ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
علماء کرام نے روزے کی بہت سی خصوصیات بیان کی ہیں جن میں سے چند کا ذکر ذیل میں کیا جارہاہے۔
1- روزہ تقویٰ پیدا کرتا ہے:۔ہم جانتے ہیں کہ روزہ فرض کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس کا مقصدیہ بیان فرمایا تھا:۔
”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔“
(البقرۃ: ۳۸۱)
روزہ سے انسان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔روزہ انسان کو خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس دلاتا ہے۔آپ روزے کی حالت میں اسی لیے تو کچھ نہیں کھاتے پیتے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔یہی وہ احساس ہے جسے تقویٰ کہا جاتا ہے۔مستقل تیس دن تک یہ احساس اک بندہ ئ مومن کو باقی کے گیارہ مہینے تک خدا کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس کراتا رہتا ہے۔ذرا سوچیے یہ روزے کاکتنا بڑا فائدہ ہے۔ روزے کے علاوہ وہ کونسی عبادت ہے جو یہ احساس اس درجے تک کراتی ہے کہ گویا انسان خدا کو دیکھنے لگتا ہے۔وہ کسی تنہائی اور خلوت میں بھی روزے کو توڑنے والا کام نہیں کرتا۔
تقویٰ وہ قیمتی سرمایہ ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں سرخ روئی اور کامرانی عطا کرتا ہے۔خدا کا ڈر انسان کو دنیا میں ہر گناہ سے باز رکھتا ہے۔وہ کسی کا دل نہیں دکھاتا،کسی کا مال نہیں مارتا،کسی پر ظلم نہیں کرتا،سب کے حقوق ادا کرتا ہے،لوگوں کو معا ف کردیتا ہے۔لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے اور اپنے حق سے کم پرراضی ہوجاتا ہے،ایسے انسان سے دنیا میں کون ناراض ہوسکتا ہے۔جو انسان مخلوق کے حقوق صرف اس لیے ادا کرتا ہوکہ اسے اللہ کو جواب دینا ہے تو پھر وہ اللہ کے حقوق سے کیسے غافل ہوسکتا ہے۔بندوں کے حقوق ادا کرنے پر دنیا میں عزت اور اللہ کے حقوق ادا کرنے پر آخرت میں کامیابی کیوں کر نہ ملے گی؟یہ ہے روزے کی سب سے بڑی خصوصیت جو روزے دار میں پیدا ہوتی ہے۔
2- روزہ ڈھال ہے:۔روزہ انسان کو،اللہ کی نافرمانیوں سے اور معاصی سے بچاتا ہے۔ شر سے انسان کی حفاظت کرتا ہے۔یہ روزے کا بڑا فائدہ ہے۔انسان گناہوں سے دور رہ کر اپنے اخلاق و کردار کو سنوارتا ہے۔
3- روزہ مغفرت کا ذریعہ ہے۔روزے کی وجہ سے روزے دار کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ایک بندے کی معراج یہی ہے کہ اللہ اس سے خوش ہوجائے اور اسے معاف کردے۔روزے دار کی بخشش کی خوش خبری حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
مَنْ صَاْمَ رَمْضَانَ اِیْمَاناً وَاِحْتَسَاباً غُفِرَ لَہٗ ذَنْبَہُ مَاتَقَدَّمَہٗ(متفق علیہ)
جس نے حالت ایمان میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے روزہ رکھا اس کے تمام گناہ معاف ہوگئے۔
4- جنت کا دروزہ مخصوص کراتا ہے:۔روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ روزہ رکھنے والوں کے لیے مخصوص کراتا ہے،یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے حشر کے دن آواز لگائی جائے گی کہ روزے دار کہاں ہیں؟وہ جہاں بھی ہیں ”باب ریان“ سے جنت میں داخل ہوجائیں۔جب تمام روزے دار جنت میں داخل ہوجائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔
5- حشر میں سفارش کرے گا:۔روزے کی پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔روزے اور قرآن کے علاوہ کسی عبادت کو یہ سعادت حاصل نہیں کہ وہ کسی کی سفارش کرسکے۔عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوت کے کام سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما، قرآن کہے گا اے رب! ہم نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمالے گا۔(مسند احمد)
6- روزے دار کی بو اللہ کو پسند ہے:۔روزے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو،اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے۔یعنی روزے کی حالت میں اگرچہ منھ کی بو انسانوں کو ناگوار لگتی ہے۔مگر اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے اس کو وہ بو بھی مشک سے زیادہ پسند ہے۔یہ ایک مشت خاکی کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ اس کا خالق و مالک اس کی ناگوار بو کو بھی پسند فرماتا ہے۔
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور یقینا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔“(بخاری)
