم مارچ ۲۰۰۲ کی درمیانی رات کو۲بجے، جب گجرات جل رہا تھا، اُس وقت کے وزیر دفاع جارج فرنانڈیس کی موجودگی میں اُس وقت کے ریاستی وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے ملے تھےاور  امن و امان کے قیام کے لیے فوج کو درکار فوری سہولتوں  کی ایک فہرست ان کے حوالے کی تھی لیکن (اس میٹنگ کے ٹھیک پانچ گھنٹے بعد ) یکم مارچ ۲۰۰۲ کو صبح سات بجے فوج کے جو  تین ہزار جوان احمد آباد ہوائی اڈے پر اترے تھے  انہیں متاثرہ مقامات تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ  کی سہولت دینے میں احمد آباد سول انتظامیہ نے ۲۴ گھنٹے لگا دیے، اس دوران  ۲ مارچ کی صبح تک شہر میں جو  سیکڑوں لوگ  لوگ قتل  کر دیے گئے انہیں فوج کے جوان  بآسانی بچا سکتے تھے۔

لفٹننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے  اپنے تجربات اور اپنی یاد داشتوں پر مشتمل  ’’سرکاری مسلمان ‘‘کے نام سے انگریزی میں ایک کتاب لکھی ہے  جس کا اجرا اگلے ہفتے ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۸ کو انڈیا انٹر نیشنل سنٹر دہلی میں  سابق نائب  صدر جمہوریہ حامد انصاری کریں گے۔ اپنی کتاب اور اس تقریب کی تفصیلات بتاتے ہوئےجمعہ ۵ اکتوبر ۲۰۱۸ کو انہوں نے  منتخب اخبار نویسوں  کو بتایا کہ تین ہزار جوانوں کی نفری ہونے کے باوجود ہم ۲۴ گھنٹے احمدآباد ہوائی اڈے  کے میدان میں بے دست و پا پڑے رہے اور کچھ نہ کر سکے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
07؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

تعلیم یافتہ نوجوان طبقہ ارتداد کے دہانے پر….

مشرق کاجنازہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرا دھوم سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے