’’روشن خیالی اور پاکبازی‘‘ ان دونوں امتیازی خصوصیات کو قاضی صاحب بھوپال کے اجتماعی ذہن ورجحان میں داخل کرنے کے لئے ساری عمر کو شاں رہے۔ تنگ نظری جہاں بھی دکھائی دی، جس شکل وصورت میں نظرآئی اس سے قاضی صاحب نے نفرت کی اور علم نیز اُس کے فیضان سے سچا پیار ۔ اپنے ساتھ جہاں کو لے کے چلنے کے ذوق وشوق نے ہی قاضی صاحب کو بلالحاظ مذہب وملت اتنا محبوب، مضبوط اور دلآویز بنادیا تھا کہ وہ ہمارے ضمیر کی آواز اور اجتماعیت کی علامت بن گئے تھے۔
کہنے کو قاضی صاحب نے عمر طبعی تک پہونچ کر کوئی ۷۱ برس کی عمر میں وفات پائی لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے جانے کے دن ابھی نہیں آئے ہیں۔ وہ ایسی سرگرم زندگی گزار رہے تھے جس میں بظاہر سن وسال کا کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دیتا، مرض پیری کے باوجود صحت مندوں جیسی تازگی اُن کے چہرے بشرے پرنظر آتی تھی۔
آج سے ۲۵ سال پہلے حیدرآباد کی سیرت کانفرنس کے لئے رخصت کرتے وقت کس کو یہ خیال تھا کہ وہ محترم قاضی صاحب کا آخری سفر ہوگا اور ہم انہیں زندہ نہیں دیکھ سکیں گے لیکن ہوا یہ کہ وہ جس ذوق وشوق کے ساتھ سیرت مبارکہ کے بیان کے لئے حیدرآباد تشریف لے گئے اُسی جذبہ وذوق کے ساتھ آخرت کیلئے رختِ سفر باندھ لیا۔
حضرت قاضی صاحب روشن خیال عالم دین ہی نہ تھے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عصری علوم پر بھی بے پناہ قدرت عطا کررکھی تھی اور وہ بصیرت بھی جس سے قاضی صاحب علم کے ان دقیق نکتوں تک پہونچ جاتے تھے جو عام نظروں سے عموماً مخفی رہتے ہیں، ان کے علم میں کبھی جمود پیدا نہ ہوا بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کی شگفتہ مزاجی کی طرح علم بھی آخر تک تروتازہ رہا۔ عمر کے آخری حصہ میں قاضی صاحب نے اپنی علمی وتحقیقی کاوشوں کو سمیٹنا شروع کردیا تھا لیکن اُن کے حافظہ میں اتنا کچھ محفوظ تھا کہ اس کے لئے ایک عمرِ مزید چاہئے ، پھر بھی وہ بڑی ہمت والے تھے کہ انہوں نے شعر وادب اور تاریخ پر بیش بہا کتابیں اپنی یاد گار چھوڑی ہیں، جس موضوع پر قاضی صاحب قلم اٹھاتے اُس کا حق ادا کردیتے، انہیں تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر پر بھی بڑی قدرت حاصل تھی۔ شاعر مشرق کی یاد میں علامہ اقبال ادبی مرکز کے ۱۹۸۷ء میں منعقدہ سیمینار میں اُن کے پرمغز مقالہ پر ان لوگوں کو بھی سردُھنتے دیکھا گیا جو اچھے اچھوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی طرح مختلف نوعیت کے تہذیبی سماجی اور مذہبی جلسوں میں قاضی صاحب کی شرکت اس بات کی دلیل ہوا کرتی تھی کہ کوئی نادر علمی بات تاریخی معلومات یا مفید گفتگو ضرور سننے کو ملے گی۔ قاضی صاحب کس قدر زود گو اور قادرالکلام شاعر تھے اس کا ثبوت ان کی منظوم سیرۃ النبی سے ملتا ہے اس کے علاوہ معرفت حق پر ان کی سینکڑوں رباعیاں،نظمیں اور دیگر شعری تخلیقات بالخصوص طویل نظمیں بھی ہیں جن کو اپنی موثر آواز اور مخصوص ترنم کے ساتھ جب سناتے تو سماں بندھ جاتا تھا۔ بھوپال میں اکثر نعتیہ مشاعروں کی صدارت فرماتے تو کئی کئی نعتیں ایک ہی طرح میں بلاتکلف سنادیتے۔ دارالعلوم تاج المساجد کے دورِ تدریس میں بارہا اُن کے شعری سرمایہ سے ہم طلباء کو استفادہ کا موقع ملا۔ غالباً ۱۹۸۵ء کے آخر میں دارالعلوم تاج المساجد کے زیر اہتمام علامہ سید سلیمان ندوی پر ایک وقیع سیمینار ہوا تواِس موقع پر شعری نشست کی صدارت فرماتے ہوئے قاضی صاحب نے سید صاحب پر ایک طویل نظم اپنے مخصوص ترنم کے ساتھ ایسے والہانہ انداز میں سنائی تھی کہ محفل پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ قاضی صاحب بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور سامعین بھی متاثر وآبدیدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔نئی نسل کے لئے یہ کسی انکشاف سے کم نہ ہوگا کہ آزادی کے فوراً بعد بھوپال میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی جو تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی اس کی صدارت سیدالعلماء علامہ سید سلیمان ندوی نے فرمائی اور نوجوان ادیب کی حیثیت سے وجدی الحسینی صاحب نے اس میں سرگرم حصہ لیا تھا۔ ماضی قریب کے اس واقعہ کا بھی اکثر کو علم نہ ہوگا کہ بھوپال گیس المیہ کے بعد یہاں کے مسائل خاص طور پر گیس متاثرین کے علاج اور بازآبادکاری کیلئے وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ نے وزیراعظم راجیوگاندھی سے ملاقات کے لئے جو وفد ترتیب دیا اس کی قیادت حضرت قاضی صاحب نے فرمائی تھی اور دہلی جاکر نہایت تدبر کے ساتھ گیس متاثرین کے مسائل کو راجیوگاندھی کے سامنے پیش کرکے ان کے فوری حل کے لئے ایک ایکشن پلان منظور کرایا تھا، جمعیۃ علماء سے قاضی صاحب کا جو تعلق زمانہ طالب علمی میں قائم ہوا ، وہ آخر تک باقی رہا او رجمعیۃ علماء مدھیہ پردیش کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔
علم سے سچی محبت، تلاش وجستجو کی عادت، تحقیق میں کاوش قاضی صاحب کی سیرت کے نمایاں پہلو ہیں، انہیں خود بھی علمی کارناموں سے دلچسپی تھی اور دوسروں کی علمی سرگرمیوں کی قدر بھی کرتے تھے، علمی معاملات میں کسی کی خدمت پر پرخلوص طریقہ سے اظہار تشکر اُن کے مزاج میں داخل تھا، قاضی صاحب کی تحریروں میں جیسی ادبی آن بان اور ایک خاص فضا ملتی ہے گفتگو میں بھی وہی عالمانہ شان اور وقار نظر آتا، ایک مخلص اور حقیقی دانشور کی شرافت نیز منکسرالمزاجی قاضی صاحب کی طبیعت کا خاصہ تھی، مجھ جیسے ادنیٰ شاگرد سے جس کی حیثیت ان کے آگے ’’چہ نسبت خاک را عالم پاک‘‘ سے زیادہ نہ تھی بڑی محبت کا سلوک فرماتے، اکثر میری تحریر پر ہمت افزائی کے کلمات ادا کرتے جو قاضی صاحب کی خوردنوازی کا ثبوت ہے۔
حضرت قاضی صاحب نے اپنی عمر عزیز کا کوئی پل ضائع نہ کیا۔ وہ اپنے پیچھے علم وادب، تقویٰ اور طہارت کا جو خزانہ چھوڑ گئے ہیں ان کی یاد کو باقی رکھنے کے لئے وہ کافی ہے۔ قاضی شہر کے عہدہ جلیلہ پر برسوں فائز رہنے کے باوجود قاضی صاحب نے کبھی بزرگی یا تقدس کے لبادہ میں رہنا پسند نہ کیا۔ ٹوپی شیروانی یا سر پر معمولی سا رومال ان کا عام لباس تھا۔ نہ جبہ و دستار نہ مشایعت میں عقیدت مندوں کا ہجوم، وہ حقیقت میں ایک درویش صفت انسان تھے، جاہ وحشم سے دور، نمائش وبناوٹ سے عاری، تعارف نہ ہو تو شکل وصورت سے عام آدمی کی طرح غیر اہم لگیں، لیکن زبان کھولیں تو پھول جھڑیں، علم وحکمت کے موتی برسیں، قلم اٹھائیں تو علم ودانش کے ایوان روشن ہوجائیں۔
قاضی صاحب نے بڑے پُرخطر زمانے میں اِس دنیا کو چھوڑا اس رخصت ہوتے زمانہ میں شخصیتوں سے محرومی اور نقصان کا احساس عام طور پر مفقود ہوتا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسا دور ہے جس میں واقعات کی رفتار اِتنی تیز ہوگئی ہے کہ نشاطیہ یا المیہ نقوش کا قائم رہنادشوار ہواجاتا ہے۔ نہ اپنے اکابرین کی جدائی اور اُن کی سرپرستی سے محرومی کا وہ ماتم دیکھنے کو ملتا ہے جو تیس چالیس برس پہلے تک ممکن تھا۔ بہر حال حضرت قاضی صاحب آج ہمارے درمیان خواہ موجود نہ ہوں، انہوں نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک جو علمی کارنامے انجام دیئے شعر وادب کے دامن کو جتنا وسیع ومالامال کیا وہ ہرگز فراموش ومعدوم نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنی تصانیف، اپنے افکار ونظریات، اپنے جذبے واخلاص اور اپنی ہمت وجرأت کے ساتھ ہماری تاریخ میں زندہ وپائندہ رہیں گے۔
جواب دیں