7- افطار کرانے کا اجرملتا ہے:۔ اللہ روزے دار کو افطار کرانے پر بھی اجر دیتا ہے اور روزہ افطار کرانے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرتا،اگر کسی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے تو اس کی مغفرت کا وعدہ کرتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”اگر کوئی شخص رمضان میں کسی شخص کاروزہ کھلوائے تو وہ اس کی مغفرت اور دوزخ سے چھٹکارے کاسبب ہے اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا روزے دار کے لیے ہے اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی واقع نہیں ہوگی۔“ صحابہؓ نے عرض کیا: ”اے رسول خدا ﷺ ہم میں سے ہر شخص روزہ افطار کرانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔“ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہ اجر اس کو بھی دے گا جو دودھ کی لسی یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے افطار کرادے۔اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کھلانا کھلائے تو اللہ اس کو میرے حوض سے ایسا شربت پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی۔“ (بیہقی)
8- روزہ دو خوشیاں دیتا ہے:۔روزے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ روزے دار کودو خوشیاں عطا کرتا ہے۔ ایک خوشی کا موقع وہ ہوتا ہے جب روزے دارافطار کے لیے بیٹھتا ہے۔پیاس کی شدت میں وہ شربت کی طرف دیکھتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے،تیز گرمی میں ٹھنڈے پانی اور شربت کی لذت کو صرف ایک روزے دار ہی محسوس کرسکتا ہے۔اس کی لذت اور ذائقہ کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔روزے دار اپنے روزے کی تکمیل پر بھی خوش ہوتا ہے اور اپنے رب کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوکر بھی خوش ہوتا ہے۔
دوسری خوشی روزے دار کو اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔اس وقت اس کا رب اسے روزوں کے بدلے جو انعامات عطا کرے گا وہ روزے دار کے اندازے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔اس کے منھ کی بو کو مشک سے زیادہ پسند کیا جائے گا،اسے با ب الریان سے جنت میں جانے کا مژدہ سنایا جائے گا۔یہ خوشی پاکر روزے دار پھولا نہ سمائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا:
نبی ﷺ نے فرمایا کہ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک جب،جب کہ وہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب،جب کہ وہ اللہ سے ملاقات کرے گا۔(بخاری عن ابی ھریرہ ؓ)
9- روزہ کا اجر طے شدہ نہیں ہے:۔روزے کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کا بدلہ طے شدہ نہیں ہے۔جب کہ تمام عبادات کا بدلہ اللہ کے یہاں طے ہے کسی نیکی پر دس گنا اجر ملتا ہے کسی پر ستر گنا،کسی پر سو گنا اور کسی پر سات سو گنا لیکن روزے کے متعلق اللہ نے فرمایا۔حدیث قدسی ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْوِیہِ عَنْ رَبِّکُمْ، قَالَ: لِکُلِّ عَمَلٍ کَفَّارَۃٌ، وَالصَّوْمُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ ِ(البخاری)
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: ہرعمل کا کفارہ ہے اور روزہ میرے لئے ہے میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
بعض محدثین اَجزی بہ کا تلفظ اُجزیٰ بہ کرتے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود بدلہ بن جائے گا۔یعنی روزے دار سے کہے گا کہ تو نے میرے لیے اپنا کھانا پینا چھوڑا اور خواہشات کو قابو میں رکھا۔تیرے سامنے اچھے اچھے کھانے تھے،لذیذ مشروبات تھے،سجی سنوری خوبصورت بیوی تھی لیکن تونے میری رضا کے لیے سب کچھ چھوڑے رکھا تیری اس قربانی کا بدلہ میں خود ہوں،میں حاضر ہوں بتا تیری کیا خواہش ہے؟
روزے دار کا کتنا بلند مقام ہے۔روزے رکھنے کے کتنے فائدے ہیں۔یہ فائدے اور خصوصیات تو وہ ہیں جومجھ جیسے کم علم نے بیان کیے ہیں۔علماء نے اس کے علاوہ اور بہت سی خوبیاں بیان کی ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کے فائدے حکیموں،طبیبوں نے بیان کیے ہیں وہ الگ ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان فائدوں کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مضمون نگار کی رائے سےادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
جواب دیں